انسانی تارےخ مےں بہت کم کردار ہےں جنہوں نے موت کو خود پر فتح مند نہ ہونے دےا ۔بلکہ موت کو شکست فاش دے کر امر ہو گئے ۔انسان کی سب سے قےمتی شے جو اسے ملتی ہے اور اےک ہی بار ملتی ہے وہ اس کی زندگی ہے اور اس کا بنےادی تقاضا ےہ ہے کہ اس کو اس طرح جےا جائے کہ اس مےں خوف و بزدلی کی ندامت موجود نہ ہو ۔ہر عہد مےں سقراط جنم لےتے ہےں اور تختہ دار کو ترجےح دےتے ہےں لےکن ان کی خوددار طبےعت ملک چھوڑنا گوارا نہےں کرتی ۔قےد خانے مےں سقراط کے اےک امےر دوست کرےٹو نے جب سقراط کو قےد خانے سے بھاگ جانے کا مشورہ دےا اور کہا کہ اگر تم مر گئے تو صرف ےہی نہےں کہ مےرا اےک دوست جاتا رہے گا جس کا کوئی بدل نہےں ہو سکتا بلکہ اےک خرابی ہے کہ لوگ سمجھےں گے کہ اگر مےں روپےہ خرچ کرتا تو تمہےں موت سے بچا سکتا تھا مگر مےں نے پروا نہےں کی ۔اب بتاﺅ کہ اس سے بڑھ کر کوئی ذلت ہو سکتی ہے کہ مےرے متعلق سمجھا جائے کہ مےں دولت کو اےک دوست کی جان سے زےادہ عزےز رکھتا ہوں ۔لوگ تو کبھی نہےں مانےں گے کہ مےں چاہتا تھا کہ تم بھاگ جاﺅ مگر تم نے انکار کر دےا ۔سقراط نے جواب دےا کہ کرےٹو اگر مےں فرار ہو جاﺅں تو لوگ مےرے بارے مےں کےا سوچےں گے کہ کےا مرد تھا جس نے بکری کی کھال اوڑھ رکھی تھی ۔تھوڑے دن زندہ رہنے کی خواہش کےلئے ذلت آمےز باتےں سننا پڑےں گی اور ججوں اور عوام کے دلوں مےں بھی اس بات کی تصدےق ہو جائے گی کہ ان کا تمہےں سزا دےنا بجا ہے ۔مےرے لئے ےہی بہترہے کہ مےں مر کر دنےا کے جھگڑوں سے چھوٹ جاﺅں ۔ذوالفقار علی بھٹو بھی اےسا کرشماتی اور لافانی کردار ہے جس نے جابرانہ طاقتوں کے خلاف انتہائی دلےری سے مقابلہ کےا تا کہ سچائی ،انصاف اور مساوات کا عکاس اےک خوبصورت معاشرہ قائم ہو سکے۔بھٹو ذوالفقار علی بن کر آےا تا کہ محروم عوام کے پےروں مےں پڑی ہوئی استحصال کی زنجےرےں توڑ دے ۔انتہائی اےذا رسانی ،نفرت انگےز انتقامی کاروائےوں اور موت کی کال کوٹھڑی مےں قےدوبند کی صعوبتوں کے باوجود بھٹو نے اپنی ناقابل شکست قوت ارادی اور ناقابل تسخےر جذبے سے دشمن کے ناپاک عزائم کو پامال کر دےا ۔بھٹو کی ذات کروڑوں بد نصےب انسانوں کےلئے جو اس سر زمےن کی اتھاہ تارےکےوں مےں زندگی گزار رہے تھے اےک خداداد نعمت تھی جےسے آسمان کا روشن ترےن ستارہ آسمان کو منور کرتا ہے ۔بھٹو کی مسابقت کسی بھی سےاسی رہنما سے نا ممکن ہے ۔بھٹو کے کردار کو سمجھنے کےلئے ہمےں تارےخ کے اعلیٰ اور روشن کرداروں سے رہنمائی لےنا ہو گی جنہوں نے مصائب و آلام کا مقابلہ جرا¿ت و بہادری کے ساتھ کےا ۔قدےم انسانی تارےخ مےں سقراط کا کردار ہو ےا مکتب عشق کا منصور ہو ےا راہ فکر کا بلھے شاہ ہو ،انہی ہستےوں کا کردار ہمےں بھٹو کوسمجھنے مےں معاون ہو سکتا ہے ۔پاکستان مےں اقتدار کے اےوانوں اور سےاست کے مےدانوں مےں عوام کا کوئی پرسان حال نہےں تھا ۔بھٹو نے عام آدمی کو سوچ اور اظہار کو وہ گر سکھاےا کہ سےاست عوام کی خواہشات کے تابع ہو گئی ۔عوام کا بھٹو قائد عوام بن کر عوام کی خدمت مےں مصروف ہو گےا ۔مساوات ،آزادی کےلئے محروم طبقات کے حقوق کی جنگ مےں عوام بھٹو کے سنگ تھے ۔بھٹو کہتے تھے ”پاکستان کے عوام مجھے اپنی امنگوں کے ساتھ ےاد رکھےں گے ۔مےں نے انہےں جواں سال قےادت فراہم کی پاکستان کی خواتےن مجھے ہمےشہ خلوص دل سے ےاد رکھےں گی کہ مےں نے انہےں آزادی دےنے کی کوشش کی ۔کسان مجھے جوش و جذبے سے ےاد رکھےں گے کہ مےں نے جاگےرداروں کی زنجےرےں توڑ دےں محنت کش طبقے محبت سے ےاد رکھےں گے کہ مےں نے انہےں قومےائی گئی صنعتوں کا مالک بناےا ۔دانشور مےری قدر کرےں گے کہ مےں نے خود کو ٹےکنالوجی اور جدےدےت سے مخلصانہ طور پر وابستہ رکھا ۔اقلےتےں مجھے ہمےشہ ےاد رکھےں گی کہ مےں نے ان کے ساتھ سچا سلوک کےا ۔وہ بے نام مجھے ےاد رکھےں گے کہ مےں نے انہےں زمےن اور گھر دے کر شناخت دی اور بے چہرہ مجھے اس لئے ےاد رکھےں گے کہ مےں نے کچی آبادےوں مےں انہےں مالکانہ حقوق دے کر پہچان دی ۔آخر وہ وقت بھی آن پہنچا کہ پاکستان کا پہلا منتخب وزےر اعظم ،پاکستان کے پہلے متفقہ آئےن کا خالق ،پہلی اسلامی رےاست کے اےٹمی پروگرام کا بانی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کٹہرے مےں کھڑا تھا ۔
”لارڈشپس!مےری روح مےرا عزم اور مےری قوت ارادی ہے اور ےہ کہ مےں اےک رہنما ہوں اس بناءپر مےں اذےت بھری ابتلا کا سامنا کرنے کے قابل ہوں اس حقےقت کو بھلا دےجئے کہ مےں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہوں ۔ان تمام حقائق کو فراموش کر دےجئے لےکن مےں اس ملک کا شہری ہوں اور اےک ادنیٰ ترےن شہری کو بھی اور مےں خود کو اےسا ہی سمجھتا ہوں کہ انصاف سے محروم نہےں کےا جا سکتا ۔مجھ پر الزام لگاےا گےا کہ مےں برائے نام مسلمان ہوں اےک اسلامی ملک مےں اےک کلمہ گو کے عجز کےلئے ےہ اےک معمولی واقعہ ہو گا کہ وہ ےہ بات ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے ۔مےرے خےال مےں ےہ اسلامی تمدن کی تارےخ کا پہلا واقعہ ہے کہ اےک مسلم صدر اےک مسلم رہنما اےک مسلم وزےر اعظم جسے مسلم قوم نے منتخب کےا ،وہ اےک دن اپنے آپ کو اس حےثےت مےں پائے کہ وہ کہے کہ وہ مسلمان ہے ۔ےہ اےک ہراساں کر دےنے والا مسئلہ ہی نہےں بلکہ ےہ اےک کربناک معاملہ ہے ۔آپ نہےں جانتے کہ ان رےمارکس نے مجھے کتنا دکھ پہنچاےا ہے ۔اس کے مقابلے مےں تو مےں پھانسی کو ترجےح دوں گا اور پھندے کو قبول کروں گا ۔آج جب مےں اس تنگ و تارےک کوٹھڑی کی چار دےواری مےں گھرا بےٹھا ہوں تو مےرے ذہن پر اس زندگی کا پورا عکس پھےلا ہوا ہے جو مےں نے اپنے عوام کی خدمت مےں گزاری ۔اس قےد تنہائی مےں مےں نے اپنے ماضی کو دوبارہ گزار لےا ہے ۔کسی فرد واحد کو ےہ اختےار نہےں کہ وہ مجھے پاکستان کی سےاسی زندگی سے جدا کر سکے ۔سےاست سرکاری مشنری کی غےر قانونی ملکےت نہےں ہے ۔رےاست اےک پھلتے پھولتے معاشرے کو اےک بنجر زمےن مےں تبدےل کر دےنے کا نام نہےں ہے ۔سےاست زندگی کی روح ہے ۔ےہ مےرا اپنے عوام کے ساتھ ابدی عشق ہے صرف عوام ہی اس ابدی بندھن کو توڑ سکتے ہےں ۔مےرے نزدےک سےاست اور عوام اےک ہی لفظ کے دو معنی ہےں ےہ اےک مکمل اور منہ بولتا سچ ہے ۔کسی کو ےہ حق نہےں پہنچتا کہ مےرے عوام سے مےرا روحانی اور لازوال رشتہ توڑ سکے ۔ےہ مےرے ورثہ کا اٹوٹ حصہ ہے ۔مےں اس وطن کی گردوغبار اور خوشبوﺅں کا حصہ ہوں ۔ےہاں کے عوام کے آنسو مےرے آنسو ہےں اور ان کے چہروں کی خوبصورت مسکراہٹ مےری اپنی مسکراہٹ ہے ۔اےک درےا اپنا راستہ تبدےل کر سکتا ہے مگر مےں اپنا راستہ تبدےل نہےں کر سکتا ۔مےری تقدےر عوام کے ہاتھوں مےں ہے ۔صرف عوام کو ےہ حق حاصل ہے کہ وہ مےرے ساتھ مےری محبتوں اور وابستگےوں کی پرکھ کرےں ۔اب ےہ وقت ہی بتائے گا کہ آےا مےرا نام برصغےر کے مجرموں کی فہرست مےں شامل کےا جاتا ہے ےا بہادر رہنماﺅں مےں ۔پاکستان کے عوام مےرے نام اور مےرے وقار کے بہترےن محافظ ہےں اور مےرا نام تارےخ کے دل مےں دھڑکتا رہے گا ۔مےرا لہو نوجوان نسل کے چہروں پر سرخی بن کر ابھرے گا ۔مےری قبر سے فتح و نصرت کے پھول اگےں گے۔خلق خدا مےرے بارے مےں گےت گائے گی ۔اور مےں اس کی جاوداں کہانےوں کا حصہ بن جاﺅں گا ۔بھٹو کا دشمن چاہتا تھا کہ بھٹو اس سے رحم کی اپےل کرے ۔اس کے آگے زندگی کی فرےاد کرے ،گڑگڑائے معافی مانگے تا کہ اس کی انا کی تسکےن ہو لےکن بھٹو نے اپنے اسلوب مےں بات کرنے کے بعد پھانسی قبول کر لی ۔بھٹو نے اسی راستے کا انتخاب کےا جس پر چلتے ہوئے سقراط،منصور اور دوسرے باغی سولی تک پہنچے کےونکہ ازل سے خالق ےکتا کی مخلوق کو ےکتائی کی لڑی مےں پرونے والوں کا ےہی مقدر ٹھہرا۔
کالم
ذوالفقار علی بھٹو، اےک انقلابی رہنما
- by web desk
- جنوری 13, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 185 Views
- 7 مہینے ago