پاکستان ، مسلم ممالک اوراسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے جنرل سیکرٹریٹ نے بھارتی شہر ایودھیا میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں شہید کی گئی بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کے افتتاح پر شدید تشویش کا اظہارکرتے ہوئے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں اور ان کے مقدس مقامات سمیت مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر مذہبی سے زیادہ سیاسی معاملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت کے بارے میںامریکی میڈیا بلوم برگ نے کہا انتخابات کے پیش نظر مودی سرکار کے ہندو پرست متعصبانہ اقدامات جاری ہیں۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت سیکولر ریاست ہونے کا مقام کھو بیٹھا ہے۔ مودی سرکار نے بھارت میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور رام مندر کی تعمیر کے وعدے پر مودی اپنی سیاست چمکاتا رہا۔ مودی بھارت میں پچھلے 10سال سے جاری کرپشن، معاشی بحران، بے روزگاری اور مہنگائی کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ مودی نے 2024ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارت میں ہندوتوا نظام رائج کرنے، متنازعہ مندروں کی تعمیر اور مسلمانوں پر زمین مزید تنگ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مودی کی حکومت میں مسلمانوں کیلئے بات کرنے والا کوئی نہیں جبکہ برطانوی میڈیا کا کہنا تھا بی جے پی کا انتخابی ایجنڈا ہندوو¿ں کے مذہبی جذبات کو استعمال کرنا ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے لیے مودی نے بڑے پیمانے پر 2002ءمیں گجرات فسادات شروع کیے اور مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی نظام عدل کا یہ حال ہے کہ تمام شواہد ہونے کے باوجود گجرات فسادات میں ملوث تمام مجرموں کو با عزت بری کر دیا گیا جب کہ بی جے پی کے زیر انتظام کئی ریاستوں نے تبدیلی مذہب کے خلاف قانون منظور کیا ہے۔ ایودھیا میں جہاں ایک طرف ہندو عقیدت مند رام مندر کے افتتاح کی تیاری کررہے ہیں وہیں بھارت کے مسلمان اس سال ایودھیا میں ہی ایک نئی مسجد کی تعمیرات شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مسجد کے منصوبے کی نگرانی کرنے والے انڈو اسلامک کلچرل فاو¿نڈیشن (آئی آئی سی ایف) کی ڈویلپمنٹ کمیٹی کے سربراہ حاجی عرفات شیخ کہا ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے کے بعد مئی میں اس مسجد کی تعمیر شروع ہو جائے گی اور مسجد کی تعمیر میں 3 سے 4 سال کا وقت لگے گا۔ مسجد کے منصوبے میں اس لیے بھی تاخیر ہوئی کہ اسے مینار جیسے مزید روایتی اجزا کو شامل کرنے کے لیے دوبارہ تیار کرنا پڑا۔ کمپلیکس میں 500 بستروں پر مشتمل ہسپتال قائم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔رام مندر کو اس مقام پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں صدیوں سے قائم مسجد کو 1992 میں بھارتی وزیر اعظم کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ہندو انتہا پسندوں نے شہید کردیا تھا۔ مسجد کو شہید کرنے کے واقعے نے بھارت میں بدترین مذہبی فسادات کو جنم دیا تھا جس کے نتیجے میں 2 ہزار افراد مارے گئے تھے، مرنے والوں میں زیادہ تر مسلمان شامل تھے، اس واقعے نے بھارت کے نام نہاد سرکاری سیکیولر سیاسی نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ چند روز قبل مندر کے افتتاح کے موقع پر اس کے باہر ہزاروں کی تعداد میں نعرے لگاتے، ناچتے گاتے،جھنڈے لہراتے اور ڈھول پیٹتے عقیدت مندوں سے ایودھیا کے شمالی قصبے کی سڑکیں بھرگئیں جب کہ فوجی ہیلی کاپٹروں نے فضا سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔مندر کے افتتاح سے پہلے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ بھگوان نے مجھے بھارت کے تمام لوگوں کی نمائندگی کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔رام مندر ریلی کے دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس نے یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کی دکانوں کو غیر قانونی تعمیرات کے نام پر مسمار کر دیا۔بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے 2019 میں مسجد کو مسمار کرنے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عمارت کے نیچے ایک غیر اسلامی ڈھانچہ موجود ہے۔ بھارت کی اعلٰی عدلیہ نے حکم دیا تھا کہ مندر بنانے کے لیے یہ جگہ ہندو گروپوں کو دی جائے اور مسلم برادری کے رہنماو¿ں کو مسجد کی تعمیر کے لیے شہر میں کسی اور جگہ زمین فراہم کی جائے۔فیصلے کے بعد 18 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والے مندر کی تعمیر چند مہینوں کے اندر ہی شروع کر دی گئی تھی اور اس مندر کے پہلے حصے کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے مگر دوسری جانب بھارت کے مسلم گروپوں کو اس جگہ سے تقریباً 25 کلومیٹر (15 میل) دور ایک ویران جگہ پر مسجد کی تعمیر شروع کرنے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔گزشتہ40 برس سے ایودھیا کے مسلمان خوف اور اندیشوں کے بیچ زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اب بس یہی سوچ رہے ہیں کہ جو بھی ہے اب ان کے لیے حالات بہتر ہو جائیں۔مسلمان اس لیے خوش ہیں کہ مندر بن جانے سے ماضی میں جو جو کشیدگی اور فسادات کا ماحول رہتا تھا اس سے نجات مل گئی۔رام مندر کی تحریک سے پہلے ایودھیا ایک پر امن شہر ہوا کرتا تھا۔ ہندوو¿ں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی صدیوں سے یہاں رہتے چلے آ رہے ہیں۔یہاں مندروں کے درمیان جگہ جگہ مساجد، مقبرے، درگاہیں اور قدیم قبریں اس شہر میں مسلمانوں کی صدیوں سے آبادی کا پتہ دیتی ہیں۔ بہت سے قبرستان لودھی حکمرانوں اور خلجی عہد کے ہیں۔یہاں دو مسلم پیغمبروں حضرت شیث ؑاور حضرت نوحؑ سے منسوب دو روضے بھی ہیں۔ ان کا ذکر شہنشاہ اکبر کے مورخ ابوالفضل فیضی نے چار سو سال پہلے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے۔شہر کے ایک سرکردہ کارکن خالق احمد خان نے ایودھیا کے مسلم مقامات کی فہرست تیار کی ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ایودھیا میں 55 مساجد، 22 قبرستان، 22 مزار اور 11 امام باڑے ہیں۔ یہ سبھی موجود ہیں اور ان میں بیشتراستعمال میں ہیں لیکن بعض مقامات کی نوعیت بدلنے کےلئے کتبوں وغیرہ کو اکھاڑ دیا گیا ہے یا ان کی عبارت پر پوتائی کر دی گئی ہے اور مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں کی مدد سے موجودہ ریکارڈ کو غائب کر دیا گیا ہے۔لیکن قدیم ریکارڈ اور گزٹ وغیرہ میں ان مقامات کی ساری تفصیلات درج ہیں ۔ ایودھیا سے مسلمانوں کے نشانات مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔