پانامہ لیکس کی طرز پر” دبئی ان لاکڈ لیک “کے نام پر ایک اور تہلکہ خیزسیکنڈل سامنے آیا ہے،جس نے ملکی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی ہے۔ اس لیک میں کئی نامی گرامیوں کے نام شامل ہیں۔تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) طرز کے ایک اور تحقیقاتی کنسورشیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے دبئی ان لاکڈ لیک کا ڈیٹا جاری کیاہے۔اس لیک میں مبینہ طور پر جائیدادیں چھپانے والوں میں دنیا بھر کی کئی شخصیات شامل ہیںتاہم اس ڈیٹا میں پاکستان کے نامور سیاست دانوں،جن میں صدر آصف علی زرداری کے تین بچے،میاں نواز شریف کے بیٹے حسین نواز ، وزیر داخلہ محسن نقوی کی اہلیہ، شرجیل میمن اور انکے گھر والے، سینیٹر فیصل واوڈا،شیر افضل مروت سمیت سندھ اور بلوچستان اسمبلی کے چار ایم این ایز اور چھ ایم پی اےز شامل ہیںاسکے علاوہ کئی بیوروکریٹس، کاروباری شخصیات سمیت سابق فوجی افسران کے نام بھی شامل ہیں۔ڈیٹا لیک میں بہت سی رہائشی املاک کے اعداد شمار موجود ہیں جو دبئی میں غیر ملکیوں کی ملکیت ہیں۔ان میں بھارتی پہلے نمبر پر آتے ہیں اور 29700 بھارتیوں کے پاس35 ہزار جائیدادیں موجود ہیںجن کی مجموعی قیمت کا تخمینہ 17ارب ڈالرہے ۔پاکستانی نیشنلٹی کے حامل جائیدادوں کے مالکان دوسرے نمبر پر آتے ہیں ،رپورٹ کے مطابق17ہزار پاکستانیوں کی23ہزار رہائشی املاک موجود ہیں۔پاکستان کے بعد برطانوی شہریوں اور سعودی شہریوں کا نمبر آتا ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستانی مالکان کی املاک کی مشترکہ ویلیو11ارب ڈالر یا 300 کھرب روپے بنتی ہے جبکہ کل 204 افراد کی املاک کی مجموعی ویلیو 386 ارب ڈالر بنتی ہے جن کا تعلق دیگر ممالک ہے۔یہ پروجیکٹ زیادہ تر2020ءاور 2022ءکے درمیان کے ایسے اعداد و شمار پر مبنی ہے جو دبئی میں لاکھوں جائیدادوں کا تفصیلی جائزہ اور ان کی ملکیت یا استعمال کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ اس لیک میں وہ جائیدادیں شامل نہیں جو کمپنیوں کے نام پر خریدی گئیں اور جو کمرشل علاقوں میں موجود ہیں۔یہ اعداد شمار سینٹر فار ایڈوانسڈ ڈیفنس اسٹڈیز نے حاصل کئے جو واشنگٹن ڈی سی میں واقع ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے۔ اسکے بعد اسے ناروے کے مالیاتی آو¿ٹ لیٹ ای24 اور آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی)کے ساتھ شیئر کیا گیا جس نے 58 ممالک کے 74میڈیا آو¿ٹ لیٹس کے نامہ نگاروں کےساتھ چھ ماہ کے تحقیقاتی منصوبے کو انجام دیا۔ اس میں دنیا بھر کے متعدد سزا یافتہ مجرموں، مفرور ملزمان اور سیاسی شخصیات کو بے نقاب کیا گیا ہے جنہوں نے حال ہی میں دبئی میں کم از کم ایک جائیداد کی ملکیت حاصل کی ہے۔ اس فہرست میں سیاسی شخصیات، عالمی سطح پر پابندیوں کا شکار افراد، مبینہ طور پر منی لانڈرنگ میں ملوث اور جرائم پیشہ افراد شامل ہیں۔دوسری طرف دبئی لیکس میں نام سامنے آنے کے بعدپاکستان کے بیشتر سیاستدانوں اورسابق جرنیلوں نے وضاحت جاری کی ہے کہ ان کی جائیدیں ڈکلیئر ہیں۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان سے باہر کسی فرد کا کسی جائیداد کا مالک ہونا اگر وہ قانونی ضابطوں کی تحت لی گئی ہے تو کوئی غیر قانونی سرگرمی ہے نہ ہی جرم۔ دنیا بھر میںبہت سے افراد یا فیملیز کے پاس بیرون ملک جائیدادیں ہوتی ہیں،لیکن ہمارے ہاں اصل بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ان جائیدوں کی منی ٹریل دینے سے گریزاں ہوتے ہیں جس سے شکوک و شبہات کو ہوا ملتی ہے۔پانامہ کا سارا ہنگامہ بھی اسی کے ارد گرد گھومتا رہا کہ اس کی منی ٹریل ثابت کی جائے لیکن وہ سوال آج بھی قائم ہے۔یو اے ای اسلامی دنیا میں ایک ترقی یافتہ ریاست بن کر ابھری ہے۔بزنس دوست ماحول اور آسان پرکشش پالیسیوں نے نہ صرف لاکھوں کاروباری و سیاسی افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ کئی معامالات میں قانونی تحفظ بھی فراہم کیا ۔آج سرمایہ کاروں کے لئے دبئی ایک جنت ہے۔ تاہم کچھ لوگ ذاتی فائدے کےلئے قوانین کا غلط استعمال کر کے بڑے مفاد ات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ تحقیقات اس بات کا اظہار ہرگز نہیں کرتیں کہ دبئی میں خریدی گئی پراپرٹی غیرقانونی ذرائع یا غیرقانونی طریقے سے خریدی گئی ہے، مذکورہ رپورٹ میں اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔تاہم اس رپورٹ کے ذریعے جہاں کئی نام منظرِ عام پر لائے گئے ہیں، وہیں کئی سوالات نے بھی جنم لیا ہے ۔ہر پاکستانی یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ دبئی میں پراپرٹی رکھنے والے جن افراد کے نام سامنے آئے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ سب کچھ ڈکلیئر شدہ ہے لیکن اصل معاملہ ایف بی آر میں یہ پراپرٹی ڈیکلیئر کرنے یا ٹیکس کی ادائیگی کا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ پراپرٹی خریدنے کےلئے پیسہ کہاں سے آیا اور دبئی ٹرانسفر کیسے ہوا؟یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب ملنا چایئے۔
بھارتی حکام،سیاسی مفاد کےلئے لغو بیان بازی سے گریز کریں
پاکستان کے خلاف بھارتی قیادت کی جارحانہ اور لغو بیان بازی کوئی نئی بات نہیں ہے یہ بھارتی حکام کا ہر دور میں وتیرہ رہا ہے ہے تاہم مودی رجیم میں لغو الزام تراشی ایک خطرناک رجحان بن گیا ہے۔اگلے روز بھارتی حکمران جماعت کی طرف سے آزاد جموں و کشمیر کے بارے میں اشتعال انگیز بیان بازی کی گئی،جس کے جواب میں پاکستان کے دفتر خارجہ کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارتی سیاستدان انتخابی مقاصد کےلئے اپنی ملکی سیاست میں پاکستان کو گھسیٹنا بند کریں ۔انہوں نے عالمی برادری سے ان اشتعال انگیز بیانات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔دفتر خارجہ کی ترجمان نے بھارتی وزیراعظم، وزیر خارجہ اور کابینہ کے دیگر اراکین کی طرف سے حال ہی میں پاکستان سے متعلق بیانات کے حوالے سے میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا کہ بھارتی لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران مختلف رہنماو¿ں کی طرف سے پاکستان مخالف بیان بازی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ہم جموں و کشمیر تنازع، انسداد دہشت گردی کی کوششوں، دو طرفہ تعلقات اور جوہری صلاحیتوں سمیت متعدد دیگر امور سے متعلق ان غیر ذمہ دارانہ بیانات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ افسوس کے ساتھ اس طرح کے پاکستان مخالف بیانات وہاں انتخابی مقاصد کے لیے ہائپر نیشنلزم کا فائدہ اٹھانے اور بڑھتی ہوئی ملکی اور بین الاقوامی تنقید سے توجہ ہٹانے کی ایک مایوس کن کوشش کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے جواب میں درست کہا کہ بھارتی لیڈروں کا طرز عمل ایک غیر سنجیدہ اور انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے، یہ ذہنیت بھارت کی تذویراتی صلاحیت کے حوالے سے ذمہ داری پر سوالیہ نشان اٹھاتی ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیت کا مقصد اپنی خودمختاری کا تحفظ اور اپنی علاقائی سالمیت کا دفاع کرنا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے بارے میں اشتعال انگیز بیان بازی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تاریخی حقائق، قانونی اصول، اخلاقی تحفظات اور زمینی حقائق بھارت کے بے بنیاد دعوں کی تردید کرتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے معیشت پر اپنی پہلی ششماہی رپورٹ جاری کردی ہے ، مالی سال 24 کی پہلی ششماہی رپورٹ بعنوان پاکستانی معیشت کی کیفیت منگل کوجاری کی گئی ۔اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پہلی ششماہی میں ملک کے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں ، جبکہ آئی ایم ایف کےساتھ عارضی انتظام سے بیرونی کھاتے پر دباو کم کرنے میں مدد ملی ہے، معیشت کو بدستور ساختی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ جو بڑے مسائل درپیش ہیں ان میں محدود بچتیں، طبیعی اور انسانی سرمائے میں پست سرمایہ کاری، پست پیداواریت، جمود کا شکار برآمدات، ٹیکس دہندگان کی کم تعداد، اورسرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کی نا کارکردگی شامل ہیں، سیاسی اور پالیسی کی غیر یقینی صورتِ حال میں بہتری لاکر اور مزید مالیاتی یکجائی سے قلیل مدت میں مہنگائی کو تیزی سے کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔یہ رپورٹ جولائی تا دسمبر مالی سال 24 کے اعدادوشمار کے تجزیے پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے مطابق حقیقی اقتصادی سرگرمیوں میں گذشتہ سال کے سکڑاو¿ کے برعکس معتدل بحال ہوئی ہے ۔
اداریہ
کالم
دبئی لیکس، نیا پینڈورہ باکس
- by web desk
- مئی 16, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 696 Views
- 1 سال ago