اداریہ کالم

دہشت گردی کے خلاف وسیع لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت

idaria

کراچی میں پولیس ہیڈکوارٹرپرہرگزحملہ نہ ہوتااوردہشت گرداپنی من پسندجگہ کاانتخاب کرکے وہاں کبھی نہ گھس سکتے اگرہمارے حکومتی اداروں نے کچھ احتیاطی تدابیراپنائی ہوتیں۔ مگر محسوس یہ ہوتاہے کہ حکومتی ادارے انتہائی سنگین واقعات کواسی شام دفن کرکے سوجاتے ہیںاوراگلے دن کی پلاننگ نہیں کرتے۔پشاورمیں پولیس ہیڈکوارٹرپرہونے والے حملے کے بعد اگر احتیاطی تدابیراپنا لی جاتیں تو کراچی کاسانحہ رونمانہ ہوتا۔یہاں بھی دہشت گردپولیس وردیاں پہن کراورہینڈگرنیڈ اور آتش گیرمادہ لیکراندرکس طرح گھس گئے یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔تاہم پاک فوج کے بہادرجوانوں نے آپریشن کرتے ہوئے ان تمام دہشتگردوں کونیست ونابودکردیا اورانہیں واصل جہنم کردیامگر یہ سوالیہ نشان ہمیشہ برقراررہے گا کہ ریاستی ادارے ملک کو کس نہج پرلے جاناچاہتے ہیں ۔پولیس عوام کی محافظ ہے اور دہشتگردی کے خلاف سیکیورٹی فورسزکے شانہ بشانہ لڑنے میں مصروف ہے اوراپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے میں بھی کسی سے کم نہیں۔اگروہ محفوظ نہیں تو ایک عام آدمی کی حالت کیاہوگی۔گزشتہ روزڈپٹی انسپکٹر جنرل ایسٹ مقدس حیدر نے بتایا کہ حملے میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوئے، ایک دہشتگردچوتھی منزل پر اور 2 چھت پر ہلاک ہوئے۔ ہلاک دہشتگردوں میں سے ایک نے خود کو اڑایا۔مقدس حیدر کا کہنا تھاکہ کراچی پولیس آفس میں آپریشن مکمل ہوگیا اور عمارت کو کلئیر کرالیاگیا۔سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کے مطابق حملے میں دو پولیس اور ایک رینجرز اہلکاروں سمیت 4 افراد شہید ہوگئے جبکہ 18زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ حملہ شام 7 بجکر 10 منٹ پر کیا گیا، حملہ آور پولیس لائنز سے داخل ہوئے۔حکام نے بتایا کہ رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری نے پولیس آفس کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا اور شارع فیصل کے دونوں ٹریکس کو ٹریفک کے لیے بند کیا گیا ۔ عملے کے 20 افراد ریسکیو کرلیا گیاکراچی پولیس آفس میں آپریشن مکمل ہوگیا اور عمارت کو کلئیر کرالیاگیا۔ آپریشن مکمل ہونے کے بعد پولیس اور رینجرز اہلکاروں نے نعرے لگائے۔ کے پی او کی تیسری منزل کو کلیئر کرایا گیا اور عملے کے 20افراد کو ریسکیو کیا گیا۔ پولیس کو تیسری منزل پردہشت گردوں کے لائے گئے 3 بیگ ملے، تینوں بیگز میں سے گولیاں اور بسکٹ نکلے۔اس کے علاوہ چوتھی منزل پر محصور عملے کو بھی بحفاظت نکالا گیا، ڈی ایس پی نعیم اوروسیم سمیت عملے کوبحفاظت نکالاگیا۔کراچی پولیس آفس کی چھت پر دہشتگرد نے خودکو دھماکے سے اڑا لیا۔ جب سکیورٹی اہلکار گھیرا تنگ کرتے ہوئے عمارت کی بالائی منزل کی طرف پہنچے تو کراچی پولیس آفس کی چھت پر دہشتگرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دہشت گرد پوری تیاری سے آئے تھے، دہشت گردوں نے 2 سے 3اطراف سے حملہ کیا، عمارت میں 40سے 50 لوگ موجود تھے۔دہشتگرد حملے میں پولیس اہلکار سمیت 2 افراد شہید،پولیس حکام نے دہشتگرد حملے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت 3 افراد کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔ تینوں افراد کی لاشیں جناح اسپتال منتقل کردی گئیں ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی پولیس آفس پر دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ وزیر اعظم نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی پر پولیس اور سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ دہشت گردی کا ناسور ختم کرنے کیلئے پوری ریاستی قوت کو بروئے کار لانا ہوگا، دہشت گردوں نے ایک بار پھر سے کراچی کو نشانہ بنایا ہے، ایسی بزدلانہ کارروائیوں سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عزم توڑا نہیں جا سکتا، پوری قوم پولیس اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ کراچی پولیس ہیڈ آفس پر حملے میں بیرونی ہاتھ ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب جنوبی وزیرستان کے علاقے سپنکی میں خفیہ اطلاع پر سیکیورٹی فورسز نے کامیاب آپریشن کیا ہے جس کے دوران خود کش بمبار نیک رحمن محسود عرف نیکرو ہلاک ہو گیا،خودکش بمبار کی موجودگی کی اطلاع پر سیکیورٹی فورسز نے اس کے ٹھکانے کو گھیرے میں لیا تھا،فائرنگ کے تبادلے کے دوران خودکش جیکٹ پھٹنے سے دہشت گرد ہلاک ہوا،ہلاک دہشت گرد نیک رحمن محسود عرف نیکرو افغانستان کے صوبے لوگر سے پاکستان آیا تھا،دہشت گرد نیک رحمن محسود عرف نیکرو ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈروں عظمت اللہ عرف لالہ اور خیربان عرف خیرو کا قریبی ساتھی تھا،ہلاک دہشت گرد سیکیورٹی اداروں پر متعدد حملوں میں ملوث تھا،سیکیورٹی اداروں کی کامیاب حکمتِ عملی اور پشتون عوام کی سیکیورٹی اداروں کی مدد سے دہشت گردوں کا صفایا ممکن ہو رہا ہے۔
منی بجٹ….مہنگائی کانیاطوفان امڈآیا
بڑھتی مہنگائی کے بارے میں لکھ لکھ کرہمارے قلم تھک چکے ہیں مگرمہنگائی کا جن کسی صورت کنٹرول میںنہیں آرہااورہرآنیوالادن غریب کو قبرکی جانب دھکیل رہاہے ۔مگرآفرین ہے حکومت پرکہ اس کے کان پرکوئی جوں تک نہیں رینگی۔پٹرولیم مصنوعات ،،بجلی، گیس ،آئل، سگریٹ ،اشیائے خوردونوش پرآئے روزبھاری ٹیکسز کانفاذکرکے عوام کوزندہ درگورکیاجارہاہے مگر بالادست طبقات اوراشرافیہ کے اللے تللے اسی طرح جاری ہیں۔آئی ایم ایف کی شرائط پر ضمنی بجٹ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک بھر میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر بھی مہنگائی کا نیا ریلا آگیا ہے ۔یوٹیلیٹی اسٹورز پر مختلف برانڈز کی درجنوں اشیاءکی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔یوٹیلیٹی اسٹورز نے قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا،اطلاق فوری ہوگا۔بچوں کے ڈائپرز کی قیمتوں میں 350روپے تک کا اضافہ کردیا گیا ۔ شیمپو201 روپے اورایک کلو سرف کی قیمت59 روپے تک بڑھا دی گئی ۔صابن 30 روپے اور ہینڈ واش کی قیمت میں 21 روپے تک کا اضافہ ہوگیا ہے ۔نیز وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق دالیں، گھی، چاول، خشک دودھ، دہی، گڑ اور آلو سمیت 34 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے تنخواہ دار طبقہ شدید متاثر ہوا ہے۔جائزہ رپورٹ کے تحت ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 38.42 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ صرف ایک ہفتے کے دوران گھی کی فی کلو قیمت میں 44 روپے کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ملک میں گھی کی فی کلو قیمت 592 روپے 25 پیسے تک پہنچ گئی ہے۔ دال ماش 8 روپے 26 پیسے مہنگی ہوئی ہے جس کے بعد اس کی اوسط قیمت 415 روپے 96 پیسے فی کلو ہوگئی جبکہ زندہ مرغی کی فی کلو قیمت میں 31 روپے 11 پیسے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس وقت زندہ مرغی کی اوسط قیمت 446 روپے 29 ہو گئی ہے۔ ایک ہفتے میں ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 46 روپے 98 پیسے فی کلو مہنگا ہوا جس کے بعد ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر کی قیمت 3 ہزار 547 روپے سے تجاوز کر گئی۔
بھارت میں مذہبی انتہاپسندی عروج پر
بھارت میں مذہبی جنونیت کاجادوسرچڑھ کربول رہاہے اور مسلمانوں سمیت تمام اقلیتیں ان کے نشانے پرہیں بھارت کے اندر بھارتی مسلمانوں کوسسک سسک کرجینے پرمجبورکیاجارہاہے اوران سے ان کی قومی اورمذہبی شناخت چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بھارت کی ریاست ہریانہ میں 2مسلمانوں کو مبینہ طور پر گاڑی سمیت زندہ جلادیا گیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق لاش ملنے کے واقعے کے اگلے دن 5ملزمان کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے،مقتولین کے اہلخانہ کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمے کے مطابق مرنے والے ناصر کی عمر 25اور جنید 35سال کا تھا جنہیں راجستھان سے اغوا کیا گیا،بھارتی میڈیا کے مطابق دونوں افراد کو بدھ کو اغوا کیا گیا اور اگلے روز جلی ہوئی گاڑی سے ان کی لاشیں برآمد ہوئیں،بھارتی پولیس کے مطابق تحقیقات کی جارہی ہیں کہ اس واقعے میں گائے کی حفاظت کرنے والے انتہاپسند تو شامل نہیں کیونکہ جنید پر گائے کی اسمگلنگ کے 5مقدمات درج تھے جبکہ ناصر کا کوئی کرمنل ریکارڈ موجود نہیں ہے،بھارتی میڈیا کے مطابق مونو مانیسر، لوکیش سنگھیا، رنکو سینی، انیل اور سری کانت پر مسلمان افراد کے اغوا کا الزام لگایا گیا ہے،پانچوں ملزمان انتہا پسند مذہبی تنظیم کے کارکن ہیں جو گائے کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے