افغانستان کے ساتھ پاکستانیوں کو دلی لگا تھا ان کے لئے اس ملک کے شہریوں نے کم قربانیاں نہیں دیں افغانستان کی سرحد پاکستان کے علاوہ بھی چار پانچ ملکوں سے لگتی ہیں مگر افغان مہاجرین کو پاکستانیوں نے جس طرح سر آنکھوں پر بٹھایا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی مگر آج جب انہی کے ہاتھوں پاکستان لہو لہو ہے اور آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں تو ماضی کی غلطیوں کا احساس دوچند ہوجاتا ہے ملک وقوم کو آج ہاتھوں کی دی ہوئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑ رہی ہیں کیونکہ افغانستان نے بھائی چارہ اور پاکستان کے احسانات کو یکسر بھلا کر دشمنی پر کمر کس لی ہے پاکستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات اور ان واقعات میں افغانستان کی سرزمین کا استعمال اسلام آباد کے لئے گہری تشویش کا باعث بنا ہوا ہے یوں تو افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال عرصد دراز سے جاری ہے تاہم اگست2021کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کے دوبارہ قیام کے بعد دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور افغان عبوری حکومت کی دہشت گرد تنظیموں کی بھرپور سرپرستی پاک افغان تعلقات اور باہمی اعتماد کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے اور دو طرفہ تعلقات میں بتدریج سرد مہری کے اثرات دونوں ملکوں کے تجارت اور عوامی روابطہ پر بھی پڑ رہے ہیں افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت پاکستان دشمنوں کے ہاتھوں کا کھلونا خصوصا بھارت اور اسرائیل کے مفادات کی نگہبان بن چکی ہے پڑوسی ملک میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروہوں کی پناہ گاہیں انہیں کارروائی کی آزادی دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی پاکستان کی سلامتی بقا اور امن وامان کی صورت حال کو متاثر کرنے کی بڑی وجوہات ہیں اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں افغانستان میں القاعدہ اور فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی)جیسے دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے ناقابلِ تردید شواہد سامنے آئے ہیں اقوام متحدہ کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگران ٹیم کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ 36 ویں رپورٹ کے مطابق یہ گروہ افغانستان میں آزادانہ طور پر سرگرم ہیں اور وسطی ایشیائی ممالک اور خطے کے امن کیلئے ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں رپورٹ کے صفحہ نمبر 16 میں واضح کیا گیا ہے کہ افغانستان کی اتھارٹی دہشت گرد گروہوں بشمول القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کو کھلی چھوٹ دئیے ہوئے ہے یہ گروہ افغانستان کے چھ صوبوں غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل میں سرگرم ہیں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کے کئی تربیتی مراکز کام کر رہے ہیں جن میں سے تین نئے کیمپ ایسے ہیں جہاں القاعدہ اور تحریکِ طالبان پاکستان (فتنہ الخوارج)کے دہشت گردوں کو عسکری تربیت دی جا رہی ہے اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی آزادانہ سرگرمیاں علاقائی سلامتی اور پائیدار امن کیلئے ایک سنگین خطرہ ہیں لہٰذا ان گروہوں کی سہولت کاری اور تربیتی نیٹ ورک کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے افغان عبوری حکومت کی غیر سنجیدگی صرف پاکستان کیلئے نہیں پورے خطے کیلئے تشویش کا باعث ہونی چاہیے افغان سرزمین سے ابھرنے والے خطرات چونکہ خطے کیلئے مشترکہ اور وسیع نوعیت کا خطرہ پیدا کرتے ہیں اس لئے ان کے نمٹنے کیلئے بھی مشترکہ علاقائی اپروچ کی اشد ضرورت ہے پاکستان اور افغانستان دونوں معاشی طور پر ایک دوسرے کیلئے اہمیت رکھتے ہیں افغانستان کے پاس ساحل نہیں اس کی بحری تجارت کا بنیادی انحصار پاکستان کی بندر گاہوں پر ہے اس طرح وسط ایشیا تک پاکستان کو زمینی رسائی کیلئے افغانستان کی راہداری درکار ہے مجموعی طور پر دونوں ملکوں میں مل جل کر چلنے کے اتنے حوالے ہیں کہ انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں چنانچہ دونوں ملکوں میں اچھے سفارتی تعلقات بنیادی ضرورت ہیں اور دونوں جانب کے عوام کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہے پاکستان اور افغانستان کی معیشت اتنی مضبوط نہیں کہ مزید تنازعات کا بوجھ اٹھا سکے افغانستان کو ایک ذمہ دار ریاست اور افغان حکومت کو ایک ذمے دار حکومت کا ثبوت دینا ہوگا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ساری دنیا غلط ہو اور صرف آپ درست ہوں تعلقات کی بہتری کیلئے سب سے اہم اقدام اعتماد کی فضا کو بحال کرنا ہے افغان سرحدی فورسز کی جارحیت اور افغانستان کا علاقائی ممالک کی خلاف بطور لانچنگ پیڈ استعمال ہونا پاکستان کیلئے قطعی ناقابل برداشت ہے دوست ممالک کی پاکستان اور افغانستان میں مصالحت کی کوششیں خوش آئند ہیں مگر انہیں حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا افغان سر زمین سے دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان کے مطالبات پر سنجیدہ اقدامات کے بغیر تعلقات کا معمول پر آنا ممکن نظر نہیں آتا اور یہ دونوں ملکوں میں پائیدار امن خوشگوار تعلقات اور معاشی حوالے سے بھی اہم ہے پاکستان افغانستان مضبوط تعلقات کی گیند طالبان حکومت کی کورٹ میں ہے وہ پاکستان کیلئے اپنی خیر خواہی اور خلوص کا یقین دلادیں اور اس پر عمل بھی کریں تو پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے تعاون سے مستحکم اور دہشت گردی سے پاک ہوسکتے ہیں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے معیشت، تجارت، اور ثقافت کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے تجارت کے ذریعے عوام کے درمیان روابط کو فروغ دیا جاسکتا ہے جس سے خطے میں امن اور استحکام ممکن ہوسکتا ہے دونوں ممالک کے پاس تعلقات کو ایک نئی سمت دینے کے مواقع موجود ہیں باہمی احترام تعاون اور امن کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ان تعلقات کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے اگر سرحدی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے اور عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دی جائے تو یہ تعلقات خطے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں پاک افغان تعلقات میں بہتری کیلئے مشترکہ مفادات پر توجہ مرکوز کرنا ناگزیر ہے دونوں ممالک کو تاریخی نظریاتی اور سیاسی اختلافات بھلا کر ثقافتی تبادلوں تعلیم اور تجارت کے فروغ سے عوامی سطح پر اعتماد بحال کرنا ہوگا یہ تعلقات خطے کے امن استحکام اور ترقی کیلئے اہمیت کے حامل ہیں ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر خلوص نیت سے مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں تاکہ دونوں ممالک ایک روشن اور پرامن مستقبل کی طرف گامزن ہوسکیں لیکن یہ سب افغان عبوری حکومت کے عملی اقدامات سے مشروط ہے دیکھنا ہوگا کہ طالبان حکومت دونوں ملکوں میں معمول کے تعلقات اور ماضی کے اعتماد کی بحالی کیلئے افغانستان کو پاکستان مخالف عناصر سے پاک کرنے میں کتنی سنجیدگی سے کام کرتی ہے پاکستان نے خطے میں امن کو ایک اور موقع فراہم کیا ہے اگر اب بھی افغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی تو یہ خطے کے لئے بڑی بد قسمتی ہوگی۔

