یونانی فلسفی بالواسطہ تمام موجودہ فلسفوں اور نظریات کے بانی ہیں۔ ہر فلسفی کی سوانح عمری بہت دلچسپ ہے، لیکن میں نے اپنے ابتدائی بچپن میں اپنی والدہ سے سب سے پہلے دیو جانس کلبی کے بارے میں سنا۔ وہ ہر رات سونے سے پہلے مجھے عظیم لوگوں کی کہانی سناتی تھی۔ اس نے مجھے اس فلسفی سے متعارف کرایا۔ اس کے بقول دیو جانس کلبی نے سکندر اعظم سے کہا، ایک طرف ہو جا، سورج کی روشنی میرے پاس آنے دو، تم خواہشات کے غلام اور خواہشات میری غلام ۔والدہ نے مجھے نصیحت کی کہ کبھی خواہشات کا غلام نہ بننا۔ آج ہم سب خواہشات کے غلام ہیں۔ سائنو کے ڈائیوجینس، جسے ڈائیوجینس دی سنک. دیو جانس کلبی بھی کہا جاتا ہے، ایک یونانی فلسفی تھا جو چوتھی صدی قبل مسیح میں رہتا تھا۔ وہ اپنے بنیاد پرست خیالات اور غیر روایتی طرز زندگی کے لیے جانا جاتا تھا، جس نے انھیں فلسفہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ سنکی شخصیات میں سے ایک کے طور پر شہرت حاصل کی۔ جدید دور کے ترکی میں بحیرہ اسود کے ساحل پر ایک یونانی کالونی سائنوپ میں پیدا ہوئے، دیو جانس کلبی فلسفہ کے سائنک اسکول کے بانی، اینٹیسٹینیز کا شاگرد تھا۔دیو جانس کلبی کے ساتھ ایک کتا رہتا تھا جس سے وہ دیو جانس کلبی یعنی کتے والا کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ تلخ اور پیچیدہ فلسفے کو بھی طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں پیش کرتا تھا۔اس کا نظریہ تھا کہ انسان کو کم سے کم چیزوں کے سہارے زندگی گزارنی چاہیے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دیو جانس کلبی کو سکے کو خراب کرنے کے جرم میں سینوپ سے جلاوطن کر دیا گیا تھا، یہ جرم قدیم یونان میں جلاوطنی کی سزا ہے۔ اس کے بعد وہ ایتھنز چلا گیا۔دیو جانس کلبی نے روایتی سماجی اصولوں اور مادی املاک کو مسترد کرتے ہوئے ایک سادہ اور پرہیزگار طرز زندگی کو اپنایا۔ ان کا ماننا تھا کہ حقیقی خوشی اور نیکی صرف فطرت کے مطابق زندگی گزارنے اور نیکی کی زندگی گزارنے سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ دیو جانس کلبی اپنی تیز عقل اور کاٹتے ہوئے طنز کےلئے جانا جاتا تھا، جسے وہ اپنے ہم عصروں کے عقائد اور اقدار کو چیلنج کرتا تھا۔ وہ اکثر دوسرے فلسفیوں، سیاست دانوں اور مذہبی رہنماں کےساتھ عوامی مباحثوں میں مشغول رہتا تھا، ان کی منافقت اور حماقت کو بے نقاب کرنے کےلئے اشتعال انگیز اور تصادم کی زبان استعمال کرتا تھا۔ ایک مشہور قصہ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح دیو جانس کلبی نے ایک ایماندار آدمی کی تلاش کے لیے دن کی روشنی میں لالٹین کا استعمال کیا، جو اس کے اس یقین کی علامت ہے کہ حقیقی خوبی دنیا میں ایک نایاب اور مبہم خوبی ہے۔ دیو جانس کلبی کے فلسفے کا خلاصہ اسکے خود کفالت، خوبی، اور سماجی کنونشنز سے آزادی پر یقین سے کیا جا سکتا ہے۔ اس نے دولت اور طاقت کے خلفشار اور سرابوں سے پاک سادگی اور ایمانداری کی زندگی گزارنے کی وکالت کی۔ دیو جانس کلبی کا خیال تھا کہ حقیقی خوشی صرف فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں رہنے اور عقل اور ضمیر کے احکام پر عمل کرنے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے بنیاد پرست نظریات اور غیر روایتی طرز زندگی نے اپنے وقت کے عقائد اور اقدار کو چیلنج کیا، مفکرین کی نسلوں کو اتھارٹی پر سوال کرنے، سچائی تلاش کرنے اور اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دی۔ دیانتداری، نیکی، اور خود انحصاری کے لیے دیو جانس کلبی کی وابستگی اس بات کی ایک طاقتور مثال ہے کہ فلسفہ ہمارے اپنے بارے میں اور اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں سوچنے کے انداز کو کیسے بدل سکتا ہے۔ اس کے نزدیک تن ڈھانپنے کے لیے بدن پر جو کپڑے ہوں اس کے علاوہ کپڑوں کا پاس ہونا فضول خرچی ہے۔ اسکے پاس ایک پیالہ تھا جس سے وہ پانی وغیرہ پیتا تھا، ایک دن اس نے ایک لڑکے کو دیکھا جو اپنے ہاتھوں سے پانی پی رہا تھا ، یہ دیکھ کر اس نے پیالہ پھینک دیا اور کہا میں اپنے ہاتھوں کے ہوتے ہوئے کتنا فضول خرچ ہوں۔وہ ہر قسم کے رکھ رکھا اور آداب کے خلاف تھا، وہ کہتا تھا، آداب برتنے کا مطلب ہے منافقت کرنا یعنی آپ کسی کو پسند نہ کرتے ہوں یا دل میں کچھ اور بات رکھتے ہوں مگر اگلے کے سامنے تمیز اور اخلاق سے پیش آتے رہنا معاشرے کو تباہ کردیتا ہے۔ اس کا ماننا تھا انسان کی جو حالت خلوت میں ہوتی ہے وہی اگر جلوت میں ظاہر نہ ہو تو وہ منافقت والی جھوٹی زندگی ہے۔ اسی بات کے پیش نظر اس کے فلسفہ”ایک ایماندار آدمی کی تلاش مشہور ہوا تھا جس میں اس کے ہاتھ میں ایک لالٹین ہوتی تھی جسے وہ ہر وقت روشن رکھتا تھا۔ لالٹین لے کر وہ بازار میں چلا جاتا اور ہر گزرتے شخص کے چہرے کے قریب لالٹین لے جاکر اس کی روشنی میں غور سے دیکھتا تھا، لوگ پوچھتے کہ دیو جانس کیا تلاش کررہے ہو؟ تو وہ جواب دیتا لوگوں کے ہجوم میں دیانتدار اور سچا انسان ڈھونڈ رہا ہوں۔مولانا روم نے بھی اپنی شاعری میں دیو جانس اور اس کے چراغ کا ذکر کیا ہے۔دیو جانس کے مطابق، "معاشرہ یا سماج” انسانوں کی طرف سے قائم ایک مصنوعی سازش ہے جو سچائی یا خوبی کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتا ، اور کسی بھی شخص کو اچھا اور مہذب انسان بنانے میں معاشرے کا نہ کوئی کردار اور نہ کوئی خوبی ہوتی یے۔ اس کا دعوی تھا، انسان اس بناوٹی معاشرتی دنیا میں پھنسا ہوا ہے، جس کے بارے میں قابض لوگوں کا اصرار ہے یہ حقیقت ہے ، بلکہ ایسا ہرگز نہیں ہے، یہاں تمام لوگ ایک طرح کی خوابیدہ حالت میں جی رہے ہیں، پوری سچائی کے ساتھ جن کا جاگنا انتہائی ضروری ہے۔ دیوجانس کلبی کے پاس دو دوست آئے ایک انتہائی امیر شخص تھا جب کہ دوسرا ایتھنز کا ماشکی اور انتہائی غریب ۔امیر شخص نے کلبی کو اپنا اور اپنے دوست کا تعارف کروایا۔ دیوجانس کلبی نے انکی طرف دیکھا اور طویل قہقہہ لگا یا۔ امیر یونانی نے قہقہے کی وجہ پوچھی دیو جانس کلبی نے فرمایا ایک امیر ہے اور دوسرا غریب دونوں ایک دوسرے کے دوست کیسے ہو سکتے ہیں؟ امیر یونانی نے عرض کیا اے فلسفی !میں آپکی بات سمجھ نہیں سکا دیوجانس کلبی نے جواب دیا امیر دوست کے ہوتے ہوئے اگردوسرا دوست غریب ہے تو اس کا مطلب ہے امیرشخص بہت گھٹیا ہے اور یہ دل سے اس کو اپنا دوست نہیں سمجھتا ۔ سکندر اعظم نے جب دیو جانس کی شہرت سنی تو وہ اس سے ملنے چلا آیا ، اس وقت دیو جانس ہر چیز سے بے نیاز ہوکر دھوپ سینک رہا تھا۔ سکندر اعظم نے اپنا تعارف کروایا اور کہا ،اے دیو جانس اگر تمھیں کوئی کام ہو یا کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا، میں اس ضرورت کو پورا کر دوں گا۔دیو جانس نے تاریخی جواب دیا فی الحال "میرے سامنے سے ہٹ جا اور دھوپ کو رستہ دو”۔بعد میں سکندر اعظم نے فلاسفر سے سوال کیے اور ان کے جوابات جان کر حیران ہوتے ہوئے کہا ” اگر میں سکندر اعظم نہ ہوتا تو میری خواہش ہوتی کہ میں دیو جانس ہوتا”، دیو جانس نے یہ سن کر کہا ” اگر میں بھی دیو جانس نہ ہوتا تو میں بھی یہی خواہش کرتا کہ میں دیو جانس ہوتا”۔ایک دفعہ شہر کے معززین کی دعوت میں چند لوگوں نے اس کے سامنے ہڈیاں پھینک کر کہا تم کتے ہو اسی لیے تمھارا یہی کھانا ہے، تو دیو جانس نے کہا یہ تو تم لوگوں نے بالکل ٹھیک کہا ہے، تمھارے اس دعوے کی سچائی کے لیے میں تمھیں مزید ثبوت دینا چاہوں گا، بشرطیکہ تم سب میرے اردگرد اکٹھے ہوجا، جیسے ہی انہوں نے دیو جانس کے اردگرد حلقہ بنایا تو اس نے ایک ٹانگ اٹھا کر ان سب پر پیشاب کر دیا اور کہا اب تمھیں پکا ثبوت مل گیا نا کہ میں کتا ہوں؟