تحریر: عرفان صدیقی
10 اگست کو اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے منعقدہ ایک سمینار میں تقریر کرتے ہوئے عزت مآب جسٹس منصور علی شاہ نے بعض نہایت فکر انگیز نکات اٹھائے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہر صورت میں عمل درآمد کرنا ہوگا ۔ یہ ایک لازمی آئینی تقاضا ہے۔ اس طرف چل پڑے تو آئینی توازن بگڑ جائے گا۔ انتظامیہ کو سمجھنا ہوگا کہ فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں۔”
خیال تھا کہ جسٹس صاحب کے افکار، بالخصوص تصور آ ئینی توازن پر ایک سنجیدہ بحث کا آغاز ہوگا۔ اس سوال کا جائزہ لیا جائے گا کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں آئینی توازن کو غیر متوازن، بلکہ درہم برہم کرنے اور وطن عزیز کو مختلف النوع بحرانوں میں دھکیلنے میں سب سے زیادہ کارگر کردارکس کا رہا ؟ انتظامیہ، مقننہ (پارلیمنٹ )کا یا عدلیہ کا ؟ اس بات کو تین ہفتے ہور ہے ہیں لیکن برقی یا طباعتی ذرائع ابلاغ میں بحث و نظر کا کوئی دریچہ نہیں کھلا۔ ظاہر ہے کہ میڈیا کو اپنے دستر خوان کے لئے عوامی ذوق کے لذیذ و پر کشش پکوانوں کی طلب ہوتی ہے۔ یہ ضرورت جنرل (ر)فیض حمید کے کورٹ مارشل کی خبر نے پوری کر دی۔
پاکستان بننے کے بعد پہلا حملہ اپریل 1953 میں انتظامیہ پر ہوا جب گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی میں واضح اکثریت رکھنے والے وزیر اعظم ، خواجہ ناظم الدیر الدین کو کابینہ سمیت معزول کر دیا۔ خواجہ صاحب۔ نے عدلیہ کو کی آزمائش میں نہ ڈالا۔ چپکے سے گھر چلے گئے ۔ انتظامیہ پر فتح مند حملے کے بعد غلام محمد نے ، اکتوبر 1954 میں دستور ساز اسمبلی بھی توڑ ڈالی ۔ سپیکر مولوی تمیز الدین عدالت چلے گئے ۔ سندھ ہائیکورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو خلاف آئین اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ معاملہ فیڈرل کورٹ (اس وقت کی سپریم کورٹ ) پہنچا۔ چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اپیل سنی ۔ چارج صاحبان ، جسٹس محمد منیر، جسٹس ایس ۔ایم ۔ اکرم، جسٹس محمد شریف اور جسٹس ایس۔اے۔ رحمان نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے گورنر جنرل کے اقدام کو درست قرار دے دیا۔ واحد اختلافی نوٹ جسٹس۔اے۔ آر۔ کارنیلئس کا تھا۔ یہ ہماری تاریخ عدل کا پہلا پروانہ آئینی توازن تھا جو وقت کی سب سے بڑی عدالت نے جاری کیا۔
جسٹس منیر کے تحریر کردہ فیصلے میں نظریہ ضرورت پر انحصار کیا گیا جس کے بارے میں تیرھویں صدی کے معروف قانون دان ہنری ڈی پر کٹن (Henery De Bracton) نے کہا تھا
Doctrine of necessity means, that which is otherwise unlawful is made lawful
نظریہ ضرورت کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات جو دراصل غیر قانونی ہے، اسے قانونی بنا دیا جائے ۔‘‘
اچھا ہوا کہ خواجہ ناظم الدین نے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔ ورنہ عین ممکن ہے کہ آئینی توازن کے حوالے سے عدلیہ کا شہرہ آفاق فیصلہ کئی ماہ پہلے ہی آجاتا۔ ناجائز کو جائز قرار دینے اور ہر آئینی شق کا فولادی قفل کھولنے والی نظریہ ضرورت نامی طلسمی کلید، پرکھوں کی مقدس میراث جان کر آنے والے منصفوں نے اپنی زنبیل میں سنبھال کر رکھ لی۔ سو جب ایوب خان، یحیی خان ، ضیا الحق اور پرویز مشرف نے آئین پر یلغار کی ، جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ جمایا تو سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے زنبیل سے یہی طلسمی کلید نکالی آمروں کے اقدام کو خلعت جواز پہنائی، اپنے آئینی حلف سے دستکش ہو کر آئین شکنوں سے عہد وفا باندھا اور اپنی بصیرت کے مطابق آئینی توازن درست کر کے، اپنی اپنی مسند انصاف پر جا بیٹھے۔
رفتہ رفتہ ہماری عدلیہ آئینی توازن قائم رکھنے کے فن میں اتنی طاق ہو گئی کہ اسے قفل کشائی کے لئے کسی چابی کی ضرورت ہی نہ رہی ۔ معاملہ قفل شکنی تک جا پہنچا۔ بات اس سے بھی آگے بڑھی اور نظریہ ضرورت کے تحت نقب زنی بھی روا ٹھہری۔ آئین پاکستان کے تحت اعلی عدالتوں کے حج صاحبان منصب سنبھالتے وقت جو حلف اٹھاتے ہیں، اس کا ایک مرکزی جملہ ہے میں ہر حالت میں ، ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت وعناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔ اس جملے میں خوف، رعایت ، رغبت اور عناد کلیدی الفاظ ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی مارشل لا نافذ ہوا، اس وقت کے منصف ، خوف کا شکار ہو کر، آمروں سے جاملے۔ انہیں ہر وہ رعایت دی جو انہوں نے مانگی یا نہ مانگی۔ مارشل لاں کی حد تک عدلیہ کی مجبوری ، قابلِ فہم سہی لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ جمہوری ادوار میں بھی ، جب عدالتیں خوف سے آزاد تھیں ایسے فیصلوں کی برکھا پیہم برستی رہی جو آئینی حلف کے منافی تھے۔ کسی سے رغبت کا شوخ و شنگ رنگ، جھلکتا ہے اور کسی سے عناد کا تعفن اٹھ رہا ہے۔ ہماری عدالتی تاریخ کے تمام اہم فیصلے کسی کے خوف تلے کئے گئے یا کسی کو رعایت دینے کے لئے ، کسی رغبت و محبت میں کئے گئے یا کسی کے بغض و عناد میں ۔ یہ تمام فیصلے بے بس ولا چارا نتظامیہ نے گردن جھکا کر تسلیم کر لئے۔ آئینی توازن کو غیر متوازن کرنے میں انتظامیہ اور مقننہ کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریاست کے یہ دونوں ستون ، سات دہائیوں سے چاند ماری کے ٹیلے بنے ہوئے ہیں۔ ان پر جب بھی کسی نے حملہ کیا ، عدلیہ ان کے دفاع کے لئے نہ اٹھی بلکہ حملہ آوروں کا دست و بازو بن گئی۔
اب نظریہ ضرورت زمانہ قدیم کا متروک ہتھیار بن چکا ہے۔ یہ کام آئینی شقوں یا قوانین کی تشریح و تعبیر کے نام پر کیا جاتاہے۔ بلا شبہ عدلیہ کو یہ اتھارٹی آئین نے دی ہے لیکن کیا یہ اتھارٹی آئین کی باقی تمام شقوں پر حاوی ہے؟ کیا یہ اتھارٹی جج صاحبان کے حلف پر بھی مقدم ہے؟ اور کیا یہ اتھارٹی تمام آئینی و قانونی حدود سے ماورٹی ایسی لامحدود صوابدید ہے جس کا انحصار صرف حج صاحبان کی اپنی مرضی ومنشا پر ہے؟ 12 جولائی کے متنازعہ فیصلے میں آئین کے ایک اور آرٹیکل 175 سے نظریہ مکمل انصاف نچوڑا گیا ۔ اس تصور کو عملی طور پر یہ معنی دیئے گئے کہ اگر حج صاحبان کی نظر میں مکمل انصاف کے لئے آئین وقانون کی واضح شقوں سے انحراف بھی کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ آنے والے عہد کے منصف بھی کامل انصاف کے اس نظریے پر ایمان لاتے ہوئے ، اپنے حلف، آئین اور قانون کے تقاضوں کو لایعنی خیال کرنے لگے تو ریاست کا کیا بنے گا؟ بلا شبہ انتظامیہ کے پاس عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں لیکن کیا عدلیہ کے پاس یہ چوائس ہے کہ وہ آئین وقانون کی دوٹوک اور واضح شقوں کے ہوتے ہوئے تشریح و تعبیر، نظریہ ضرورت یا مکمل انصاف کے نام پر، مقلنہ کا کرداراپنالے، آئین نویسی اور قانون سازی کا وظیفہ سنبھال لے؟ کیا آئینی تو ازن قائم رکھنے کے تمام تر تقاضے، فیصلہ آجانے کے بعد شروع ہوتے ہیں یا آئینی توازن کے لئے کچھ آئینی تقاضے ایسے بھی ہیں جن کا احترام فیصلہ کرنے والے حج صاحبان پر بھی لازم ہے؟ اگر فیصلے سے سرتابی کرنے والی انتظامیہ گردن زدنی ہے تو فیصلے سے پہلے آئین وقانون سے کترا کے راہیں تراشنے والے ہر نوع کے محاسبے سے میری کیوں؟
من پسند رنگ کے شیشوں والی عینکیں اتار کے دیکھا جائے تو کسی ابہام کے بغیر ہماری تاریخ دو حقائق کی نشاندہی کرتی ہے۔ پہلی حقیقت یہ کہ آئینی توازن درہم برہم کرنے میں انتظامیہ اور مقننہ کا کچھ کیا دھرا ہے بھی تو برائے نام ۔ دوسری حقیقت یہ کہ آئینی توازن اس وقت تک قائم نہیں ہو گا جب تک حج صاحبان کے حلف کے مطابق خوف، رعایت، رغبت اور عناد سے ہر حال میں دور رہنے کا زبانی اقرار، پختہ ایمان بن کر دلوں میں نہیں اترتا اور عمل میں نہیں ڈھلتا۔
کالم
”خوف، رعایت، رغبت اور عناد” کی صلیب پر لٹکا ”آئینی تو ازن”!
- by Daily Pakistan
- اگست 26, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 361 Views
- 11 مہینے ago
