کا یہ میرا پہلا کالم ہے۔ اس ذات کا شکر گزار ہوں جس نے کئی سالوں سے میرے قلم کو رواں رکھا ہوا ہے۔ یہ اس ذات کا مجھ پہ خصوصی کرم ہے کہ ہر ہفتے کالم لکھنے کی ہمت دے رکھی ہے۔ اس سال اس ذات کبری نے مجھ پر2025 خصوصی کرم کیا کہ نئے برس میں کالموں پر مبنی میری پہلی کتاب (ٹی ٹاک)چھپ کر پاکستان کے تمام بک شاپ پر آ چکی ہے۔
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات ابتک بنی ہوئی ہے
نئے سال کی آخری شام کو بابا کرموں گھر تشریف لائے پھر ایک ساتھ 2024 کو الواع کہا اور 2025 کو خوش آمدید۔ بابا کرموں سے پوچھا سال دوہزار چوبیس کا کوئی ایسا واقعہ جو اپ کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ مسکرائے پھر تفصیل سے یہ واقع سنایا۔ جب میں اپنے گاو¿ں میں تھا تو مجھے فروٹ کھانے کی طلب ہوئی۔قریب کوئی فروٹ شاپ نہ تھی مگر مایوس نہیں ہوا گھر سے نکل کر قریبی جنگل میں چلنا شروع کیا۔ کہ اس جنگل میں کوئی پھل دار درخت ہو گا۔ جنگل میں کیا دیکھتا ہوں ایک اچھی شخصیت کا مالک بندہ رسے کو درخت پر باندھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے قریب مجھے بیری کا درخت دکھائی دیا۔زمین سے ایک دو بیر پڑے اٹھائے اور کھائے بھی لیکن دھیان میرا اس بندے کی طرف ہی رہا جو بہت گھبرایا ہوا تھا ۔مجھے شک ہوا کہ اس رسے سے کوئی غلط کام لینا چاہتا ہے میں چل کر ذرا اس کے قریب آیا پوچھا بھائی کیا ہو رہا ہے؟ کہا میں خود کشی کی تیاری کر رہا ہوں۔ مجھ سے پوچھا آپ یہاں کیا کر رہے ہیں کہا میں بھی خودکشی کرنے کی نیت سے یہاں آیا ہوں۔ کہا چلو اچھا ہوا آپ کا پھندا میرے کام بھی آجائے گا۔ مجھ سے پوچھا آپ کیوں خود کشی کرنا چاہتے ہیں ؟ کہا پہلے آپ بتائیں آپ کیوں خودکشی کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی میں نے کہا کیوں نہ ہم چائے کے ساتھ ایک دوسرے کی کہانی سنیں، جس کی کہانی درد ناک ہوئی وہ پہلے خود کشی کرے گا اور دوسرا اس کی خودکشی کرنے میں مدد دے گا۔ یہ سن کر اسے یقین ہو گیا کہ یہ بھی میری طرح حالات سے تنگ ہے کہا مجھے منظور لیکن چائے میں پلاو¿ں گا۔ جس پر میں راضی ہو گیا۔ اب ہم دونوں تھوڑی دور چائے کے کھوکے پر چائے پینے بیٹھ گئے۔میں نے پوچھا اب بتائیں خودکشی کیوں کرنے کا ارادہ کیا۔ کہا میں بزنس مین ہوں۔ چین سے مال منگواتا ہوں گودام میں رکھتا ہوں۔ ایک ماہ قبل اس گودام میں آگ لگی جس سے میرا سارا مال اس آگ کی نذر ہوگیا۔ میرے پاس اب مزید بزنس کرنے کی استطاعت نہیں رہی ۔ جن کا پیسہ لگا تھا وہ ادھار مجھ سے مانگ رہے ہیں۔ جو کہ میں دے نہیں سکتا۔ پوچھا کتنا نقصان ہوا ہے کہا دس کروڑ کا۔ پوچھا کیا بچے ہیں۔ کہا ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ تینوں اچھی جگہ جاب کر رہے ہیں۔پوچھا کیا وہ اپ سے پیار کرتے ہیں۔کہا تینوں بچے مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں۔بیٹی کی ابھی رخصتی کرنا باقی ہے۔ بیٹے اپنے اپنے گھروں میں ہیں۔پوچھا بیگم ہے۔ کہا ہے اس نے اپنے سارے زیورات مجھے فروخت کرنے کو دیئے ہیں ۔ پوچھا کیا رشتہ دار ہیں۔ کہا سبھی ہیں۔ اس لیے تو خود کشی کرنا چاہتا ہوں کہ میں ان کو کیا منہ دکھاو¿ں گا۔خودکشی کے بعد کیا آپ کی فیملی لوگوں کی رقم واپس کر پائیں گی۔ کہا نہیں۔ کیا آپ کی موت سے آپ کا ہونے والا نقصان پورا ہو جائے گا اور یہ سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ کہا نہیں ایسا کرنے سے مسائل مزید بڑھیں گے۔ کیا خودکشی سے آپ کو اچھے نام سے لوگ یاد کریں گے کیا خودکشی سے آپ کے خاندان کی عزت ہو گی یا بدنامی۔ کہا بدنامی۔ کیا یہ بزنس آپ نے خود شروع کیا تھا ۔ کہا نہیں میرے والد نے یہ بزنس بنا کر دیا تھا۔ میں نے کہا ذرا سوچو خود کشی کے بعد آپ کے بچوں پر کیا قیامت ٹوٹے گی۔ آپ کی بیٹی سے کیا وہ لوگ شادی کریں گے ۔جس بیٹی کے باپ نے خودکشی کی ہو۔ کیا بچوں کو اس سے شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔کیا لوگ انہیں طعنے نہیں دیں گے۔کیا بیوی بیوہ ہو کر لوگوں کے طعنوں سے زندہ رہے گی۔ میری یہ باتیں سن کر مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب یہ خود کشی نہیں کرے گا۔ میں نے کہا چلو اب خودکشی کرنے چلتے ہیں۔ کہا میں اب خودکشی کرنے نہیں جاو¿ں گا۔ مجھے خودکشی کرنے میں نقصان ہے ۔ اگر کچھ عرصہ زندہ رہا تو نقصان پورا کر لونگا ۔ مجھے زندہ رہنے میں فائدہ ہے۔کہا میں نے مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جاوں گا۔پھر مجھے بھی اس نے خودکشی کرنے سے منع کیا۔ میں نے پوچھا سوچ لو خودکشی کریں یا نہ کریں۔ کہا تم بھی ارادہ بدل لو اور خود کشی نہ کرو۔خودکشی حرام ہے۔ پھر میرا فون نمبر لیا اور اپنا فون نمبر مجھے دیا۔ وہ گھر کی طرف چلا گیا اور میں بیری کے درخت کے نیچے گرے ہوئے بیر کھانے چل پڑا۔ بیر چن چن کر کھانے میں اتنا مزہ آیا کہ بتا نہیں سکتا۔ مجھے دس ماہ بعد اس کا فون آیا کہا آو¿ چائے پیتے ہیں۔ اس نے بتایا اپنی محنت سے اب تک کا خسارہ ہورا کر چکا ہوں ۔ انشااللہ اب ایسا ہی کام کیا تو جلد باقی کا نقصان پورا کر لونگا ایک بار پھر اپنے پاو¿ں میں کھڑا ہو جاو¿ں گا ۔بابا کرمو نے بتایا اب وہ دن رات مجھے دعائیں دیتا ہے۔ اسے بتایا تھا کہ میں تو خودکشی نہیں بیری کے درخت سے بیر کھانے آیا تھا اور آپ نے مجھے چائے پلا دی۔ کہا میں نے کبھی خودکشی کا سوچنا ہی نہیں اس کی دی گئی نعمتیں اتنی ہے کہ ہم ان کا ہی شکر ادا نہیں کر سکتے ۔خودکشی تو ویسے بھی حرام ہے اس کا تو جنازہ جائز نہیں اور نا امیدی تو ہے ہی کفر۔ ایسا کرنا اس ذات کی نا شکری کو ظاہر کرتا ہے۔ہم سے تو بہتر چرند پرند ہیں جو بچے پالتے ہیں گھر بناتے ہیں اندھی طوفان بارشوں کا سامنا کرتے ہیں ۔پھر بھی چہچہانے ہیں ۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں ایک روز میرے پاں کا ایک جوتا پھٹ گیا۔ جس پر مجھے سخت غصہ آیا ۔ ابھی تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں ایک نوجوان ایک ٹانک کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ ایسا وہ پیدائشی تھا۔یہ دیکھ کر میں نے فوری توبہ کی۔ معافی مانگی کہ یا اللہ مجھے جوتا نہیں دیا تو دو ٹانگیں تو دی ہیں۔ جس سے میں چل پھر سکتا ہوں۔لہٰذا شکایت کرنے سے اس کی دی گئی نعمتوں کو دیکھ لیا کریں تو آپ غصہ شکایت نہیں کرینگے۔مالی بن کر رہا کریں۔ جیسے
مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کام پھل پھول لانا وہ لاوے یا نہ لاوے
2025کا سال شروع ہو چکا ۔ کرم کے علاقے پاراچنار کی وجہ سے کچھ لوگوں نے ملک گیر احتجاج کیا جس سے راستے بند ہو گئے ۔ احتجاج کرنا دھرنا دینا اس وقت تک جائز ہے جب تک آپ دوسروں کے حقوق سلب نہیں کرتے۔ حالات پاراچنار کے خراب ہونے ان لوگوں نے کراچی کی شاہراہوں کوبند کر دیا پاراچنار جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ حکومت کو چاہئے کہ اسمبلی سے بل پاس کرائیں کہ احتجاج اور دھرنے کے دوران ٹریفک کی روانی کو جو بند کرے اسے دہشت گردی کی سزا دی جائے انہیں قید و جرمانے کی سخت سزائیں تجویز کریں۔ سڑکوں کو بلاک کرنے سے سکولوں میں بچے نہیں جا سکتے، مریض اسپتال نہیں جا سکتے۔ملازمین کام ہر نہیں جا سکتے۔ یہ احتجاج نہیں دہشت گردی ہے ایسا کرنے ہر سزائیں دی جائیں ۔ تاکہ عوام سکھ کا سانس لیں ۔اس سال ہم سب عہد کریں کہ ہم دوسروں کےلئے مشکلات نہیں آسانیاں پیدا کرینگے۔ نیا سال مبارک ہو۔
کالم
خود کشی کیوں ” شکر کیوں نہیں ؟
- by web desk
- جنوری 10, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 135 Views
- 6 مہینے ago