کالم

ذوالفقار علی بھٹو کی جمعہ فقیر سے دوستی

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے اپ سبھی واقف ہیں لیکن بھٹو کے دوست جمعہ فقیر کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ سوچا بھٹو کی برسی کے سلسلے میں بھٹو اور جمعہ فقیر کی دوستی پر لکھوں گا ۔ لہٰذا آج لکھ رہا ہوں۔جمعہ فقیر کوئی سیاست دان، یا لینڈ لارڈ نہیں گدھا گاڑی والا ایک درویش صفت انسان تھا ۔ گدھے کو گھاس اور کتوں کو چھچڑے کھلاتے لوگ اسے اکثر دیکھا کرتے تھے ۔جمعہ فقیر واحد شخص تھا جس سے بھٹو نے دوستی کے لیے خود ہاتھ بڑھایا تھا۔ان کی دوستی اتنی گہری تھی کہ وہ بھٹو صاحب سے مذاق بھی کرتا اور طنزیہ جملے بھی انہیں کس دیتا تھا ۔بھٹو ہنس کر سن لیتے تھے کبھی بھی جمعہ فقیر کی بات کو برا نہ سمجھا۔ جمعہ فقیر ذات کا سومرو اور تعلق قمبر کے ایک گاو¿ں کور سلیمان سے تھا، مگر اپنا گاو¿ں چھوڑ کر لاڑکانہ میں رہنے لگا تھا ۔ اکثر لاڑکانہ کی گلیوں اور رستوں پر کتوں اور اپنے گدھے کے ساتھ یہ نظر آتا تھا۔جمعہ فقیر کا یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ گوشت مارکیٹ جاتا اور وہاں کے تمام ذبح کئے گئے جانوروں کی باقیات اپنے گدھے پر ڈالتا اور پھر لاڑکانہ کے آوارہ کتوں کو وہ یہ چھیچھڑے اور باقیات کھلاتا ۔اپنی دھن میں مگن رہتا جمعہ فقیر کی باتیں صوفیانہ رنگ میں رنگی ہوتی تھیں ایسی گفتار عام آدمی سے ممکن نہیں ہوتی۔ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی دوستی اس وقت ہوئی جب بھٹو صاحب پاکستان کے وزیر خارجہ تھے ۔جمعہ فقیر خود چل کے المرتضی نہیں گیا تھا بلکہ بھٹو خود چل کر اس فقیر کو دوست بنانے اس کے پاس آئے تھے۔ قصہ کچھ یوں بتایا جاتا ہے کہ کسی نے بھٹو صاحب سے کہا کہ لاڑکانہ شہر میں ایک فقیر ایسا ہے جس کی باتوں میں کمال کی دانائی چھپی ہے بڑا کھرا سچا بندہ ہے۔یہ سن کر بھٹو صاحب کو بہت تجسس ہوا اور انہوں نے فقیر کو اپنے گھر لانے کیلئے اپنے کارندوں کو بھیجا۔
جب کارندوں نے اسے کہا کہ بھٹو صاحب آپ کو بلا رہے ہیں تو اس نے کہا کہ میں کوئی بھٹو کا نوکر ہوں۔ جا میں نہیں جاتا ان کے پاس ۔ بھٹو صاحب کو جب نوکروں نے بتایا کہ وہ ایسا کہہ رہا ہے تو بھٹو صاحب اسی وقت گاڑی میں بیٹھ کر جمعہ فقیر سے ملنے نکل کھڑے ہوئے۔ جمعہ فقیر بھٹو کو کینیڈی مارکیٹ میں ایک پیپل کے درخت کے نیچے اپنے گدھے کو گھاس کھلانے میں مشغول پایا ۔ بھٹو صاحب گاڑی سے اترے اور فقیر کے پاس پہنچے۔جمعہ فقیر نے دیکھتے ہی کہا بھٹو کیسے بھول پڑے ہو ؟ تو بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ فقیر ،حاضری کیلئے آیا ہوں فقیر نے جواب دیا کہ میں کوئی استادِ ہوں جو حاضری بھرنے میرے پاس آئے ہو ؟ بھٹو صاحب نے کہا۔ چلیں یار دوستی کر لیتے ہیں۔ جمعہ فقیر نے کہا۔ دوستی رکھنا آسان ہے اسے نبھانا بہت مشکل کام ہے۔ اس پر بھٹو صاحب نے کہا تم دوستی میرے ساتھ رکھہ کر تو دیکھو ۔ باقی تم مرضی کے مالک ہو ۔ اپنے گدھے کے ساتھہ بیٹھے جمعہ فقیر نے کہا کہ میرے پاس چل کے آئے ہو، یوں خالی ہاتھ لوٹانا مناسب نہیں اور اس طرح گلیوں میں گھومنے والے اس فقیر کی ذوالفقار علی بھٹو سے پکی دوستی ہوگئی ۔جمعہ فقیر سے بھٹو کبھی کبھار وقت نکال کر ملنے آتے رہے اور یوں دونوں کی دوستی پروان چڑھتی گئی۔جب بھٹو صاحب پاکستان کے وزیراعظم بنے تو المرتضی کو وزیراعظم ہاو¿س کا درجہ دے دیا گیا ۔ وزیراعظم بننے کے بعد بھٹو فقیر سے ملنے آئے اور فقیر سے کہا میرے حق میں دعا کرو ۔ فقیر نے کہا لگتا ہے وزیراعظم بن کر خوش (مطمئن)نہیں ہو، چلو پھر یہ کرتے ہیں تم میرے گدھے پر بیٹھ کر جمعہ بنو، اور میں بھٹو بنتا ہوں،بھٹو نے کہا مجھے منظور ہے مجھے اپنا گدھا دو اس وقت کئی وزیر مشیر بھی بھٹو کے ساتھ تھے جو یہ ساری گفتگو سن رہے تھے۔ اچانک فقیر نے کہا بھٹو! میں تجھے اپنا گدھا نہیں دوں گا میرے پاس بس یہ ایک ہی گدھا ہے تمہارے پاس پہلے سے ہی بے شمار گدھے موجود ہیں۔پہلے انہیں تو سنبھال لو یہ سنتے ہی بھٹو صاحب کی بے اختیار ہنسی نکل گئی۔ بھٹو وزیراعظم بننے کے بعد جب بھی لاڑکانہ آتے ۔ اپنا وقت نکال کر فقیر سے ملنے ضرور جاتے ۔جمعہ فقیر کا کوئی دن کا مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ بس بھٹو صاحب پتہ کرتے کہ فقیر کہاں ملے گا وہاں آپ پہنچ جاتے اور گھڑی بھر ملتے ضرور ۔جمعہ فقیر کا رات کا ٹھکانہ قبرستان میں بنی ایک جھونپڑی تھی بھٹو نے فقیر سے کہا تمہیں گھر بنوا کر دیتا ہوں یہ سن کر فقیر بہت جلال میں آ گیا اور کہنے لگا آج بول دیا ہے آئندہ بولا تو تمہاری میری یاری ختم ۔ ایک بار بھٹو صاحب موئن جو داڑو کے ائرپورٹ پر جہاز سے اترتے ہی تھے بولے کہ جمعہ فقیر سے ملنا ہے پروٹوکول والے وہ روٹ لیں جہاں جمعہ فقیر کے ملنے کے امکانات ہوں۔ قافلہ چلا اور بلآخر جمعہ فقیر باقرانی روڈ پر اپنے گدھے کے ساتھ نظر آ گیا ۔ بھٹو صاحب اس سے ملے اور کہا جمعہ فقیر آج رات کا کھانا میرے ساتھ کھاو¿ ۔ فقیر بولا ایک شرط ہے کہ کھانا ہم دونوں اکیلے میں کھائیں گے بھٹو نے پوچھا وہ کیوں ؟ فقیر بولا یہ جو تمہارے آدمی ساتھ ہوتے ہیں بڑے بھوکے ہیں سارا یہ کھا لیں گے اور ہم دونوں کے حصے میں ہڈیاں ہی آئیں گی۔ بھٹو نے یہ بات سنتے ہی قہقہہ لگایا اور بولے آپ کی شرط منظور ہے تو فقیر نے کہا ایک اور بھی شرط ہے ، سستے میں جان نہیں چھوٹے گی ، تم اور میں کھانا کھائیں ،لیکن میرے گدھے نے کیا قصور کیا ہے۔ کیا اس کا پیٹ نہیں ہے؟ اس کے کھانے کا بھی بندوبست کرنا۔بھٹو نے کہا منظور ہے فقیر نے کہا مجھے بھی منظور ہے ۔ دعوت سے ایک گھنٹہ پہلے بھٹو صاحب نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ خالد احمد کھرل اور ایس پی محمد پنجل جونیجو کو احکامات دئیے کہ جمعہ فقیر کو المرتضی لایا جائے ۔ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی نے ڈی ایس پی عنایت اللہ شاہانی سے کہا کہ جمعہ فقیر کو ڈھونڈو اور اسے پروٹوکول میں المرتضی لیکر آ جب ڈی ایس پی جمعہ فقیر کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے تو فقیر نے اکیلے جانے سے انکار کردیا اور کہنے لگا ، ہم دونوں کی دعوت ہے ورنہ جا میں نہیں چلتا افسران بہت پریشان ہوگئے اور یہ بات بھٹو تک پہنچ گئی جس پر بھٹو صاحب نے کہا جیسا جمعہ فقیر بولتا ہے ویسے ہی کیا جائے اور اس طرح جمعہ فقیر نے بھٹو صاحب کے ساتھ اکیلے میں دعوت کھائی اور اپنے گدھے کو بھی خوب گھاس کھلائی۔لاڑکانہ کے اس درویش فقیر بھٹو کے دوست نے آخر کار 1990 میں یہ جہاں چھوڑا تھا۔جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے چار اپریل 1979 کو کوچ کیا۔ جمعہ فقیر اکثر بھٹو کی قبر پر بیٹھ کر باتیں کرتا جیسے زندہ ہو اس کے بعد سے اب ہرسال چار اپریل کو بھٹو کی برسی منائی جاتی ہے اس سال نیلسن منڈیلا صدر پاکستان آصف علی زرداری کی صحت ٹھیک نہ ہونے پر سب نے انہیں اس برسی پر مس کیا۔آصف علی زرداری بھی بھٹو کی طرح دوستی یاری پر یقین رکھتے ہیں۔ دوستوں کے دوست ہیں۔یہ سچ ہے کہ دوست بنانا آسان ہے مگر دوستی نبھانا آسان نہیں مشکل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے