کالم

ذمہ دار کون؟

اس فانی دنیامیںآنے کے بعد جب انسان کچھ کچھ باشعور ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں سوال ابھرنا شروع ہوتے ہیں یعنی یہ کائنات کیا ہے ، اس کا بنانے والا کون ہے ، میں بحیثیت انسان کتنا اہم ہوں ، اس وسیع کائنات میں میرا کردارکیا ہے ، میںاشرف المخلوقات ہوں ،یہ سب کچھ میرے آنے سے قبل تخلیق ہوچکایہ سب کچھ میرے تابع ہے میںایک قلیل مدت کےلئے اس جہان فانی میں آیاہوں، میرا مقصد حیات کیاہے یعنی ہر مرحلے پر نئے سوال جنم لیتے ہیںاوران سوالوں کی نوعیت بدلتی رہتی ہے ، خیال جیسے جیسے پروان چڑھتا ہے اسی طرح بتدریج ان مختلف سوالوں کے جواب ملناشروع ہوتے ہیں تو وہ علم عرفان اور آگہی کی نئی دنیا میں داخل ہوتا ہے ،نئے سوالوں سے آشنا ہونے والا نئے جواب تلاش کرتا ہے ، اس طرح وہ نفس کی دنیاسے نکل کر ذات حقیقی کی دنیا سے متعارف ہوتا ہے ،ہر زمانے جوسوال جنم لیتے ہیںان کے جوابات عطا کرنے کےلئے قدرت کی جانب سے صاحب ارشاد مقرر ہوتے ہیںاور وہاں الجھنوں سے نجات دلاتے ہیں ، ہمارا دور پریشانیوں اور پیچیدگی کا ایسا دور ہے کہ لوگ اپنے ذاتی سماجی اور دینی مسائل کے بے پناہ بوجھ تلے دبے ہوئے ہیںاور ان کا حل تلاش کرنے میںناکامی کے بعد متعدد پریشانیوں اور ذہنی دباو¿ کا شکار ہوجاتے ہیں ، ایسے میں قدرت کی جانب سے مخصوص افراد کو مسند ِارشاد پر فائز کردیا جاتا ہے جو سوال کا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ سوال تراشنے والے نہ صرف مسئلہ حل کردیتے ہیںبلکہ عمل کی راہیں کھول دیتے ہیں ، صراط مستقیم کی منزلوں کے مسافر بن جاتے ہیں ۔ صرف علم حاصل کرنےوالوں کےلئے کتب خانے بھرے پڑے ہیں ، کتابیں پڑھتے ہوئے زندگی گزر جاتی ہے ، وقت ہو تو یہ شغل چلتا رہتا ہے ، انسان کتابوں میں الجھا رہتا ہے ، لائبریری میں وقت گزارتا ہے اور زندگی اس سے باہر گزر رہی ہوتی ہے ، وقت پھسلتا رہتا ہے اور احساس اس وقت اجاگر ہوتا ہے جب زندگی کی بساط الٹنے کے قریب ہوتی ہے ، یہی وقت زندگی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ملا ہے وہ وقت ہی تو ہے باقی جو کچھ ہے وہ اس وقت کو استعمال کرنے کے شعبے ہیں ، اللہ پاک نے اسی وقت میں ایسے خوبصورت مناظر بنادیئے اور انسان کو ان مناظر کا نظارہ کرنے والا بنادیا ، سورج چاند ستارے پہاڑ ،دریا ، وادیاں یعنی بے شمار مناظر جو دیکھنے والے کو فطرت کے قریب لے جاتے ہیں ۔یہ سوچ کے غماز ہیں، وقت اگر مقصد کے قریب رہے تو ضائع نہیںہوتا ، اس مختصر زندگی کا کوئی مقصد حیات ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ جب زندگی آخری مراخل میںہو تو پتہ چلے کہ مقصد ہی درست نہیں تھا ، وقت ہی تو زندگی ہے اگر یہ زندگی مقصد کے قریب رہے تو ضائع نہیں ہوتی ورنہ جیسے جیسے تیسے گزر ہی جاتی ہے اور پھر احساس شدت سے تازیانے برساتا رہتا ہے کہ کوئی وقت کو ضائع کردیا گیا ، اس شعبے میں مخلص ہونا بڑا ضروری ہے ورنہ وقت تو گزر ہی جاتا ہے ، یہ وجود جو صفات کے ساتھ موجود ہے عاقبت کا غماز ہے اس وجود کو عاقبت کے گھر پہنچانا ہے ، پریشانیوں سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس وقت کو ضائع نہ کیا جائے تاکہ آخرت میں ندامت نہ اٹھانی پڑے ، ہم زندگی کو لاشعوری طورپر ختم کرتے رہتے ہیں لیکن یہ اپنے وقت سے پہلے ختم نہیںہوتی ، اللہ اپنی رحمت سے بچاتا رہتا ہے ، ہم تو اپنے آپ کو تباہ کرنے کی طرف مائل رہتے ہی ہیںلیکن اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں ہمارے اعمال کے سپرد نہیںہونے دیتا اس کا کرم شامل حال رہتا ہے ، اس پاک ذات نے ہمیں دین عطا فرمایا اور اس پر چلنے کی تاکید فرمائی ، ماں باپ دیئے اور فرمایاکہ ان کے احکامات کو نظر انداز نہ کرنا ،زندگی عطا کی کہ اسے ضائع نہ کرنا ، یہاں کئے گئے اعمال کی جوابدہی آخرمیںہوگی ، اللہ تعالیٰ نے کتنا کرم فرمایا کہ ہمیں مسلمان بناکر مسلمان گھرانوں میںپیدا کیا اور پھر حضور ﷺ کی امت بنایا کیا ہم نے دنیا میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ ہمیں مسلمان ماں باپ اور سرکار ﷺ کی امت بناکر دنیامیں بھیجنا یہ تو اللہ کا خاص کرم ہوا اس بات کو سوچیں اور جتنا شکر ادا کرسکتے ہیں ضرور ادا کریں ، انسان کا مسلمان ہونا بڑی سعادت ہے ، اس کا اپنے خالق کے سامنے جھکنا ایسا عمل ہے کہ مالک کے لازوال ہونے کا ثبوت ہے ، جہاںپیشانی جھکتی ہے وہاں معبود کے ہونے کا ثبوت ہے ، عابد کا ہونا معبود کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بھی مخلوق ہے وہ خالق کے ہونے کی واضح دلیل ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنی زندگی کو دنیا داری میں اتنا مصروف کرلیا ہے کہ ہمیں اس حقیقت کی طرف دھیان دینے کا وقت نہیں ملتا کہ خالق سے بحیثیت مخلوق ہمارا رشتہ کیا ہے ، اس رشتے کو نبھانے کے انداز کیا ہیں ، ازل سے ابد تک جس خالق کی حکمرانی ہے اس کے احکامات پر نہ چلنے کی وجوہات کیا ہیں ، ہم حقیقت سے دور کیوں ہیں وہ اللہ جو کائنات کا مالک ہے ، اس کی بارگاہ میںہماری پیشانی کیوںنہیں جھکتی ہمیں اپنی بیشمار غلطیوں کا احساس کیوں نہیں ہوتا وہ مہربان مالک ہماری غلطیوں سے وقتی چشم پوشی کرتے ہوئے نعمتوں کا نزول کررہا ہے لیکن ہم اپنی خودساختہ زندگی میںہمہ تن مشغول ہیں ، ہم نے جو اپنی زندگی بنا رکھی ہے اس کا انجام کیا ہوگا اتنی تو ہمیںعقل ہے کہ اچھا اور برا کیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنی ذات کو نمایاں کرنے کی بے مقصد دوڑ میںشریک ہیں ، کبھی یہ یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ مالک سے بندگی کا رشتہ مصلحتوں کا شکار تو نہیں ہورہا میری ذات دوسروں کےلئے عافیت ہے یا فرعونیت کی تقلید ہے ، میری زندگی دوسروں کےلئے عافیت ہے تو سودمندی کی علامت کیوں نہیں بنتی ۔ کیا یہ قلیل وقت کی زندگی دین کے احکامات میں گزر رہی ہے ، دین کا ماننا میرا نصب العین کیوں نہیں ، زندگی منافقت کی طرف کیوں ہے ، میرے اعمال میں صداقت کیوں نہیں ، مال ، دولت کے پیچھے بھاگتے رہنا کیا زندگی کا صرف یہی مقصد ہے ، میرا ملک اسلامی ملک ہے لیکن چوریاں ، ڈاکے ، زنا ، جوا ،شراب ،دھوکے ، فریب قتل اور غارت گری تمام کچھ ہے ، یہاں امن ، سکون کیوں نہیں، عزت ، آبرو جان ، مال کا تحفظ کیوںختم ہوگا ، گھر سے باہر جائیں اورپھر خیریت سے واپس آجائیںتو بندہ شکر کرتا ہے کہ کسی حادثے سے دوچار نہیں ہوا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رہا۔ بے حسی عروج پر ہے اپنے مفادات کے حصول میںکسی کی جان لینا عیب نہیں، مادر پدر آزاد ماحول کے خواہاںہیں کیا یہ انسانیت ہے ، اپنے گریبان میں جھانکھیں اور نتیجہ نکالیں کہ کیاہم انسان کہلوانے کے مستحق ہیں، درندہ صفت انسانوںکی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ،وہ مالک جو زمین اور آسمان کے لشکروںکا مالک ہے اس کےلئے اپنی مرضی کا معاشرہ بنانا کوئی مشکل نہیں، اس کا حکم تعمیل کرواتا ہے ، اس کے غضب سے ڈرنے کا مقام ہے ، اس وقت جو بے راہ روی ہے تو اپنے محبوب ﷺ کے صدقے سے ہماری ابتر حالت کو بہترین حالت میں تبدیل فرمادے ، ہم تیرے غضب کے متحمل نہیںہوسکتے ،ہم فضل کرم اور حکم کے طالب ہیں،ہماری طرح کی بے راہ روی کو اپنی رحمت کی چادر میں چھپاکر ایسا ماحول بنانے میں آسانیاں پیدا فرمادے کہ ہمیں خود احتسابی سے راہ راست پر چلنا آسان ہو جائے ، ہمارے قلب کا شیشہ ایسا چمک جائے کہ تیسرے سوا کچھ نظر نہ آئے ، ہم اپنی باطنی کائنات کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے ، صرف ظاہری کائنات میں گم ہیں ، انواع اقسام کی خواہشات نے ہمیںتیرے در سے بہت دور کردیا ہے ہم زمانے کے نا خداو¿ں کے سامنے جھکتے ہیں ، ہمیں تیری بارگاہ میں جھکنے کا احساس نہیںہورہا ،ہمارے اعمال ہی ہماری عاقبت ہیں لیکن ہم حقیقت کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آتے ،یہ سلسلہ کب تک ایسے چلتا رہے گا اپنے آپ میںمست رہنے کو افضلیت دیتے ہیں ، ہمارے اندرکا سچا انسان مصلحتوں کی چادر میں چھپا بیٹھا ہے ، اسے اب باہر لانے کی ضرورت ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے