اسلام آباد ہائی کورٹ کے آٹھ میں چھ ججز نے جوڈیشل کونسل کے نام رواں ماہ کی 26تاریخ کو ایک مکتوب لکھا جس میں پوری آب و تاب کیساتھ بے بسی کا ذکر تھا۔ اسی رات بابا کرموں کی ہمارے غریب خانے پر آمد ہوئی۔ اس وقت ہر چینل پر ججزخط کی بریکنگ نیوز تھی۔بابا کرموں نے کہا آج دل کافی پینے کا ہے کیا ملے گی؟ تھوڑی دیر بعد مہمان شخصیت کوکافی پیش کی گئی۔بابا کرموں نے پہلی چسکی لے کرکہا ٹی وی کو پلیز بند کر دیں۔ بریکنگ نیوز پر بات کرتے ہیں ۔پھر پوچھا یہ چھ ججز صاحبان کو کیا ہوا؟ باقی دو ججز ان چھ ججز کےساتھ شامل کیوں نہیں ہوئے۔ کہا جو کچھ چھ ججز کے ساتھ ہوا ہے کیا ایسا ان دو ججز کو سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ابھی تک کسی نے ان دو ججز کا ذکر نہیں کیا کہ کس وجہ سے دو ججز ان کےساتھ شامل نہیں ہوئے یا انہیں شامل نہیں کیا گیا۔کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ان دو ججز کو اداروں سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ صرف شکایت ان چھ ججز کو ہی ہے۔ کوئی کہتا ہے میرے بیڈ روم میں کیمرے لگائے گئے ہیں۔ ہمیں اپنی مرضی کے فیصلے لکھنے نہیں دیتے۔ہمارے ساتھ بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسا ہی سلوک ہوا ہے اور ہو رہا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ اب یہ چھ ججز جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے اتفاق کر رہے ہیں لیکن اس وقت یہ ان کے دکھ تکلیف میں شامل نہیں تھے۔یہ بھی درست ہے اس وقت یہ چند ہی جج ان کے ساتھی تھے جو ساتھی تھے وہ کیوں خاموش رہے اب اپنے زخم کیوں دکھا رہے ہیں۔ شاید اس لئے کہ انہیں امید ہو چلی ہے کہ انہیں ان کرداروں سے نجات مل سکتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے، کہ صدیقی صاحب کا فیصلہ ادھورا ہے۔ ایک طرف جسٹس صاحب کو تو بے قصور قرار دے دیاگیا ہے مگر دوسری طرف جن کا قصور تھا انہیں کوئی سزا تجویز نہیں کیں۔ جبکہ سزا دینا بنتی تھی۔ کیا اس وقت یہ موجودہ سلسلہ ان ججز کو پیش نہیں تھا۔ پیش تھا یا نہیں تھا صدیقی صاحب آپ کے سینئر ساتھی جج تو تھے۔ کیا آپ کو ان کی بات پر یقین نہیں تھا، ان کا ساتھ اس وقت آپ نےکیوں نہ دیا۔ ساتھ دینا تو کجا وہ صدیقی صاحب کی بیٹی کی شادی میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ یہاں تک ان کو فون پر بھی مبارک نہ دی تھی۔ اب جبکہ صدیقی صاحب کیس جیت چکے ہیں۔ اب انہیں یاد آئی کہ ایسے ہی حالات کو اب ہم بھی فیس کرتے رہے ہیں۔ کہا ہم نے خط لکھ کر اپنے بڑوں کو آگاہ کررہے ہیں۔ہم نے یہ ضروری سمجھا کہ اس سے آپ کو با خبر رکھاجائے۔ان حالات سے ہماری جان چھڑائی جائے۔ بابا کرموں نے کہا کیا یہ جوڈیشل فورم پر ان کا خط لکھنا بنتا تھا۔ جبکہ اس فورم پر ججز کے خلاف شکایات درج کی جاتی ہیں۔اس فورم میں ججز اپنی شکایت نہیں کر سکتے۔ اگر کسی عام شخص کو ان ججز سے شکایت ہوتی ہے تو اس فورم پر جاتے ہیں۔ جیسے جسٹس مظاہر نقوی کے کیس میں ایک شہری نے شکایت کی تھی اور یہ شکایت درست ثابت بھی ہوئی۔ لہٰذا نوکری سے جج صاحب کو ہاتھ دھونا پڑا۔ چھ ججز کے لیے یہ فورم نہیں ہے۔ یہ چھ ججز اپنے چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے جسٹس یا چیف آرمی سے وقت لیتے اور یہ باتیں انکے سامنے رکھتے تو بات سمجھ میں آتی۔ یہ ججز ہائی کورٹ کے ججز ہیں۔ اس ملک کے شہری ایسی ہی اپنی شکایات ان کے پاس لے کر آتے ہیں۔ اگر انہیں کسی ادارے کے افراد کچھ اپنی مرضی کے فیصلے لکھنے کو کہتے تھے یا ہیں تو انہیں فوری اپنی عدالت میں لیگل نوٹسز دیں ، انہیں کٹہرے میں کھڑا کریں انہیں سزائیں دیتے۔ ان کے خلاف ایکشن لیتے تو عدلیہ کا اور ان ججز کا بول بالا ہوتا۔ مگر ایسا کرنے سے یہ کیوں کتراتے رہے۔ اور صدیوں پرانا خط کا طریقہ اپنانا کیوں ضروری سمجھا جبکہ اب تو ای میل اور جی میل کا زمانہ ہے ۔ ان پر پیغام دیئے جاتے ہیں۔ ایک آپ ہیں کہ اس صدی میں بھی خط لکھ رہے ہیں۔ ایسے کرداروں کو آپ خود سزا دے سکتے تھے۔اس لئے کہ ایسا نہیں کیا کہ پہلے آپ خود ان کرداروں سے دوستیاں کرتے ہیں،ان سے کام لیتے ہیں۔ انہیں گھروں میں بلاتے ہیں اور ؟ ادھر بار کے وکلا نمائندوں کا اس پر فوری ردعمل سے لگتا ہے ان کا کام ججز کی جنگ لڑنا ہی رہ گیا ہے ان کی خدمت کرنا ہی ہے۔ اس کے لیے پہلے سے وکلا نمائندے تیار رہتے ہیں کہ کب ججز ہمیں خدمت کرنے کا موقع دیں گے تاکہ اس خدمت کے صلے میں ہم بھی ججوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں جو جج بناتے ہیں یہ وکلا کے نمائندے ان کی آنکھیں بند کر کے ہر قسم کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ پھر جب ان کی ذاتی کردار پر مبنی کہانیوں پر مشتمل فائل کا پیٹ بھر لیتے ہیں تو پھر انہیں جج بنا دیتے ہیں ان میں کچھ میرٹ پر بھی جج بنتے ہیں تاکہ ان پر انگلیاں نہ اٹھیں۔کیا تھا اگر مکتوب سے پہلے خط کہانی اپنے چیف جسٹس کو سناتے ان سے مشورہ کرتے ۔ اب جج ہو کر خط لکھ دیا ہے وہ بھی صحیح فورم پر نہیں لکھا گیا جو واقعات اس خط میں لکھے ہیں ان پر تو خود بھی ایسے کرداروں کے خلاف ایکشن لے سکتے تھے انہیں سزا دے سکتے تھے مگر چھ ججز نے ایک ساتھ خط لکھ دیا۔ اب اس پر سپریم کورٹ کے سابق جج کی نگرانی میں کمیشن بنے گا۔ پھر لمبے عرصے تک خاموشی رہے گی، پلیز ایسا نہ کریں۔ جنھوں نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کرداروں نے جو کچھ کیا اگر ان کو سزا دے دیتے ہیں پھر بھی حالات سدھر سکتے ہیں ۔اچھا ہوتا وزیر اعظم صاحب چیف جسٹس کےساتھ چیف آرمی کو بھی ایک ساتھ بٹھاتے ۔ ایسا کرنے سے پھر کسی کمیشن کی ضرورت نہ رہتی مگر کچھ نہ کرنا ہو تو کمیشن بنا دیا جاتا ہے، وکلا کے نمائندے اپنے وکلا کی ہی بہتری کیلئے کام کیا کریں تو اچھا ہے۔حقیقت تو یہ ہے وکلا کی بہتری کی جنگ یہ لڑتے نہیں۔ججز کی جنگ میں کھود پڑتے ہیں۔ جو کچھ ہوا ہے اتنا آسانی سے سمجھ نہیں آئیگا۔اس سے بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے،اب دیکھتے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ یہ سنانے کے بعد بابا کرموں نے کہا اب آپ بتائے۔ کہا میرے بتانے کو تو کچھ باقی نہیں بچا۔ صرف اتنا کہوں گا کہ جو دکھائی دے رہا ہے ایسے نہیں لگتا۔ بطور جج ان کے پاس ایسے کرداروں کو پکڑنے سزا دینے کی پاور یہ ججز رکھتے ہیں۔ اگر یہ سمجھتے کہ یہ اتنی طاقت نہیں رکھتے کمزور ہیں تو ججز کا پیشہ چھوڑ دیتے وکالتیں شروع کر دیتے۔ لیکن خط نہ لکھتے۔ دو تین ججز کو جانتے ہوئے لگتا نہیں کہ خط لکھنے میں ان کی رضامندی شامل تھی۔کہا میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ وزیراعظم چیف جسٹس اور چیف آف آرمی ایک ساتھ میٹنگ کرتے تو کمیشن بنانے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کیس میں قصورواروں کواگر سزائیں دے دی جاتی تو کسی جج کو خط لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ججز کو سیاست سے پاک کرنا اس وقت ہی ممکن ہے جب ججز کی سلیکشن کا طریقہ کار میرٹ پر ہو گا۔ اسی طرح جمہوریت کو بھی پھلتا بھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ملک میں سلیکشن نہیں الیکشن کرائے جائیں۔