کالم

دہشت کی علامت کالا پانی

”کالا پانی‘ ‘ کا نام ذہن میں آتے ہی ایک خوفناک عقوبت گاہ کا تصور دل و دماغ پر حاوی ہونے لگتاہے جس کی درجنوں کہی ان کہی کہانیاں مشہور ہیں اس کی دہشت کا سحر آج بھی قائم ہےِ متحدہ ہندوستان کی تاریخ آزادی میں ’کالا پانی‘ کی بڑی اہمیت رہی ہے یہ ان دنوں دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھااردو زبان وادب میں بھی کالا پانی بہت مشہور نام اور اصطلاح رائج ہے کہاجاتاہے کہ ’کالاپانی‘ کو بطور قیدخانہ استعمال کرنے کا سلسلہ 1857 ءکی جنگ سے شروع ہوگیا تھا جہاںخطرناک سیاسی قیدیوں، سلطنت ِ برطانیہ کے باغی اور حریت پسندوں کو اذیتیں دینے کےلئے قید کیا جاتا تھا جن میں بیشترکو عمر قید یا سزائے موت دینا مقصود ہوتا تھاسیلولر جیل جو کالا پانی کے نام سے معروف ہے، جزائر انڈمان و نکوبار میں واقع ایک استعماری جیل تھی۔ ہندوستان کے استعماری عہد میں برطانوی حکومت خصوصاً اپنے سیاسی قیدیوں کو یہاں جلا وطن کرتی تھی۔ بحرہند میں واقع جزائر انڈیمان اور وہاں قا ئم کئے جانےوالے زنداں کو ا±س دور میں ’کالا پانی‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا، جب فرنگیوں نے آزادی کے متوالوں اور ا±ن کے اہل ِ خانہ سے الگ کرکے اس جگہ قید ِتنہائی میں بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ا±س زمانے کو جب کسی کو آزادی مانگنے کے ج±رم میں قید کی سزا سنائی جاتی تو کہا جاتا تھا کہ ف±لاں کو ”حبس ِدَوام بہ عبور دریائے شور“۔یا۔”عبورِ دریائے شور“ کی سزا دی گئی ہے۔ انڈمان کے جزائر کی تعداد دوسو (200) ہے، جبکہ اس کے جنوب میں 90 میل کے فاصلے پر واقع نکوبار کے انیس جزائر بھی اس میں شامل ہیں اور اَب یہ علاقہ جات ہندوستان کے جدید نقشے میں ایک ہی ریاست (یعنی صوبے) کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کا دارالحکومت پورٹ بلئیر(Port Blair) ، کلکتہ سے 780 میل دور ہے۔ اس خطے کو ’کالا پانی‘ کا نام کیوں دیا گیا اس کے بارے میں سینہ بہ سینہ جو باتیں مشہور ہیں ان کے مطابق ان جزائر میں سیاہ کیچڑ سے بھرے دلدل علاقے، بچھو کے برابر مچھر، خطرناک سانپ، اژدھے، بچھو، چھپکلیاں اور بے شمار دیگر م±ہلک حشرات الارض کی موجودگی کسی بھی قیدی کی زندگی دنوں میں ختم کرنے کو کافی تھی۔ چونکہ لفظ کالا دراصل سنسکِرِت لفظ ’کال‘ (بمعنی وقت، موت) سے مشتق ہے، لہٰذا اسے ’کالا پانی‘ کہا جانے لگا۔ راجہ راجیسور راو¿ اصغر نے اپنی ہندی اردو لغت میں کال کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : وقت، زمانہ، ہنگام، موقع، موسم، موت، مرگ، اجل، سیاہ، مصیبت، گرانی، قحط، سانپ، عرصہ، حادثہ، مَلَک الموت، روزِ آیندہ۔ قیاس ہے کہ سیاہ کیچڑ سے بھری دلدل کے باعث، یہاں سمندر کا پانی سیاہ نظرآتا ہے اس لئے یہ علاقہ کالا پانی کے نام سے معروف ہوگیا یہ بھی کہا جاتاہے کہ ان جزائر کے جنگلوں میں آج بھی تہذیب سے ناآشنا، قدیم طرزحیات سے ج±ڑے ہوئے جنگلی اور وحشی انسان بستے ہیں جن کو کسی تہذیب و تمدن سے کوئی یارا نہیں یہ لوگ بندر ، گیڈر ، سور ، سانپ سے ملتی جلتی ہر چیز کھا جاتے ہیں البتہ قیدخانے کا خاص علاقہ آج قومی یادگار میں تبدیل ہوچکا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ’کالاپانی‘ کو بطور قیدخانہ استعمال کرنے کا سلسلہ تو 1857 ءکی جنگ آزادی کے اختتام پر 1858ء سے شروع ہوگیا تھا جب آخری مغل فرمانروا بہادرشاہ ظفر کی قیادت میں جنرل بخت خان نے علم ِ بغاوت بلند کرتے ہوئے برٹش حکومت کی بنیادیں ہلادی تھیں اس تحریک کو انگریزوں نے غدرکا نام دیا یہ بغاوت ناکام ہوگئی بہادر شاہ ظفرکو گرفتار کرلیا گیا تھاجنرل بخت خان حالات سے دلبرداشتہ ہوکر لاپتہ ہوگئے اور آج تک ان کی موت کے بارے میںتاریخ خاموش ہے انگریز سرکار نے انپے سیاسی مخالفین اور ان کے ساتھیوں کو دہشت زدہ کرنے کےلئے انہیں کالا پانی کی سزا سنائی پہلے یہ باقاعدہ کوٹھریوں پر مشتمل ایک قیدخانہ تھا جہاں کچھ تنگ و تاریک کوارٹر بنائے گئے پھر ایک منصوبے کے تحت 1896ءمیں جیل کی تعمیر انھی قیدیوں سے بیگار لیتے ہوئے شروع کرائی گئی جو دس سال بعد 1906ءمیں مکمل ہوئی۔ اس قیدخانے کی تعمیر کےلئے برما سے اینٹیں منگوائی گئی تھیں۔ ایک دوسرے سے الگ تھلگ بنائی جانے والی ان کوٹھریوں پر مشتمل قیدخانے کو Cellular Jailکا نام دیا گیا۔1857 ءکی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد کادور انتہائی خوفناک تھا خاندان مغلیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیرتعداد جو اِسی معرکے میں گرفتار ہوئی جو کسی سبب سے زندہ رہ گئے اور ہر وہ شخص جس پر یہ شبہ تھا کہ وہ غذر میں شریک جرم ہے، ’کالاپانی‘ بھیجا گیا۔ ابتداء میں کوئی دو سو (200) افراد وہاں بھیجے گئے، جبکہ اپریل 1868 میں کراچی سے بھی سات سو تینتیس ( 733) افراد کو وہاں لایا گیا تھا۔ یہ قیدخانہ 1939ء میں خالی کیا گیا، 1942ء میں ان جزائر پر جاپان کا قبضہ ہوا، پھر یہاں نیتا جی س±بھاش چندر بوس نے پرچم آِزادی لہرایا اور یہ علاقہ باقاعدہ تقسیم ہوگیا۔ ’کالا پانی‘ کی سزا بھگتنے والے متعدد مشاہیر میںعلامہ فضل حق کا گھر علمی وادبی محافل کا مرکز ومحور ہوا کرتا تھا ۔ ا±ن کی تصانیف میں جنگ آزادی ِہند 1857 ءسے متعلق کتاب ’ثور الہندیہ‘، (اردوترجمہ ’باغی ہندوستان‘)، حاشیہ شرح مسلم از قاضی مبارک، حاشیہ افق المبین، رسالہ تحقیق العلم والمعلوم اور تاریخ ہندوستان، نیز چار ہزار سے زاید عربی اشعار شامل ہیں۔ ا±ن کی ایک عربی نعت، مشہور ادبی جریدے نقوش کے ’رسول (ﷺ)نمبر‘، جلد دہم میں مع ترجمہ شامل ہے۔ جنگ آزادی میں جب جرنیل بخت خان کی سرکردگی میں عارضی طور پر بہادرشاہ ظفر کی شاہی بحال کرتے ہوئے نظم ونسق قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسے میں بادشاہ بہادرشاہ ظفرنے ایک مجلس تشکیل دی جس میں بخت خان کیساتھ علامہ فضل حق شامل تھے جنھوں نے کمپنی بہادر کی ل±ولی لنگڑی بادشاہت کی بجائے باقاعدہ حکومت کےلئے ایک دستوری نظام مرتب کرکے آخری تاجدار کے حضور پیش کیا تھا۔ علامہ فضل حق کو عام معافی کے اعلان کے باوجود، ا±ن کے گھر سے بھوکا پیاسا گرفتار کرکے ’کالاپانی ‘ بھیجا گیا۔ انھوں نے قیدوبند کی صعوبتوں میں بھی اپنا علمی کام جاری رکھا اور جب ایک مدت کے بعد، ا±ن کے فرزند علامہ عبدالحق خیر آبادی، ا±ن کا پروانہ رہائی لے کر انڈیمان پہنچے تو دیکھا کہ حضرت کا جنازہ جارہا ہے۔ (شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں ان کا سن پیدائش سہواً 1211ھ مطابق 1796/97ء اور سن وفات 1862ء درج ہے)۔علامہ فضلؒ حق خیر آبادی کا مرثیہ، ا±نھی کے ہمراہ ’کالا پانی‘ میں قیدوبند کی صعوبت برداشت کرنے والے معروف شاعر منیر شِکوہ آبادی نے لکھا۔ ا±ن کے یہ اشعار علامہ کی شخصیت کے ّآئینہ دار ہیں کالاپانی میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ایک اور وہابی تحریک کے راہنما مولوی جعفر تھانیسری بھی نمایاں ہیں، جن کی کتاب ’تواریخ ِ عجیب‘ عرف ’کالاپانی‘ اسی موضوع پر بہت مشہور ہے۔ وہ سترہ سال دس ماہ تک وہاں قید رہنے کے بعد، ایک بیوی، آٹھ بچوں اور م±بلغ آٹھ ہزار روپے نقد کے ہمراہ اپنے وطن تھانیسر، انبالہ (ہندوستان) واپس پہنچے تھے۔ ’کالا پانی‘ میں قید کی صعوبت برداشت کرنےوالے، آزادی کے غیر مسلم متوالوں میں یوگیندر ش±کلا، بَٹو کیشوَردَت ، بابا راو¿ سوارکر، وِنائک دَمودر سوارکر (بھائی)، سچندر ناتھ سنیال، بھائی پرمانند، سوہن سنگھ ، سو ب±دھ رائے اور ٹریلو کیاناتھ چکرَوَرتی شامل تھے۔ 8 فروری 1872ءکو شیرعلی آفریدی نامی ایک قیدی نے پورٹ بلئیر (مونٹ ہیریٹ)، کالے پانی کے دورے پر آنےوالے انگریز وائسرائے لارڈ میو کو قتل کردیا تھا۔ ا±سے 11مارچ 1872ء کو پھانسی دے دی گئی۔ ضلع پتھورا گڑھ (ا±تّر اکھنڈ) میں واقع پینتیس مربع کلومیٹر پر م±حیط، یہ ’کالاپانی‘ ہندوستان اور نیپال کے مابین سرحدی تناز±عہ کا سبب ہے۔ یہاں ہندوستان اور تبت کی سرحدی پولیس کی عمل داری ہے، مگر نیپال کے دعوے کے مطابق یہ علاقہ ا±س کے ضلع دارچ±ولا میں شامل ہے۔ یہ کالاپانی، سلسلہ کوہ ہمالیہ کے دریائے کالا کے طاس (Basin)کا علاقہ ہے جو تقریباً پانچ ہزار میٹر بلند دریائے کالی (مہاکالی) کا حصہ ہے۔ یہ علاقہ کالاپانی۔ لِمپیا د±ھورا ۔لی پ±و لیکھ کے مثلث پر مشتمل اور نیپال، ہندوستان اور تبت (چین) کے سنگم پر واقع ہے۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ نیپال نے1998ءسے اس ’کالاپانی‘ پر قبضے کا دعویٰ کرنا شروع کیا ہے، جبکہ نیپال کا یہ موقف ہے کہ یہ علاقہ تو شروع ہی سے ہمارا ہے، ہندوستان یہاں سے نکل جائے۔ دریائے کالاپانی کا نام، قریبی واقع اسی نام کے گاو¿ ں سے منسوب ہے۔ (بحوالہ الموڑا گزٹ: ڈسٹرکٹ الموراGazetteer-1911)۔ دیوسائی (گلگت۔بلتستان) میں بہنے والے ایک دریا کا نام ’چھوٹا پانی‘ اور دوسرے کا ’بڑا پانی‘ ہے۔ یہی ’بڑا پانی‘ اکثر ’کالاپانی‘ بھی کہلاتا ہے۔ کئی سال پہلے انٹرنیٹ اور واٹس ایپ پر یہ پیغام عام ہوا کہ چونکہ یہ دونوں دریا ہندوستان میں جاکر بہتے ہیں تو ہمسایہ ملک کی ” آبی دہشت گردی“ کا موثر جواب دیتے ہوئے انھیں کاٹ کر ان کا ر±خ موڑا جاسکتا ہے۔ ہندو روایات کے تناظر میں دوردراز سمندری سفر کرکے کہیں اور جابسنے کو بھی معیوب سمجھتے ہوئے ’کالاپانی‘ جانا قرار دیا جاتا تھا۔ ’کالاپانی‘ کے عنوان سے ہندوستان میں دو مشہور فلمیں بنیں۔ پہلی فلم 1958ءمیں دیو آنند نے بنائی اور دوسری فلم 1996ء میں اسی تاریخی موضوع پر ملیالم زبان میں بنائی گئی، پھر اس کا اردو زبان میں ’سزائے کالاپانی‘ اور تَمِل اور تلیگو زبانوں میں بھی ترجمہ کرکے نمائش کےلئے پیش کیا گیا۔ اس عنوان پاکستان میں بھی ایک فلم بنائی گئی جس میں لالہ سدھیر اور آغاطالش نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے