کالم

دنیا تو اب بھی دیکھ رہی ہے

وطن عزیز دنیا بھر میں اس لخاظ سے خوش نصیب ملک ہے کہ جسے قدرت نے پانچ موسموں سے نوازا ہے اگر صرف ان موسموں کی ہی بات کر لیں تو شاید دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو بھی ایسے موسم دستیاب نہیں یہی نہیں بلکہ قدرت نے ہماری مٹی ہمارے پہاڑوں اور دریاں کو قیمتی ترین معدنیات سے بھی نواز رکھا ہے اگر ہم محض ان معدنیات کے خزانوں سے ہی صحیح معنوں میں استعفادہ کر لیتے تو آج دنیا کے امیر ممالک کی صف اول میں کھڑے ہوتے ضرورت تھی تو ایک مخنتی جعفاکش عوام اور ملک دوست قیادت کی کہہ جسکی سوچ اور پلاننگ ملک اور بائیس کڑور عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے ہوتی لیکن عجیب بات ہے کہ تقریبا سات دہائیوں سے ہم پر ہر طرزِ حکومت اور حکمرانوں کو چاہے وہ بوٹوں والے ہوں یا شیروانی والے امپورٹڈ ہوں یا سلیکٹڈ بھی دیکھ لیے ہیں حتی کہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے منگوا کر آزما چکے ہیں اور صورتحال کچھ ایسی ہو چکی ہے کہ بچارے عوام ہر آنے والے حکمران کیلئے تالیاں بجانے نعرے لگانے مٹھایاں تقسیم کرتے یہی سوچتے ہیں کہ شاید یہ ہمارے دکھوں غموں کا مداوا کرے گا اور پھر چند سال بعد حسرتوں اور ناکامیوں میں اضافہ دیکھ کر اس جانے والے سے جان چھوٹنے پر بھی وہی نعرے اور مٹھایاں باٹنے کا عمل کر کر کے شاید اب اتنے تھک چکے ہیں کہ غربت اور مہنگائی مکا کے نعرے لگا کر آنے والوں کی سنہری پالیسیوں کی وجہ سے غریب بڑی تیزی سے ختم ہورہے ہیں اور اگر مزید چار پانچ سال انہیں خدمت کا موقع ملا تو شاید غریب ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے حالیہ بیان میں این این آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ڈیفالٹ کی حالت ایک عشرے کی غلطیوں کا نتیجہ ہے جسکے ازالہ کیلئے عدلیہ سیاستدانوں اور عسکری قیادت کو یکجا ہونا پڑے گا شاید انہیں علم نہیں کہ عدلیہ اور عسکری قیادت نے تو بڑے صبر کا مظاہرہ کیا ہے اس سے زیادہ وہ اور کچھ کر نہیں سکتے تھے ورنہ سیاستدانوں سے یہ دونوں شعبے یکجا نہ ہوتے تو آج جو حالات برپا کر دیئے گے ہیں ہم مارشل لا سے گزررہے ہوتے چلیں ایک بات تو دبے لفظوں میں وہ یہ مان رہے ہیں کہ دیفالٹ ہونے کی باتیں محض سیاسی نعرے نہیں بلکہ حقیقت ہے جسکے لیے عوام کو ایک مرتبہ پھر قربانی دینا ہوگی ویسے عباسی صاحب سے پہلے حکومت معاشی ایمرجنسی کا بھی سوچ رہی ہے لیکن اس میں بھی عام آدمی جو پہلے ہی بھوک اور افلاس کا شکار ہو کر خودکشیوں اور خودسوزیوں میں عافیت محسوس کر رہا ہے کچھ اور قربانیاں دینگے اس لیے کہ وزیرصاحب نے فرمایا ہے کہ عوام ابھی بیس فیصد مزید مہنگائی برداشت کر سکتے ہیں کمال ہیں ہمارے یہ عوام کی محبت میں سرشار حکمران اور کمال ہیں ان کی سوچ اور پالیسیاں اندازہ کریں نا ں کہ سویابین کے جہاز ساحل پر کئی دنوں سے کھڑے ہیں مگر مانگنے والوں کے مطالبات پورے نہ ہونے سے مرغیوں کی یہ خوراک جہازوں میں بند گل سڑ رہی ہے اور مرغی اور انڈے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ہے کوئی پوچھنے والا کہ کس کے حکم پر یہ جہاز رکے ہوئے ہیں اور مانگنے والے کس حساب سے مطالبات کر رہے ہیں جبکہ عوام اس کا بھی خمیازہ بھگت رہی ہے ہمیں کب اچھی لیڈر شپ ملے گی اورکیسے ملے گی اس کا جواب ڈھونڈنے کیلئے مجھے کراچی سے سٹاف رپورٹر کی ایک خبر دیکھنی ہوگی کہ جس میں چینی قونصل جنرل لی بیجان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہہ چین نے اپنے لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرتے ہوئے غربت میں ریکارڈ کمی کی انہوں نے کہا کہ آزادی کہ تیس سال تک ہمارا ملک غیر ترقی یافتہ تھا مگر اچھی لیڈرشپ اور جفاکش عوام کی مدد سے ہم آگے نکل گے ہیں ایک پوائنٹ چار ارب آبادی والے ملک میں سالانہ فی کس آمدن بار ہزار امریکی ڈالر ہے چین میں مضبوط حکومتی نظام سے لوگ نچلی سطح سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے ہیں قونصل جنرل نے ایسا کوئی ذکر نہیں کیا کہ ان کی قیادت اور حکمران وراثتی بنیادوں پر چلتی ہے اور نہ ہی انہوں نے یہ بتایا ہے کہ حکمران ذاتی جائیدادوں میں اضافے کرے کیلئے عام آدمی کہ معاشی وسائل اور حکومتی ثمرات کو اپنے تک محدود رکھتے ہیں البتہ چینی صدر نے گزشتہ دنوں ایک تقریب میں چین کی ترقی کا راز پوچھنے پر صحافی کو بتایا تھا کہ ہم میں کرپشن کے الزامات پر ایک سال میں تین ہزار منسٹرز کو پھانسی دی ہے لیکن ہم بڑے زبردست لوگ ہیں ہم نیب ہو یا کوئی اور احتسابی ادارہ جو قانون ہماری خواہش کا احترام نہیں کرتا ہم اسے بدل دیا کرتے ہیں اور عدالتوں میں گئے مقدمات کو بھی واپس لانے پر قدرت رکھتے ہیں اور راستے صاف اور حکومت مظبوط کے سنہرے اصولوں پر عمل کرتے ہیں وطن کی ترقی ہم سے ہے اور ہم وطن کی ترقی کے نگہبان ہیں باقی سب جھوٹ ہے خوشخبری یہ ہے کہ ہم پر حکومت کرنے والی اگلی نسل کے دلیر جرات مند بہادر اور ایماندار رہنما سلیمان شہباز چار سال کی جلاوطنی کاٹ کر واپس آگے ہیں اور شاید آئندہ چند روز میں ہمارے ہر دلعزیز سیاستدان میاں محمد نواز شریف کی آمد بھی متوقع ہے اور پاکستان ترقی کی راہ پر ایسا گامزن ہوگا کہ دنیا دیکھے گی ویسے دنیا تو اب بھی دیکھ رہی ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے