کالم

خواتین سے خوفزدہ طالبان حکومت

(گزشتہ سے پیوستہ)
وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کی یونیورسٹیوں نے حکومت کی تجاویز اور ہدایات پر عمل نہیں کیا ۔ان ہدایات کے مطابق یونیورسٹی طالبات یونیورسٹی ہاسٹل میں محرم کے بغیر نہیں رہ سکتیں ، وہ زراعت اور انجینئرنگ کے شعبے اختیار نہیں کر سکتیں، وہ مرد اساتذہ سے نہیں پڑھ سکتیں ۔ یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم پر سخت پابندی کو موثر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔تجویز دی گئی تھی کہ طلبہ اور طالبات الگ الگ دنوں میں یونیورسٹی آیا کریں ۔ایک بڑا مسئلہ شرعی پردے کا بھی ہے ۔یہ پابندیاں لگاتے اور وضاحتیں پیش کرتے ہوئے وزیر تعلیم کو ذرا اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کس قدر جاہلانہ باتیں کر رہے ہیں ۔ ایک مہذب معاشرہ خواتین کی تعلیم اور مساوی حقوق کے بغیر کیسے ترقی کر سکتا ہے ۔ افغانستان پر حکومت کرنےوالے نادان افغانستان کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں ۔ افغانستان ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا ۔یہاں افغانستان کو ایک جدید اور فلاحی جمہوری ریاست بنانے کےلئے کئی بار کوشش کی گئی اور ہر بار دنیا میں جدت ، فلاح ،انسانی حقوق اور تعلیم کے علمبردار ممالک برطانیہ اور امریکہ نے کوشش کر کے اور افغانستان کو باقی دنیا سے کاٹ کر ، ازمنہ قدیم کے نیم تاریک ماحول میں مقید رکھنے کو یقینی بنایا ہے۔یہ ملک گزشتہ صدی کی دوسری دہائی میں جمہوریہ ترکیہ کے ماڈل پر جدید ریاست بننے کی کوشش کر رہا تھا۔افغانستان میں امیر امان اللہ خان ایک جدید جمہوری ریاست کی تشکیل میں مصروف تھے اور ان کی تعلیم یافتہ اہلیہ ملکہ ثریا طرازی ،جو وزیر تعلیم بھی تھیں ، افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔ان کا بنیادی موقف اور کوشش یہ تھی کہ خواتین کو جدید تعلیم حاصل کرنی چاہیئے، پردے کے روایتی اور غیر منطقی تصور سے جان چھڑانی چاہیئے اور یہ کہ مردوں کو ایک سے زیادہ شادیوں سے اجتناب کرنا چاہیئے۔اسی زمانے میں جمہوریہ ترکیہ کے اتاترک مصطفی کمال پاشا نے افغان طالبات کےلئے ترکیہ کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کےلئے وظائف دینے کا اعلان بھی کیا تھا ۔ ذرا تصور کریں کہ پاکستان کے ہمسائے میں جمہوریہ ترکیہ جیسے جدید ،تعلیم یافتہ اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ افغانستان کا وجود کس قدر شاندار بات ہوتی۔لیکن افسوس کہ مہذب ملک برطانیہ اور جدید ترقی یافتہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی پیہم مساعی ، رسائی اور حکمت عملی سے آج افغانستان ایک آتش گیر ملک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہ آتش گیر ملک ہر تیلی بردار گاہک کی معقول معاوضہ پر خدمت کرنے کےلئے ہمہ وقت آمادہ و تیار رہتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو باقاعدہ جنگ کی صورت دینے کی طرف پیش قدمی بھی ثابت کرتی ہے کہ؛ افغان ملاں کو امریکہ اور ہندوستان کی طرف سے نیا بزنس مل چکا ہے۔ قیاس چاہتا ہے کہ ؛ امریکہ اور اسرائیل ایران کی طرف رخ کرنے سے پہلے پاکستان اور افغانستان کے مابین گرجدار میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کی آرزو ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ہونے والے شور شرابے میں اسرائیل کے ایران میں مچائے ہنگامے کی آواز دب کر رہ جائے ۔یہاں یہ بات یاد رہنی چاہیئے کہ امریکہ ہمارے خطے میں ہندوستان کے ساتھ اتحاد بنا کر چین کو زچ کرنے کےلئے بھی تیار بیٹھا ہے ۔پاکستان کا دل تو ہمیشہ چین کے ساتھ رہتا ہے، لیکن امریکیوں کی کسی بات یا آرزو یا حکم سے انکار کرتے ہوئے عموماً پاکستانیوں کی ہنسی نکل جاتی ہے ۔ پاکستانیوں کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ افغان ملاں کی اساسی وفاداری گزشتہ صدی کی دوسری دہائی سے لے کر آج تک پہلے برطانیہ اور اب امریکہ کےساتھ ہے۔میں یہاں ایک بار پھر فروری 2022 میں شائع ہونے والے اپنے ایک اور کالم کے اقتباس کی طرف متوجہ کرنا چاہوں گا ، تاکہ موجودہ صورتحال کے تاریخی تناظر کو سمجھا جا سکے ۔”1929 میں تاجک ڈکیٹ اور راہزن حبیب اللہ کلکانی عرف بچہ سقہ کو انگریزوں نے ملاشور بازار اور دیگر مال و زر کے حریص ملاوں کی اعانت سے امیر امان اللہ خان کے نظم حکومت کو کافرانہ اور غیر شرعی قرار دلوا کر بغاوت کرائی تھی اور کابل پر حملہ کرکے قبضہ کرنے میں مدد دی تھی اور اس طرح جدت اور علم کی طرف طرف گامزن افغانستان کو نفاذ شریعت کے بہلاوے میں ڈال کر ایک لٹیرے اور ڈاکو بچہ سقہ کے حوالے کر دیا گیا تھا ۔یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ انگریز نے اس بچہ سقہ کو ملا شور بازار سے امیر المومنین لقب بھی دلوایا تھا ۔پر اس دور میں بھی بچہ سقہ کی حکومت ساڑھے آٹھ ماہ سے زیادہ نہ چل سکی تھی ۔اور غیور و علم دوست افغانوں نے بچہ سقہ کی حکومت کو ختم کر دیا تھا ۔”اب دیکھنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ افغانستان کے جدت پسند اور تعلیم کے خواہاں لوگوں کی اکثریت کو "ملائی شریعت” کے نفاذ کے نام پر کب تک اسیر رکھا جا سکتا ہے۔جن کج فہم دلاوروںکو اپنی ہی خواتین سے خوف آنے لگے، ان کو عملی زندگی میں شکست سے کون بچا پائے گا؟ہاں مگر افسوس اور تشویش کی بات یہ ہے کہ افغان ملا یہ ساری احمقانہ حرکتیں نفاذ شریعت کے نام پر کر رہے ہیں۔ گویا وہ کسی فرمائش پر امن کے دین اسلام کو بدنام اور ازکار رفتہ مذہب ثابت میں مصروف ہیں۔مایوسی اس وقت دوچند ہوجاتی ہے جب پاکستان جیسے ملک میں بھی ان ملاں کی خودساختہ شریعت کے حق میں نعرے سنائی دے جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے