شینزن میں وزیر اعظم پاکستان کے خطاب کو دوست ملک چین کی تعمیر وترقی سے سیکھنے کی دیرینہ خواہش کے اظہار کے طور پر دیکھا جارہا ہے ، یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ شبہازشریف نے کھلے الفاظ میں چین کی ترقی اور پھر اقوام عالم میں خود کو منوانے جیسے غیر معمولی کارنامے سے سیکھنےکی بات کی ۔شیزن میں تقریب سےخطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ک ہے ، ہماری سب سے بڑی قوت ہمارا نوجوان ہےمگر اس کے لیے لازم ہے کہ نئی نسل کو درست سمت کی جانب راغب کیا جائے ، شبہازشریف نے کہا کہ چین سے ہمیں یہ سیکھنا ہے کہ کس طرح ماضی کے فرسودہ طورطریقوں کو ترک کرکے عصر حاضر کے تقاضوں سے کام لیا جائے ۔وزیر اعظم پاکستان نے خطاب میں اس حقیقت کا بھی برجستہ اعتراف کیا کہ پاکستان بدعنوانی کے تدارک کے لیے بھرپور اقدمات کررہا ہے ، اس کی نمایاں مثال یہ ہے کہ ہمارے ہاں برنس کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ، شبہازشریف کا کہنا تھا کہ چینی صدر نے 700 ملین لوگوں کو غربت سے نکالا جبکہ 50 اور 60 کی دہائی میں ہمارے اعداد وشمار چین سے بہتر تھے ، وزیر اعظم پاکستان نے کہا مگرآج امید افزا بات یہ ہے کہ ہمارے پاس 10 ٹریلین ڈالرز کے معدنی زخائر ہیں،” بلاشبہ وزیر اعظم کا دورہ چین دونوں دوست ممالک میں باہمی اعتماد کے نئے رشتوں کی بنیاد بن سکتا ہے ،شبہازشریف چین کے دورے میں سی پیک منصوبوں بارے نہ صرف اہم اجلاسوں میں پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں بلکہ نئے منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے بھی چین قیادت کے ساتھ مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط کیے گے ،یقینا پاکستان کا بنیادی مسلہ معاشی استحکام ہے ، وزیر اعظم شبہازشریف اور ان کے رفقا کی بھرپور کوشش ہے کہ پاکستان امداد کی بجائے تجارت کے اصول پر چلے ، یہی سبب ہے کہ وزیر اعظم پاکستان مسلم وغیر مسلم ممالک کے امتیازسے قطع نظر ہر کسی کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی پر خلوص دعوت دیتے ہیں، دورہ چین کے دوران وزیر اعظم پاکستان نے دہشت گردی کی کاروائی میں چینی باشندوں کی ہلاکت پر نہ صرف گہرے دکھ کا اظہار کیا بلکہ یہ عزم بھی دہرایا کہ پاکستان ان شرپسند عناصر کے خلاف بھرپور کاروائیاں کررہا ہے جو چینی انجنئیرز اور باشندوں کو قتل کرنے میں ملوث ہیں ، اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ بعض علاقائی اور عالمی قوتیں پاک چین دوستی سے خائف ہیں، ان کی اولین ترجیح ہے کہ چینی باشندوں کو تواتر کے ساتھ نشانہ بنایا جائے تاکہ اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مابین تیزی سے فروغ پانے والے معاشی ہی نہیں سیاسی تعلقات میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے ،مقام شکر ہے کہ پاکستان ہی نہیں چین بھی باخوبی آگاہ ہے کہ سی پیک جیسے منصوبے کو ناکام بنانا آخر کس کی دیرینہ خواہش ہے ، یہی وجہ ہے کہ تمام تر مسائل کے باوجود دونوں ملکوں کی قیادت مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے کمربستہ ہے ، پاک چین دوستی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خاص حالات کی مرہون منت نہیں ، یوں بھی نہیں کہ یہ کسی مخصوص جماعت کا شخصیت کے زیر اثر ہوں ،البتہ مسلم لیگ ن کا معاملہ مختلف ہے ، مثلا پی ایم ایل این جب بھی اقتدار میں آئی تو پاکستان اور چین میں نئے معاہدوں کی بنیاد رکھی گی ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سی پیک کا منصوبہ بھی پی ایم ایل این کی قیادت ہی کا مرہون منت ہے ،شبہازشریف کا معاملہ یہ ہے کہ بطور وزیر اعلی پنجاب انھوں نے ایک سے زائد مرتبہ چین کا دور کیا ، چینی کمپنیوں کو پانچ دریاوں کی سرزمین میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی ، پنجاب آبادی کےا عتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ، بطور وزیر اعلی پنجاب شبہازشریف کے دور میں تکمیل ہونے والے ترقیاتی منصوبہ آج عوام کے لیے آسانیاں پیدا کررہے ہیں، اس پس منظر میں وزیر اعظم پاکستان آگاہ ہیں کہ اگر بطور قوم ہم نے مسائل پر تیزی سے قابو پانا ہے تو اس کے لیے دو اصولوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا، ایک سرکاری اخراجات میں کٹوتی جبکہ دوسرا حکومتی وسائل میں اضافہ ، حقیقت یہ ہے کہ گلوبل ویلج کی شکل اختیار کرنے والی اس دنیا میں کوئی بھی ملک تن تنہا تعمیروترقی کی منازل سر نہیں کرسکتا، یہی سبب ہے کہ ترقی پذیر ہی نہیں ترقی ممالک بھی اپنے ہاں کاروباری سرگرمیوں کے فروغ میں انتھک کاوشیشں کررہے ہیں، وزیر اعظم شبہازشریف کا ویثرن ہے کہ سیاسی اختلافات کو معاشی اہداف کے حصول میں کسی طور پر رکاوٹ نہیں بننا چاہے ، یہی سب ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ایک سے زائد مرتبہ بھارت کو بات چیت کے زریعے مسائل حل کرنے کی دعوت دے چکے ، یقینا مستقبل جنوبی ایشیا کا ہے مگر اس کے لیے لازم ہے کہ بھارت جیسے ہمارے پڑوسی ممالک سیاسی تنگ نظری کا خاتمہ کرتے ہوئے دور اندیشی سے کام لیں ، وزیر اعظم پاکستان کی چینی حکام اور کاروباری طبقہ کی ملاقاتوں کے مثبت نتائج دیکھنے کے لیے شائد زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑے، ہمیں ماننا ہوگا کہ ممللکت خداداد فلاحی ملک کی منزل تک جلد پہنچ سکتا ہے اگر ہماری اپوزیشن جماعتیں اپنے انفرادی اور گروہی مفادات سے تائب ہوکر شبہازشریف حکومت کے ترقیاتی کاموں میں مثبت کردار ادا کرنے پر کمربستہ ہوجائیں