کالم

دہشت گردی کے اسباب،عوامل اور ذمہ داران

پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی جیسے سنگین مسئلے کا سامنا ہے۔ہزاروں قیمتی جانوں کاضیاع،اربوں روپے کا معاشی نقصان اور سب سے بڑھ کر ملک کا عالمی تشخص اس دلدل کا شکار ہوا, لیکن آج بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے آخر پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس کا سارا الزام بیرونی قوتوں پر دھر دینا کافی ہے یا ہمیں اندرون خانہ بھی کسی احتساب کی ضرورت ہے؟ پاکستان میں دہشت گردی کے پھیلاؤ میں بیرونی ہاتھوں کے کردار سے انکار ممکن نہیں ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را”, افغانستان میں موجود کچھ عناصراور دیگر علاقائی طاقتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی خواہاں رہی ہیں۔بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سابق قبائلی علاقہ جات میں ان کی سرگرمیوں کے شواہد وقتاً فوقتاً ہمارے سیکیورٹی ادارے پیش کرتے رہے ہیں۔2001 کے بعد افغانستان میں امریکہ کی موجودگی اور پاکستان کا فرنٹ لائن اتحادی بننا بھی ملک کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لے آیا.طالبان، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں نے پاکستان کو میدان جنگ بنادیا۔ ڈرون حملے، معصوم شہریوں کی ہلاکتیں اور پاکستان کیخلاف نفرت انگیز بیانیے نے ان تنظیموں کو مزید تقویت دی.یقینا اس میں بیرونی ہاتھ اپنی جگہ لیکن ہمیں یہ بھی کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ داخلی طور پر کئی ایسی پالیسیاں اور فیصلے کیے گئے, جنہوں نے دہشت گردی کو جنم دیا یا اسے پنپنے کا موقع دیا۔پاکستان کی خارجہ اور دفاعی غیر واضح پالیسیز,دہری سوچ,ایک طرف دہشتگردی کیخلاف جنگ,،دوسری طرف ”اچھے” اور ”برے” طالبان کی تمیز نے نہ صرف دنیا کو پاکستان سے بدظن کیا بلکہ شدت پسند عناصر کو بھی فائدہ پہنچایاہے۔ اس میں یقیناً مدارس کا کردار بھی شامل رہا ہے.اگرچہ تمام دینی مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں لیکن کچھ ایسے مدارس بھی موجود رہے جہاں انتہا پسندی کی تعلیم دی گئی، جہاد کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کیا گیا اور انہیں ریاست کے خلاف استعمال کیا گیا۔بعض اوقات شدت پسند گروہوں کو سیاسی فوائد کیلئے استعمال کیا گیا ۔ چند سیاسی جماعتوں نے ماضی میں ان گروہوں سے روابط بھی رکھے،انہیں جلسوں ، ریلیوں،کارنر مٹینگوں میں بلایااور انہیں ” ووٹ بینک” کے طور پر بھرپور استعمال کیا ۔ اس کے علاوہ ملکی سطح پر دہشت گردوں کو سزا دینے کا عمل انتہائی سست اور غیر مؤثر رہا۔شواہد کا فقدان،گواہوں کو تحفظ نہ ملنااور عدالتی پیچیدگیاں دہشت گردوں کو آزاد کرنے کا باعث بنتی رہیں،نے بھی ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں،خصوصاً سیکیورٹی ایجنسیز نے د ہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ آپریشن ضربِ غضب، ردالفساد اور خیبر فور جیسے آپریشنز میں ہزاروں اہلکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا ہے لیکن ماضی میں چند پالیسی غلطیاں بھی ہوئیں جن پر بات کرنا قومی مفاد میں ضروری ہے۔ریاستی اداروں کو اب ایک واضح،دوٹوک اور ہم آہنگ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ صرف بندوق سے نہیں بلکہ نظریے، تعلیم، معاشرتی اصلاحات اور مضبوط عدالتی نظام سے جیتی جا سکتی ہے وہیں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ، خصوصاً سوشل میڈیا شدت پسندی کے بیانیے کو پھیلانے یا اسے روکنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے کئی بار ہم نے دیکھا کہ غیر مصدقہ خبریں، نفرت انگیز تقاریراور فرقہ وارانہ مواد بغیر کسی روک ٹوک کے پھیلایا گیا ۔ میڈیا ہاؤسز کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور ریاست کو بھی مؤثر سائبر قوانین متعارف کروانے ہونگے ۔ پاکستان کو دہشتگردی سے نجات دلانے کیلئے ایک ہمہ جہت حکمت عملی درکار ہے جس کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:1۔نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد: 2014 میں تشکیل دیئے گئے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل،بلا تفریق اور مؤثر عملدرآمد کیا جائے۔2۔تعلیم اور روزگار: نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے کیلئے تعلیم، ہنر اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔ 3 ۔ مدارس کی اصلاح: دینی مدارس کو مرکزی نظام تعلیم سے جوڑا جائے اور ان کی نگرانی کیلئے مؤثر نظام بنایا جائے۔4۔انصاف کی فوری فراہمی: دہشت گردوں کو فوری اور شفاف ٹرائل کے ذریعے سزائیں دی جائیں تاکہ عوام کا نظام انصاف پر اعتماد بحال ہو ۔ 5 ۔ خارجہ پالیسی میں توازن: ہمسایہ ممالک سے متوازن اور دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں تاکہ بیرونی مداخلت کا امکان کم ہو۔پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو ٹھہرانا درست نہ ہوگا۔ یہ ایک ہمہ جہت مسئلہ ہے جس کے تانے بانے داخلی و خارجی دونوں عوامل سے جڑے ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں، ذاتی و جماعتی مفادات سے بالا تر ہو کر صرف اور صرف قومی سلامتی کو اولین ترجیح دیں۔کسی ملک کیلئے سب سے اہم چیز اس کی سلامتی خود مختاری ، داخلی امن، سرحدوں کا تحفظ اور عوام کی حفاظت ہے ۔ یاد رکھیے کہ ملکی سلامتی ایک ایسا پہلو ہے جس پر کوئی بھی ریاست سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ یہ صرف بارودی سرحدوں یا ایٹمی صلاحیتوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس میں سیاسی استحکام، معاشی مضبوطی، عوامی اعتماد، خارجہ پالیسی، سائبر سیکیورٹی، داخلی ہم آہنگی اور قانون کی عملداری جیسے بنیادی عوامل شامل ہیں۔جب ان میں سے کسی ایک پہلو میں کوتاہی کی جائے تو اس کا اثر پورے ریاستی نظام پر مرتب ہوتا ہے۔بدقسمتی سے جب ملکی سلامتی کو وقتی مفادات یا ذاتی ترجیحات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے تو نتائج تباہ کن ثابت ہوتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے اپنی سلامتی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا ، وہ یا تو اندرونی خلفشار کا شکار ہوئیں یا بیرونی مداخلت کی زد میں آئیں۔داخلی انتشار ، بداعتمادی، کمزور عدالتی نظام اور سیاسی مداخلت ان عوامل میں شامل ہیں جو سلامتی کے اداروں کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں۔اگر قانون نافذ کرنیوالے ادارے خود غیر محفوظ ہوں یا ان پر سیاسی دباؤ ہوتو وہ اپنے فرائض کس طرح آزادانہ طور پر سرانجام دے سکتے ہیں؟معاشی بدحالی بھی سلامتی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔جب ایک ملک قرضوں میں جکڑا ہو، بیروزگاری عام ہو اور عوام کا معیارِ زندگی پست ہو، تو اندرونی بے چینی جنم لیتی ہے۔ یہی بے چینی انتہا پسندی، بدامن ریاستی اداروں سے بدظنی کو جنم دیتی ہے۔ یوں ایک نادیدہ جنگ شروع ہو جاتی ہے جو گولیوں یا ٹینکوں سے نہیں بلکہ عوامی نفسیات، معاشی کمزوری اور ادارہ جاتی زوال سے لڑی جاتی ہے۔سائبر دور میں معلومات کی جنگ بھی ایک نیا محاذ ہے۔ جھوٹی خبروں،افواہوں اور سوشل میڈیا پر مبنی پراپیگنڈا کے ذریعے ریاستوں کو عدم استحکام سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔اگر ریاست وقت پر ڈیجیٹل تحفظ کے اقدامات نہ کرے تو وہ خود اپنی عوام کے ذہنوں سے ہار سکتی ہے چاہے اس کے پاس کتنا ہی جدید اسلحہ کیوں نہ ہو ۔ اسی طرح خارجہ پالیسی میں کمزور فیصلے اور غیرمتوازن تعلقات بھی ملکی سلامتی پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ کسی بھی بڑی طاقت کے تابع رہنا یا خطے میں تنہائی کا شکار ہونا دشمن عناصر کو تقویت دیتا ہے۔ دنیا میں سفارتی تعلقات آج کی جنگی حکمتِ عملی کا بنیادی جزو ہیں جنہیں کمزور یا نظر انداز کرنا خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ملکی سلامتی میں سب سے بڑا کردار عوام کا ہوتا ہے۔ جب قوم اپنے اداروں پر اعتماد کھو بیٹھتی ہے تو دشمن کو اندر سے دراڑ ڈالنے کا موقع ملتا ہے۔ قومی یکجہتی، سیاسی بالغ نظری اور شفاف حکمرانی وہ عوامل ہیں جو ملکی سلامتی کو فولادی حصار مہیا کرتے ہیں۔لہٰذا یہ سمجھنا از حد ضروری ہے کہ ملکی سلامتی کوئی وقتی نعرہ یا جذباتی بیان نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت ذمہ داری ہے۔اس میں کوتاہی، سستی یا غفلت صرف اداروں کی ناکامی نہیں بلکہ پوری قوم کی بقاء کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے اور جب ریاست کی بقاء خطرے میں پڑ جائے تو پھر نہ کوئی سیاست بچتی ہے،نہ معیشت، نہ تہذیب اور نہ ہی آزادی۔ اگر ہم نے آج بھی سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے تو آنیوالی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کرینگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے