کالم

دریائے چناب میں پانی کا بحران

پاکستان نے جمعرات کو دریائے چناب کے بہاؤ میں تبدیلی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے پر وضاحت کے لیے بھارت کو خط لکھا ہے۔اس ہفتے متعدد میڈیا اداروں نے رپورٹ کیا ہے کہ بھارت نے دریائے چناب میں پانی چھوڑا ہے۔پاکستان ان تبدیلیوں کو انتہائی تشویش اور سنجیدگی سے دیکھتا ہے، یہ بھارت کی جانب سے بغیر پیشگی اطلاع دریائے چناب میں یکطرفہ طور پر پانی چھوڑنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ہمارے انڈس واٹر کمشنر نے سندھ طاس معاہدے میں درج طریقہ کار کے مطابق بھارتی ہم منصب کو خط لکھ کر وضاحت طلب کی ہے۔ بھارت کی جانب سے دریا کے بہاؤ میں کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ، خاص طور پر زرعی سائیکل کے ایک نازک مرحلے پر، براہِ راست ہمارے شہریوں کی زندگی، روزگار، غذائی تحفظ اور معاشی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔سندھ طاس معاہدہ ایک ‘پابند بین الاقوامی معاہدہ’ ہے جو ‘خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کا ذریعہ’ رہا ہے۔واضح رہے کہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے تحت مغرب کی جانب بہنے والے تین دریا سندھ، چناب اور جہلم پاکستان کو دیے گئے، جبکہ بھارت کو سندھ طاس کے تین مشرقی دریا ملے۔ معاہدے کی خلاف ورزی بین الاقوامی معاہدات کے تقدس اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے لیے خطرہ ہے اور اس سے علاقائی امن، حسنِ ہمسائیگی کے اصولوں اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے ضوابط کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو بھارت کی جانب سے ایک دوطرفہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے، بین الاقوامی قانون، تسلیم شدہ اصولوں اور اپنی ذمہ داریوں کے مطابق عمل کرنے کا مشورہ دینا چاہیے۔یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معطل رکھا تھا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ نئی دہلی نے بغیر ثبوت کے اس واقعے کا الزام اسلام آباد پر عائد کیا تھا۔ پاکستان نے معاہدے کے تحت اپنے حصے کے پانی کی معطلی کی کسی بھی کوشش کو ‘اعلانِ جنگ’ قرار دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ معاہدے میں یکطرفہ معطلی کی کوئی گنجائش نہیں۔بعد ازاں پاکستان نے 1969 کے ویانا کنونشن برائے قانونِ معاہدات کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتی کارروائی پر غور کرنے کا بھی کہا تھا۔بھارت نے ایک بار پھر سند ھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب کا 16 ہزار کیوسک پانی سلال اور بگلیہار ڈیم پر روک لیا جس سے نہر مرالہ راوی لنک اور نہر اپر چناب کو پانی کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔ بھارتی حکومت نے پاکستان دشمنی میں رواں سال تیسری بار سندھ طاس معاہدے کی خلا ف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر میں دریائے چناب پر قائم سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم کے سپل وے بند کرکے دریائے چنا ب کا 16 ہزار کیوسک پانی روک لیا۔ سند ھ طاس معاہدے کے تحت بھارت 15 جون سے 15 ستمبر تک دریائے چناب میں کم از کم 55 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے۔ پیر کی شام دریائے چناب میں پانی کی آمد 55 ہزار کیوسک کی بجائے 38 ہزار 794 کیوسک ریکارڈ کی جارہی ہے اور پانی کی سطح میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔بھارت اس سے قبل بھی کئی بار دریاؤں پر پانی روک کر پاکستان کو زرعی اور توانائی بحران میں دھکیل چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت کی یہ کارروائیاں نہ صرف علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ پاکستان کی زرعی معیشت اور عوامی زندگی کو بھی شدید متاثر کر سکتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان اس کھلی جارحیت پر کیا ردعمل دے گا؟ کیا عالمی برادری سندھ طاس معاہدے کی پامالی پر نوٹس لے گی؟ یا بھارت اسی طرح پانی کو ہتھیار بنا کر دباؤ بڑھاتا رہے گا؟۔بھارت نے ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی ثالثی عدالت کو پاکستان کے ساتھ آبی معاہدے پر فیصلہ دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے، بھارت نے کبھی اس عدالت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارت نے اپنے جارحانہ رویے اور آبی وسائل پر غیر قانونی قبضے کے ذریعے خطے میں نہ صرف پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں بلکہ عالمی آبی قوانین کی بھی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔بھارت کا بین الاقوامی ثالثی عدالت کو تسلیم نہ کرنا اور اس کی قانونی حیثیت سے انکار کرنا پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے، کیونکہ یہ عدالت سندھ طاس معاہدے کے تحت طے پانے والے تنازعات کو حل کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ بھارت کا یہ رویہ نہ صرف سفارتی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔اس رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اپنے مقاصد کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے، چاہے اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہوں اور خطے میں عدم استحکام پیدا ہو۔بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنا ‘آبی جارحیت’ ہے جو بھارت کے بانی نظریات اور فلسفے کی بھی توہین ہے۔ پاکستان کے دریاؤں کی خاموشی گواہی دے رہی ہے کہ صدیوں کی تہذیبوں، عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال اور خون کی روشنائی سے کھینچی گئی سرحدوں کی کوئی وقعت نہیں۔ دریاؤں کی یہ خاموشی اذیت اور ایک ایسی خیانت ہے جو طاقت کے نشے اور زعم میں سرشار بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے اور یہ دوسروں کی آزادی پر ضرب لگا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے