پاکستان کی سکیورٹی فورسیش کیے تاکہ ملک میں امن قائم ہو سکے۔ یہ قربانیاں پاکستان کے اس غیر متزلزل عزم کی عکاس ہیں کہ کوئی بھی قوت،ز کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ اس جنگ میں ہزاروں جوانوں اور افسران نے اپنی جانوں کے نذرانے پ چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی، ہمارے قومی اتحاد اور سلامتی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہونے والی بیشتر دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے بھارت اور افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کے ہاتھ ہیں۔ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے پراکسی جنگوں کے ذریعے ملک دشمن عناصر کو مالی، عسکری اور لاجسٹک مدد فراہم کرتی ہیں۔ بھارتی ایجنسی ”را” طویل عرصے سے پاکستان کے مختلف حصوں میں بدامنی پھیلانے کی سازشوں میں ملوث رہی ہے۔ بلوچستان سے لے کر خیبر پختونخوا تک بھارتی پراکسی نیٹ ورکس نے انتشار پھیلانے کی کوشش کی مگر پاکستانی عوام اور فورسز نے ان تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ پاکستان عالمی برادری سے بارہا یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور پاکستان کے خلاف پراکسی جنگوں کا نوٹس لیا جائے۔ دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب بھارت اپنی جارحانہ پالیسیوں سے باز آئے اور خطے میں استحکام کیلئے تعمیری کردار ادا کرے۔ پاکستانی قوم اور افواج متحد ہو کر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنا رہی ہیں۔ شہداء کی قربانیاں اس قوم کا سرمایہ افتخار ہیں۔ میجر سبطین حیدر جیسے بہادر سپوتوں نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کی سلامتی ناقابلِ تسخیر ہے۔ آج پوری قوم اپنے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عہد کی تجدید کرتی ہے کہ ہم اپنی دھرتی کے دفاع، امن اور ترقی کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ازلی مکار دشمن بھارت، جو شروع دن سے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری ختم کرنے کے درپے ہے اور اس مقصد کیلئے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرنے اور اسے سانحہ سقوطِ ڈھاکہ سے دوچار کرنے کے بعد اس ارضِ وطن پر اپنی پراکسیز کے ذریعے دہشت گردی پھیلانے اور حالیہ سیلاب کے دوران پاکستان پر آبی دہشت گردی کرنے کا بھی مرتکب ہو چکا ہے، اپنے گذشتہ مئی والے جنگی جنون میں پاکستان کی جری و بہادر مسلح افواج کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہوکر دنیا بھر میں ہزیمت اٹھا چکا ہے اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ وہ اب پاکستان کے خلاف آتشِ انتقام میں جل رہا ہے اور اس پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے جس کی اطلاعات عالمی میڈیا کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر موصول ہو رہی ہیں۔طالبان کی جانب سے پاکستان پر حملے کے الزام میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ کابل پر پاکستانی فورسز نے حملہ کیا ہے، تاہم اس کے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔ حملے کے وقت افغان وزیرِ خارجہ بھارت میں موجود تھے۔پاکستان پر حملوں کے پس منظر میں بھارت کے کردار کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ رواں سال مئی میں ہونیوالی پاکستان بھارت جنگ کے دوران افغان نائب وزیرِ داخلہ نے خفیہ دورہ بھارت کیا تھا۔ پاکستان میں دہشتگردی کیلئے افغان۔بھارت گٹھ جوڑ اب کسی پردے میں نہیں رہا۔ بھارت خطے میں امن تباہ کرنے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلے ہر حد پار کر رہا ہے، اور اب وہ طالبان حکومت کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔اپریل اور مئی میں پاکستان نے بہت سے معاملات جیسا کہ بارڈر پر داخلے کے حوالے سے نرمی اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے مطالبات تسلیم کئے لیکن اس عرصے کے دوران پاکستان کا افغانستان سے صرف ایک ہی مطالبہ رہا کہ افغان طالبان حکومت افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشتگرد کاروائیوں سے روکے، جس پر افغان حکومت نے اِتفاق بھی کیا۔تاہم فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی کاروائیوں میں افغان سرزمین کے استعمال کو روکا نہ جا سکا اور پاکستان میں ٹی ٹی پی حملوں میں درجنوں فوجی جوان، آفیسرز ، پولیس افسران اور عام شہری جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔آج کل پاک افغان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ ویسے تو یہ تعلقات کبھی بھی بہترین حالت میں نہیں رہے ۔ اس کی وجہ افغان معاملات میں بھارتی مداخلت اور پشت پناہی ہے۔اپریل میں اسحاق ڈار کے دور کابل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان جمی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوئی جس کے بعد مئی میں اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا اور پاکستان ازبکستان کے درمیان براستہ افغانستان ٹرین چلانے کا اعلان بھی کیا گیا لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں، جو 11 اور 12 اکتوبر کو شدید فوجی کشیدگی کے بعد خراب تر ہو گئے۔ دونوں اطراف نقصان ہوا لیکن زیادہ نْقصان افغانستان کی طرف ہوا جنہوں نے پاکستان سے جنگ بندی کی درخواست کی جس کو قبول کیا گیا۔چند روزقبل افغان وزیرِخارجہ نے بھارت میں کھڑے ہو کر مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کی حمایت کر دی اور ایسا کرنیوالا پہلا اسلامی ملک بن گیا تو دوسری طرف پاکستان نے اپنی اِس خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل ایک ہمہ جہت حکومت چاہتا ہے یعنی افغانستان کے اندر طالبان کی ساتھ ساتھ دوسرے فریقوں کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے۔کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیاں حالات کی بہتری کا کوئی اِمکان ہے اور کیا دونوں ممالک بات چیت میں آنے والے تعطل کو دوبارہ شروع کر سکتے ہیں یہ ایک سوال ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے مستقل کو طے کریگا۔حالیہ تصادم میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر بلا اشتعال حملوں الزام لگایا ہے۔پاکستان نے اس فوجی تنازع کے دوران مبیّنہ طور پر خارجی تشکیلات کو پاکستان میں داخلے سے روکتے ہوئے حملہ پسپا کیا بلکہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر بھی حملے کیے۔ کابل کا یہ کہنا ہے کہ یہ حملے اْن کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف تھے۔