مارچ کودنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایاجاتا ہے۔ اس دن کے چند بڑے اور بنیادی مقاصد میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کی کامیابیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا دن ہے جب قومی، لسانی، ثقافتی، معاشی یا سیاسی تقسیم کی پروا کیے بغیرخواتین کی کامیابیوں کو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں درپیش رکاوٹوں کو بھی تسلیم کرنا ہے جن کا انہیں سامنا ہے۔ خواتین کے عالمی دن نے ترقی یاقتہ و ترقی پذیر ممالک میں خواتین کے لئے یکساں طور پر ایک نئی عالمی جہت اختیار کی ہے۔ خواتین تقریباً دنیا کی نصف آبادی کی نمائندگی کرتی ہیں اور اسی تناسب سے معاشرے کی ترقی مےں بھی ان کا اہم حصہ ہے۔ پرامن معاشرے کی تکمیل کے حصول کے لئے خواتین کی شمولیت اور صنفی مساوات ایک مہذب معاشرے کی ضرورت ہے۔ آج کے دورمیں ایک ایسا بھی شعبہ ہے جو ناقابلِ یقین حد تک کاحقیقی معنوں میں خواتین کی زندگیوں میں مثبت اور خوشگوار انقلاب لا سکتا ہے اور وہ ہے ڈیجیٹلائزیشن۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی نیوٹرل ہے اور اس کے سامنے صنفی تفریق و تقسیم اور امتیاز بے معنی ہیں اور اسی مناسبت سے آج کے دن کو” خواتین کا ڈیجیٹل پاکستان ”کے نام سے منسوب کیا جائے تو نہایت موزوں ہو گا۔ ہر شعبے کی طرح ٹیکنالوجی کے شعبہ میں بھی خواتین کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہے یہ ایک ایسا پوٹینشل سیکٹر ہے جو گھر بیٹھے بغیر کسی سفری اور دفتری اخراجات و مشکلات کے خواتین کو پیشہ ورانہ ترقی، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے اور آمدن کے معقول و قابلِ عزت ذرائع تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مالی طور پربااختیاربنانے میں معاون کردار ادا کر سکتا ہے۔پاکستان میں ٹیکنالوجی کے شعبہ میں اگر اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے توخواتین کی اس شعبے میں شمولیت کے رحجان میں ایک مستقل اور لگاتار اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔لیکن ایک تفریق اور تقسیم بھی واضح ہے۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کی سالانہ رپورٹ 2023 کے مطابق پاکستان میں موبائل فون صارفین کی تعداد 189.3 ملین ہے جن میں خواتین کی تعداد48.2 ملین ہے۔ اسی طرح موبائل براڈ بینڈ (انٹرنیٹ) استعمال کرنے والوں کی تعداد 122.9ملین ہے جن میں خواتین کی تعداد29.8 ملین ہے جبکہ پچھلے سال 2022 میںیہی تعداد 26.4 ملین تھی، یعنی ایک سال میں موبائل براڈبینڈ استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد میں 3.4 ملین کا اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ اسی طرح اگر برانچ لیس بینکینگ اکاونٹس کی بات کی جائے تو 2022 میں 24.8ملین خواتین کے اکاﺅنٹس تھے جو 2023 میں بڑھ کر 32.4ملین ہو گئے، جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم یعنی فیس بک، یوٹیوب، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام میں خواتین صارفین کی تعداد بالترتیب 23 فیصد، 28 فیصد، 17 فیصد اور 34 فیصد ہے لیکن امتدادِ زمانہ صنفی ڈیجیٹل شمولیت میں متعدد چیلنجز اور رکاوٹیں حائل ہیں جن میں موبائل فون کی ملکیت اور انٹرنیٹ کے استعمال میں رکاوٹیں سرِ فہرست ہیں۔ جی ایس ایم اے کی موبائل جینڈر گیپ رپورٹ 2022 کے مطابق مردوں کے مقابلے میں خواتین کے پاس موبائل فون اور موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے کے مواقع بالترتیب 33 فیصد اور 38 فیصد کم ہیں اور اس کمی کی بڑی وجوہات میں ڈیجیٹل خواندگی، خاندانی رسم ورواج، انٹرنیٹ تک آسان اور سستی رسائی میں مشکلات، موبائل سیٹ کی قوتِ خرید میںکمی، آن لائن تحفظ کے خدشات اور باضابطہ شناخت کی کمی شامل ہیں ۔اسی طرح پی ٹی اے کے زِیر اہتمام پبلک پرسیپشن سرو ے جو پاکستان کے دو صوبوں کے پی کے اور سندھ کے اضلاع ہنگو اور چارسدہ، خیرپور اور ٹنڈومحمدخان میں کیے گئے اور پی ٹی اے، موبی لنک اور یوفون کے اشتراک سے آئی وی آر سروے جس میں ایک لاکھ تین ہزار آٹھ سو بتیس افراد نے حصہ لیا جن میں 74 فیصد مرد اور 25 فیصد خواتین شامل تھیں کے نتائج بھی کم و بیش قوتِ خرید میںکمی، سماجی اور ثقافتی اقدار، محدود تکنیکی رسائی، ڈیجیٹل ناخواندگی، سم کی ملکیت اور خواتین کی مالی حیثیت جیسے مسائل اور رکاوٹیں سامنے آئیں جبکہ وہاںکسی حد تک قابلِ اطمینان انٹرنیٹ کی رسائی موجود تھی۔درج بالا اعدادوشمار اس بات کے غماز ہیں کہ خواتین کو بااختیار بنانے اور پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت اور معاشرے میں ان کی مکمل شرکت کو ممکن بنانے کے لئے ایک جامع نقطہ نظرکلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ مزید برآں ڈیجیٹل مہارتوں کو فروغ دینے،خواتین کےلئے انٹرنیٹ موبائل اور سم تک آسان، قابِل عمل اور سستی رسائی کو یقینی بنانے اور ان کی ضروریات کے مطابق مواد کی تخلیق اور آن لائن تحفظ کےلئے اہم اقدامات ضروری ہیں اس کے ساتھ پاکستان میں صنفی بنیادوں پر مکمل اعدادوشمار جمع کرنے اور تحقیق کے ذریعے خواتین کے حالات اور ضروریات کی نشاندہی کی بنیاد پر مبنی ترجیحات کا تعین کر کے پالیسی اور ریگولیٹری اقدامات عمل میں لائے جائیں ۔ ایک کثیرالجہتی اورمشترکہ کوششوں کی موثر ہم آہنگی کےلئے ایک پلیٹ فارم اور گورننس فریم ورک کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس ضمن میں پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کا بطور قومی ٹیلی کام ریگولیٹر انتہائی اہم کردار ہے ۔ پی ٹی اے جہاں اپنے متعین کردہ دائرہ اختیارمیں رہ کر ملک کے کونے کونے میں ٹیلی کام کی سہولیات مہیا کرنے میں ہمہ وقت کوشاں ہے وہاں یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے، ان کی استطاعت اور رسائی میں اضافے اور بامقصد صنفی ڈیجیٹل شمولیت کے لئے قومی اور عالمی سطح پرمختلف منصوبوں، معاہدوں، مشاورتی نشستوں، عوامی مذاکراتی مجلسوں اور ریگولیٹری اقدامات کے ذریعے مصروفِ عمل ہے، اس سلسلے میں پی ٹی اے خواتین افسران پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو صنفی تفریق سے متعلق چلینجوں کی نشاندہی کرنے، خواتین کو مرکزی قومی دھارے میں لانے، قابلِ عمل ٹھوس منصوبہ سازی کرنے اور جزوی طور پر متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ روابط کےلئے خدمات انجام دے رہی ہے۔