نصف صدی سے کچھ اوپر تک پھیلی میری صحافتی زندگی تلخ و شیریں یادوں سنسنی خیز واقعات مہم جوئی اور صحافتی فرائض کی انجام دھی میں جان تک دا و¿پر لگانے جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر میں صحافی نہ ہوتا تو شاید زندگی کے ایسے بے شمار حوادثات و واقعات سے نہ واقف رہتا۔صحافت نے مجھے بہت کچھ سکھلایا ہے اور اس دوران بڑی بڑی نامور اور نادر روزگار شخصیات سے بھی ملوایا ہے انہیں شخصیات میں ایک لندن بارواف بارکنگ اینڈ بیگنم کے لارڈ میئر ڈاکٹر عبدالغفور عزیز لک بھی ہیں جنہیں اس علاقہ کا پہلا مسلم پاکستانی لارڈ میئر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ڈاکٹر صاحب سے چند سال قبل میری پہلی ملاقات ورلڈ فیم فوٹوگرافر نسیم میر کی رہائش گاہ پر ہوئی یہ ایک طویل نشست تھی جس میں ترقی پریز اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں نظام حکومت سے ہوتے ہوئے سماجی عوامی سیاسی اور عدالتی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی اور میں سوچنے لگا کہ آزادی کے ستر سال گزرنے اور اس دوران آنے والی جمہوری غیر جمہوری عوامی حکومتوں اور ڈکٹیٹروں کے سایہ میں کامیابی کے ساتھ آنے والے حکمرانوں کے ترقی و خوشحالی کے نعروں کو سنتے سنتے ہم آج بھی شاید اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں قائد اعظم کی ایمبولینس خراب ہوئی تھی ڈاکٹر عبدالغفور پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے ،سماجی عوامی اور معاشرتی خدمت ان کے رگ و پے میں شامل تھی ،اس دور میں شہید ذوالفقار علی بھٹونے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو ڈاکٹر صاحب اس میں شامل ہو کر انقلابی نظریات اور معاشرتی سیاسی تبدیلیوں کا پرچار کرنے لگے پھر یوں ہوا کہ عوامی مقبولیت کا یہ ستارہ پھانسی کے پھندے پر جھول گیا اور اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے جیالوں پر سخت مشکل وقت آن پڑا ایسے میں جان بچانا فرض ہے کے نظریہ کے تحت ڈاکٹر عبدالغفور اور دیگر بے شمار لوگوں کی طرح کسی طریقے سے ہجرت کر کےڈنمارک پہنچ گئے اور وہاں 25سالوں تک وہ خود ساختہ جلا وطنی کے دوران ڈنمارک میں سماجی خدمات انجام دینے کے بعد لندن پہنچ گئے۔یہاں بھی انہوں نے اپنے نظریات کے مطابق لیبر پارٹی میں شمولیت کر کے عوامی خدمات کے اس مشن جس کے تحت وہ پاکستان میں سکول ہسپتال بنانے عوام کو بنیادی سہولتوں سے مستفید کرنے میں مصروف تھے جو لندن میں بھی شروع کر دیا۔ ڈاکٹر عبدالغفور جب وطن عزیز میں تھے تو پولیس چھاپوں اور گمشدگیوں کا شکار تھے، جب لندن میں خدمات انجام دینا شروع کیں تو پولیس تو کیا تمام سرکاری حکومتی ادارے ان کی خدمات کے معترف ہونے لگے عوامی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا تو گوروں نے بھی ان کی بے پناہ خدمات کا اعتراف کرنا شروع کر دیا اور انہیں لندن بارواف بارکنگ اینڈ نیگنم کا لارڈ میئر جیسے عہدے پر پہنچا دیا اس طرح انہوں نے وہاں کے پہلے مسلمان پاکستانی میئر کا اعزاز حاصل کیا جب میں ڈاکٹر صاحب کی باتیں سن رہا تھا تو مجھے وزیر آباد کے ایک صحافی روست ڈاکٹر محمد وحید جالی یاد انے لگے وہ نیشنل عوامی پارٹی ولی خان گروپ سے وابستہ تھے اور پارٹی ٹکٹ پر وزیر آباد سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا لیکن متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اداروں نے زندگی ان پر اجیرن کر دی اور وہ اس دور میں چھپتے چھپاتے جرمنی پہنچ گئے ،جہاں ان کی عوامی خدمات اور عوامی رابطوں کی طویل جدوجہد کےاعتراف پر ملکہ برطانیہ نے انہیں انسانی رابطوں پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا ڈاکٹر عبدالغفور عزیز کی باتیں سنتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ تیسری دنیا کے ہم جیسے ممالک کی شاید یہ بد قسمتی ہوتی ہے کہ ہم اپنے ذہین نظریاتی انسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے اور ہمارے یہ ہیرے ہمارے ہاتھوں سے پھسل کر کسی دیگر دنیا میں پہنچ کر اپنے خیالات و نظریات اور جدوجہد سے ان ملکوں اور معاشروں کی ترقی و خوشحالی کا سبب بننے لگتے ہیں جس سے وہ ملک تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک کی صفوں کو پھلانگتے ہوئے آگے سے آگے نکل جاتے ہیں گزشتہ دنوں لارڈ میئر اپنے دوستوں شیخ فیصل بادشاہ بابو شعیب اور ورلڈ فیم فوٹوگرافر نسیم میر کے ہمراہ وزیر آباد میں تھے جہاں شہریوں نے ان کے اعزاز میں شاندار تقریب منعقد کی جس میں فلم اور ڈرامہ کے معروف اداکار اظہر رنگیلا سابق صوبائی وزیر چوہدری شاہ نواز چیمہ سابق چیئرمین ضلع کونسل چوہدری علی بہادر چٹھہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امتیاز احمد خان سیکرٹری جنرل مستعصم طور سابق صدر رانا خلیل احمد خان سابق جنرل سیکٹری چودری طاہر کولار اللہ والے برادران پیپلز پارٹی ڈنمارک کے صدر مہر اشفاق احمد لک سابق ممبر پنجاب اسمبلی چوہدری اعجاز سماں پاکستان پیپلز پارٹی کے نامور رہنما محمد حفیظ خلجی،چوہدری امتیاز احمد باگڑی مسلم لیگی رہنما،ارسلان بلوچ سابق وائس چیرمین بلدیہ اور ویڈیو لنک پر اس تقریب میں شرکت کرنے والے پاکستان پیپلز پارٹی ہالینڈ کے صدر کرامت چوہدری کے علاوہ بڑی تعداد میں نامور شخصیات نے شرکت کی لارڈ میئر عبدالغفور کا کہنا تھا کہ ہم رہتے تو لندن میں ہیں لیکن ہمارا دل پاکستان میں دھڑکتا ہے اور دیگر اوورسیز پاکستانیوں کی طرح ہم جس جس ملک میں بھی رہتے ہیں وہاں سے پاکستان اور پاکستانیوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنی خون پسینے کی کمائی سے عوامی فلاحی منصوبوں کی تکمیل کے لیے مسلسل کام کراتے رہتے ہیں اور ہمیشہ یہی خواہش کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام بھی ترقی وخوشحالی کی زندگیاں گزارے۔