کالم

دیس کا المیہ۔۔۔!

پاکستانی عوام سچے ہیں، وہ محب وطن بھی ہیں ان ہمدردی بھی ہے اور وہ قربانی اور ایثار کے جذبہ سے سرشار ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم پر مسلط نظام جھوٹا ہے جس نے ہم سب کو جھوٹا بنادیا ہے دیکھا جائے تو پورا معاشرہ شیطان کے جال میں پھنس چکا ہے کہاجاتا ہے کہ ہم نے بڑی ترقی کر لی ہے لیکن دیکھا جائے تو ترقی جھوٹ کی ہوئی ہے فاسد نظام کی وجہ سے فحاشی کو فروغ دیا جارہاہے ، ہر طرف گروہ بندی اور فرقہ واریت عام ہے چور بازاری ہے اور دو نمبر اشیائے صرف کی تیاری اور خرید وفروخت ہورہی ہے اور پرسان حال کوئی نہیں ہے غلط نظام نے حقیقی دین پر پردے ڈالدئے ہیں اور صرف رسم سامنے نظر آرہاہے آج ہمیں دین کی روح سے واقفیت نہیں ہے جو شخص اعلانیہ دو نمبر کی اشیاءفروخت کرتا ہو اور بے ایمانی اور دہوکہ اس کا شیوہ ہو ااس کی نیکی کی کیا حیثیت ہوگی؟۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستا ن کے ننانوے فیصد عوام کا بنیادی مسئلہ روٹی کا ہے،روٹی کے حصول کیلئے پاکستان کے غریب عوام مارے مارے پھیر رہے ہیں اور نوالے کی تلاش میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور نوالہ ہے کہ ان کے ہاتھ نہیں آتا ہے ۔ پاکستانی نظام کے سیاسی مسخروں نے عوام کو مہنگائی خوف اور بھوک کے تحفے کے اور کچھ نہیں دیا ہے جب بھی انہیں ضرورت ہوتی ہے وہ عوام کے سڑکوں پر نکلنے کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن ان کے پاس عوام کے بنیادی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انفرادی طور پر قوم کاہر فرد ملک کیلئے قربانی دیتا ہے اور ملک کی ترقی کیلئے نیک خواہشات کی تمنا رکھتا ہے لیکن کیا کیا جائے نظام کا اور نظام کو چلانے والوں کا کہ ہمیشہ وہ آڑے آجاتے ہیں اور عوام کی خواہشات کو دبایاتا ہے اور ان کےارمانوں کا خون کیاتا ہے اور ان کی تمناﺅں کو مٹایاتا ہے فاسد نظام نے ہر فرد کوآلودہ کردیا ہے بددیانتی اس کی خمیر میںشامل ہوگئی ہے بھوک سے قوم کا تعلق جڑ گیا ہے اور بد دیانتی ہمارا تعارف بن گیاہے حالانکہ اس ملک سچائی پھیلانے اور عدل اور انصاف پر مبنی نظام اور اعلیٰ اخلاق کو بلند کرنے کیلئے بنا تھا لیکن یہاں فرقہ واریت، کرپشن اور مہنگائی نافذ کی گئی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ باطل فرقوں کی نرسری ہے اور ہرفرقہ اصل اسلام کا ٹھیکہ دار ہے۔چونکہ مسلطہ نظام سرمایہ پرستی، نفس پرستی، سفلیت پرستی اور جاہ پرستی کے جراثیموں سے آلودہ ہے اور عوام کے ذہنوں کو تالے لگ گئے ہیں اس لیئے ہمارا معاشرہ حیوانی گروہیت کا منظرپیش کر رہاہے ہماری سیاست، معیشت اور تجارت مفلوج ہیں مادہ پرستی ہر شخص کی خمیر میں شامل ہوگئی ہے دوسروں کو دہوکہ دیناہر شخص کا نصب العین بن گیا ہے اور جھوٹ بولنے کی رواےت عام ہوگئی ہے ہر طرف دھونس اور دھاندلی ہے اور اخلاقی بگاڑ کا عالم ہے اور جھوٹ کو فروغ مل رہاہے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جھوٹ بولا جارہاہے بڑے لوگ جھوٹ بھی بڑے پیمانے پر بولتے ہیں ِاوراور جو چھوٹے حیثیت کے حامل ہیں ان کے جھوٹ کا پیمانہ بھی ذرا چھوٹا ہوتا ہے ہمارے سیاستدان جن میں خواتین اور حضرات سبھی شامل ہیں جھوٹ بولتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ وہ اس جھوٹ کو ضرورت اور وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں مذہب اور مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو بم کا نشانہ بنانے والے ہو ا،افسر شاہی قبضہ گروپ ہو ےا کسان اور مذدور کا خون چوسنے والے جاگیر دار اور سرمایہ دار ہواور ےا قوم پرستی کے نام پر ایک دوسرے کو تہ تیغ کرنے والے ہوان سب کے مفادات عوام پر ظلم کرنے سے وابستہ ہیں اور یہ قومی مفادات سے عاری ہیں اوریہ سب الا ماشاءاللہ سامراجیت کے آلہ کار ہیں یہ تو نہ دور کے تقاضوں سے آگاہ ہیں اور نہ اورنہ ان کو اپنے شاندار ماضی کا ادراک ہے اور ان سے بہتر مستقبل کی توقع رکھنا بھی حماقت ہے کیونکہ نہ کا کویہ نصب العین ہے اور نہ ان کے پاس کوئی حکمت عملی ہے بلکہ یہ سامراج کی چھتری کے نیچے عوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں اور مال جمع کرنا اور قومی خزانہ پر ہاتھ صاف کرنا ان کی سیاست کا وطیرہ ہے اور یہی ان کا مشن ہے جس پر سب گامزن ہیں ، ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کے قرضہ جات نے ملک کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور مسائل پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اس دور کے بت یہ ملٹی نیشنل کمپنیا ں ہیں عام آدمی سڑک پر اس لیئے نہیں نکلتاہے کہ اس کے مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے اور انہیں اپنے آنے والے نسلوں کا مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہے ۔دیس کے عوام مشینی دور میں مشین کی گراری کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔مہنگائی کا عفریت، ٹیکسوں کا ظالمانہ نفاذ،غیرملکی سرمایہ کاری کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا عمل دخل ،نجکاری کے نام پر قومی دولت کو ھڑپ کرنے کے منصوبے، برآمدات کو بڑھانے کے نام پر ملکی کرنسی کی قیمت کم کرنے کے اعلانات ،اور عالمی اداروں سے قرض لے کر ملک چلانے کے طور وطریقے عوام کیلئے وبال جان ہیں ۔ آخر یہ دیس کا المیہ کب تک ؟۔!۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے