اداریہ کالم

حکومت سازی پر اتفاق

طویل مشاورت اور سخت شرائط کے بعد مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاق میں مل کر حکومت سازی کا اعلان کرتے ہوئے شہباز شریف کو وزیر اعظم اور آصف علی زرداری کو صدر مملکت کے عہدے کےلئے نامزد کردیا ہے۔ شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ(ن)کے صدر شہباز شریف سمیت دیگر رہنماو¿ں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ مذاکرات کے لیے قائم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کی کمیٹیوں نے بڑی محنت کے بعد اپنا کام مکمل کیا ہے۔ اب آپ کو بتا سکتا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کے نمبرز پورے ہو چکے ہیں اور ہم حکومت سازی پر عملدرآمد کریں گے، ہم حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ہم ملک کو بحرانوں سے نکالنے کےلئے ن لیگ کا ساتھ دے رہے ہیں پاکستان کو درپیش مشکلات کا حل نکالنے کےلئے اللہ تعالیٰ ہمارا ساتھ دے اور ہم کامیاب ہو جائیںہم مل کر مسائل کا مقابلہ کریں گے اور ہماری پوری کوشش ہو گی کہ عوام کی امیدوں کے مطابق کارکردگی دکھا سکیںبلاول بھٹو نے وفاقی کابینہ میں سیاسی جماعتوں کی شمولیت سے متعلق سوال کے جواب میں کہاکہ عوام کو وزیر اعظم سے مطلب ہے جہاں تک وزارتوں کی بات ہے تو اس پر وقت کے ساتھ بات ہوجائے گی ابھی معاہدہ طے ہوا ہے جلد تمام چیزیں عوام کے سامنے لائیں گے جبکہ صدرن لیگ شہبازشریف نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے کسی وزارت کا تقاضا نہیں کیا۔ تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیو ایم سے اتحادکیا ہے لیکن اسکے باوجود ان کے پاس حکومت بنانے کے لیے نمبر پورے نہیں ہیںآزاد امیدوار اپنی اکثریت ثابت کریں اور حکومت بنائیں ، ہم دل سے قبول کریں گے باریاں لینے کی بات نہیں پاکستان کو مشکلات سے نکالنا ہے ۔مشاورت سے آگے بڑھیں گے آصف علی زرداری نے کہاکہ ہماری جستجو صرف پاکستان اور آنے والی نسلوں کیلئے ہے۔ وزیراعظم کےلئے شہباز شریف دونوں پارٹیوں کے متفقہ امیدوار ہوں گے جبکہ آصف زرداری صدر کےلئے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔ہماری دعا ہے ملک کامیاب ہو،ہماری مشکلات دور ہوںپاکستان کو بحران سے نکالنے اور معاشرے میں پھیلی تقسیم ختم کرنے کےلئے مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنانے جا رہے ہیں۔اس موقع پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پاس حکومت بنانے کے نمبر پورے ہیں، ہم نئی حکومت بنانےکی پوزیشن میں ہیں، آصف زرداری کوپانچ سال کےلئے صدر مملکت منتخب کروائیں گے انہوں نے کہا کہ اس اتحاد نے مہنگائی کے خلاف جنگ کرنی ہے، معیشت کو دوبارہ اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنا ہے ۔صدر ن لیگ کا کہنا تھا کہ ہم مشاورت سے آگے بڑھیں گے یہ باریاں لینے کی بات نہیں،ہمیں پاکستان کو مشکلات سے نکالنا ہے،ہمارے اتحاد میں بزرگ بھی ہیں اور جوان بھی، دونوں مل جائیں تو بڑی طاقت بنتے ہیں۔اس موقع پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ پرنس چارمنگ شہباز شریف اور دیگر دوستوں کوویلکم کرتے ہیںہمارا اتحاد پاکستان اور پاکستانیوں کےلئے ہے ۔اس سے قبل اسلام آباد میں دونوں جماعتوں کے رہنماو¿ں کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں حکومت سازی سے متعلق امور پر گفتگو ہوئی۔ ملاقات میں بلاول بھٹو، شہباز شریف، اسحاق ڈار ، مراد علی شاہ، قمر زمان کائرہ اور احسن اقبال بھی موجود تھے۔حکومت سازی کے حوالے یہ پیش رفت خوش آئند ہے کیونکہ اب بین الاقوامی سطح پربھی تشویش کا اظہار ہونے لگا تھا۔ملک میں بننے والی نئی حکومت کو جہاں سیاسی محاذ پر بہت سارے مسائل کا سامنا کرنے پڑے گا تو اس سے بھی زیادہ اسے ایک گھمبیر معاشی صورتحال کا سامنا ہو گا جس میں ملک کی کمتر معاشی ترقی، مہنگائی، بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ایک بڑا چیلنج ملک پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے جس میں گذشتہ چند سال میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان پر ملکی و غیرملکی قرضوں کی تفصیلات سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ماہانہ بنیادوں پر جاری کی جاتی ہیں۔ مرکزی بینک نے 31 دسمبر 2023 تک ملک پر قرضے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق پاکستان پر مجموعی طور پر 65189 ارب روپے کا اندرونی و بیرونی قرضہ ہے جس میں صرف ایک سال کے دوران 14000 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ پاکستان کے ذمے واجب الادہ مجموعی قرض کا اگر ڈالر میں حساب لگایا جائے تو یہ 131ارب ڈالر بنتا ہے۔پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضوں کی وجہ سے جہاں ملکی معیشت اور اس میں ترقی کی رفتار متاثر ہو رہی ہے تو دوسری جانب اس کی وجہ سے ایک عام پاکستانی کی زندگی بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔
بجلی پھرمہنگی کرنے کاعندیہ
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ نگران حکومت پتہ نہیں کون سا مینڈیٹ لیکرآئی ہے جو آئے روزمہنگائی کے بم عوام پربرسارہی ہے ،کبھی بجلی مہنگی ،کبھی گیس مہنگی اورکبھی پٹرولیم مصنوعات مہنگی کردی جاتی ہیں۔ اب نگران حکومت نے ایک بارپھر بجلی مہنگی کرنے کی تیاری کرلی ہے ۔گزشتہ روزبجلی کی تقسیم کا ر کمپنیوں نے نرخوں میں 7روپے 13پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی میں دائر کر دی ہے۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی جانب سے نیپرا میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں جنوری کی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافہ کیا جائے۔ جنوری میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو 7ارب 93 کروڑ یونٹ بجلی فروخت کی گئی۔ جس کی لاگت ریفرنس پرائس سے 7روپے 13پیسے فی یونٹ زیادہ رہی اسلئے ایک ماہ کےلئے نرخوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔نیپرا اتھارٹی سے درخواست کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 66 ارب 77کروڑ روپے تک کا اضافی بوجھ پڑ سکتا ہے۔ نیپرا اس درخواست پر فیصلہ 23فروری کو سماعت کے بعد کرے گی۔فیصلے کا اطلاق کے الیکٹرک کے صارفین پر نہیں ہوگا۔دراصل بجلی، گیس اورپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے دیگراشیائے ضروریہ بھی مہنگی ہوجاتی ہیں۔آج مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ ایک غریب وقت دووقت کی روٹی کھانے کو ترس رہاہے ،عام آدمی کی زندگی پس کررہ گئی ہے آخر غریب جائے توکہاں جائے۔لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج دن بدن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں آئے روزاضافہ ہورہا۔ غربت کے ہاتھوں مجبور عوام اور روزمرہ کی ضرورتیں روزانہ ہی کی بنیاد پر کمانے والا طبقہ مہنگائی کی اس چکی میں سب سے زیادہ پسا ہے۔ کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے جیسے اب ہیں۔لوگ مہنگائی سے تنگ آگر خودکشیاں کر رہے ہیں ۔ مزدور کو مزدوری نہیں مل رہی۔ اس وقت بد ترین ہیجانی کیفیت ہے ، مہنگائی ملک کی تاریخ کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے، اگرمہنگائی کے تدارک کےلئے بروقت اقدامات نہ کئے گئے توحالات قابو سے باہرہوسکتے ہیں۔ہمارا ملک اس وقت معاشی طور پر کمزور ہو چکا ہے لیکن ہم ابھی تک پر سیاست کاکھیل کھیل رہے ہیں۔مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے،غریب خودکشی پر مجبور ہے ۔ ہمارے حکمران محض تماشائی بنے سب دیکھ رہے ہیں اور عوام مزید قرض کے بوجھ تلے دب رہی ہے، ہر آنے والا حکمران عوام کو مہنگائی ختم کرنے کا لالی پاپ دیتا ہے، عوام پاگلوں کی طرح ان کی ہر بات پر آمین کہتی ہے اور پھر جب ان کی نظروں سے یہ فریب کی دھند چھٹتی ہے تو وقت اور حالات بدل چکے ہوتے ہیں، نہ تو مہنگائی کم ہوتی، نہ قرض اترتے ہیں، نئے معاہدے ترتیب دیے جاتے ہیں اور نئے طریقے سے عوام کا ہی خون نچوڑا جاتا ہے۔آج پاکستان کا بچہ بچہ نہ صرف قرض کے بوجھ تلے دب چکا ہے بلکہ آنےوالی نسلیں بھی قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف سے حکومت حکومت قرض لیتی ہے اور غلامی پوری قوم کر رہی ہوتی ہے جو حکومت آتی ہے اس کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ، اب پاکستان کی معیشت مستحکم ہو گئی ہے، اب ہم نے مہنگائی پر کنٹرول شروع کردیا ہے لیکن عملی طورپر کچھ دکھائی نہیں دیتا اوپرسے رہی سہی کسر نگران حکومت نے پوری کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے