خالق نے کائنات کو تخلیق کیا اور اس میں خوبصورت زمین کوپیداکیا،یہ سب کچھ اشرف المخلوق کےلئے سنوارا اور بلاشبہ انسان کو بھی حسن و جمال سے نواز ا۔ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور پھر اُن کےلئے حضرت بی بی حوا کو پیدا کیا یعنی حضرت آدم علیہ السلام ابو البشر ہیں۔ تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید سورة الجرات آیت نمبر13میں فرماتے ہیںکہ” اے لوگو!ہم نے تمیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا (تم میں سے چاہے کوئی مومن ہے یا کافر و مشرک لیکن تم سب آدم علیہ السلام اور حوا کی ہی اولاد ہو۔) اور ہم نے تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میںتقسیم کردیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔” یہ دنیا ایک سٹیج ہے، یہاں ہر کوئی اپنا کردار ادا کرکے چلاجاتا ہے،جن دیہاتوں اور شہروں میںآج ہم رہتے ہیں، ہم سے پہلے کوئی اور رہتے تھے، اُن سے پہلے کوئی اور رہتے تھے اور واضح ہو کہ ہمارے بعد کوئی اور رہیں گے، یہاں سدا کسی نے نہیں رہنا۔
اس منطقی کی سمجھ جس کو آجائے ،وہ دوسرے انسانوں کا لحاظ رکھے گا۔دراصل وہی کامیاب و کامران لوگ ہیں جو دوسروں کا خیال رکھتے ہیں۔انسانیت سے محبت کرنے والے ہی فلاح پانے والے ہیں، ان کاہی نام زندہ جاوید رہتا ہے۔ دریائے چناب کے بائیں کنارے رام نگر ایک قصبہ تھا، اب بھی وہی قصبہ موجود ہے لیکن اب اس میں دوبڑے فرق ہیں، (الف) اب اس کا نام رام نگر نہیں بلکہ رسول نگر ہے۔ (ب)بٹوارے سے قبل یہاں مختلف مذاہب کے پیروکار رہتے تھے جبکہ اب یہاں مسلمان رہتے ہیں۔
خاکسارکو اس قصبے میں جانے کاا تفاق ہوا،یہاں پر الائےڈ سکول کے پرنسپل محترم فخر زمان صاحب سے ملاقات ہوئی،آپ ملنسار ، خوش اخلاق، پرکشش شخصیت کے مالک اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہیں، اگر تصوراتی نگاہوں سے دیکھیں توآب و تاب سے بہتا ہوا دریائے چناب ہے، جس سے ہزاروں کھیتوں کی آبیاری ہورہی ہے۔انھوں نے مجھے رسول نگر (رام نگر) میں تعمیر کا شاہکار قدیم جین مندر دکھایا۔یہ مندر مقفل رہتا ہے کیونکہ جین مت کے پیروکاریہاں سے بھارت چل بسے ۔جس کے پاس مندر کی کنجی ہے،وہ عام طو رپرکسی کے لئے اس کے در نہیں کھولتے ہیں لیکن پرنسپل صاحب کے باعث ہمارے ساتھ خصوصی شفقت کا مظاہرہ کیا گیا۔ جین مندر طرز تعمیر کے باعث اپنی مثال آپ ہے ،اس کے نقش و نگار، جین مذہب کی تصویری کہانیاں اس میں نمایاں ہیں۔ جین سنسکرت کے ایک لفظ جِن سے لیا گیا ہے جس کا مطلب فاتح ہے، یعنی جس شخص نے اپنے نفس اور جذبات پر فتح حاصل کرلی، وہ فاتح ہے۔جین مت کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں کیا جاتا ہے۔
دنیا میںجین مت کے پیروکاروں کی تعداد تقریباً 6.1 ملین ہے، بھارت میں4.2 ملین ہے جبکہ باقی تعدادبیلجیئم ،امریکہ، کینڈا، سنگاپور، جاپان اور ہانگ کانگ وغیرہ میں رہتے ہیں۔اس مذہب کے بانی مہاویر ہیں جوکہ ایک شہزادے تھے،انھوں نے 30 سال کی عمر میں مادی دولت اور گھر بار چھوڑ دیا تھا،بارہ برس تک تپسیا (ریاضت) کرتے رہے۔ جین دھرم کے لوگ سادگی کو اپناتے ہیں، اس عمل کو دیکشا کہا جاتا ہے۔یہ عدم تشدد کے نظریے کے پیروی کرتے ہیں۔غروب آفتاب سے قبل کھانا کھالیتے ہیں، رات کو آگ نہیں جلاتے ہیں، روشنی نہیں کرتے ہیں ، لائٹ آن نہیں کرتے ہیں اور اکثر منہ پر کپڑا رکھتے ہیں تاکہ کسی جاندار چیز کو نقصان نہ پہنچے ۔ جین دھرم کے پیروکار کسی جانور، کیڑے مکوڑوں حتیٰ کہ درختوں کو بھی گزند نہیں پہنچاتے ہیں۔
رسول نگر کادوسری اہم مقام مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بارہ دری ہے۔ رام نگرمیںمہاراجہ رنجیت سنگھ نے1822ءمیں ایک خوبصورت بارہ دری بنائی تھی۔ یہاں پر 25 ایکٹر پر باغ ،64کنال پر چار دیواری اور دریائے چناب تک اہل خانہ کی رسائی کےلئے سرنگ تعمیر کی۔وہ موسم گرما کے تین ماہ یہاں پر ہی گزارتے تھے، وہ اہم فیصلے اسی مقام پر کرتے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا اقتدار 1799ءتا 1849ءیعنی کم وبیش پچاس برس رہا۔اسی رام نگر میں انگریزوں اور سکھوں کی آخری جنگ1849ءمیں لڑی گئی اور ساتھ ہی سکھوں کی حکومت کا سورج غروب ہوگیا۔ اس جدل میں برطانیہ کے چار جنرل،دو بریگیڈیٹر اور دو کرنل ہلاک ہوگئے تھے، ان کی قبریںیہیں پر ہی ہیں۔ اس لحاظ سے رسول نگر (رام نگر)تاریخی اہمیت کا حامل قصبہ ہے، دریائے چناب کے کنارے اور مضافات کے سرسبز و شاداب کھیت ، طلوع و غروب آفتاب کے نظارے دلفریب اور قابل دید ہیں ، جین مندر، بارہ دری ، سرنگ کی مرمت کی جائے تو رسول نگرسیاحوں کے لئے پرکشش اور اہم سیاحتی مقام بن سکتا ہے ، دنیا بھر کے سیاحوں کو اس سیاحتی سپاٹ کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔اس رسول نگر (رام نگر)میں صرف جین دھرم کے پیروکار، برطانیہ کے شہری اور سکھ سیاح بھی آجائیں تو ان کی تعداد بھی سالانہ لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔لاہور سے رسول نگر159 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اڑھائی گھنٹوں میں پہنچا جاسکتا ہے۔ وزیر آباد، گوجرانوالہ ، گجرات، حافظ آباد اور سیالکوٹ رسول نگر کے قریب ترین اہم شہر ہیں، یہ علاقہ عالمی تجارت کا مرکز بھی بن سکتا ہے۔ واضح ہوکہ سیاحت کو صنعت کا درجہ حاصل ہے اور سیاحت کا معیشت کی ترقی میں اہم کردار ہے۔دنیا کے متعدد ممالک سیاحت سے سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں۔حکومت، محکمہ آثار قدیمہ، محکمہ سیاحت اس جانب توجہ دیں تو رسول نگر کی سیاحت سے اربوں ڈالرز کمائے جاسکتے ہیں ، اس سے ملک کی معیشت کو سہارا مل جائے گا ، ملک معاشی لحاظ سے ترقی کرے گا اور مقامی لوگوں کےلئے بھی ترقی اور خوشحالی کا نیا باب کھل جائے گا۔
کالم
رام نگرسے رسول نگر۔۔۔!
- by web desk
- مئی 13, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 542 Views
- 1 سال ago