(گزشتہ سے پیوستہ)
وہ ےہ ہے کہ انسان اےک ہستی کو ا پنا سب کچھ سمجھے ےعنی اللہ، اور اقرار کرے کہ سوائے رب کے کچھ نہےں توےہ توحےدہے اور رسول ،اللہ کے پےغمبر اوربندے ہےں۔ پےغمبر کو اسطرح مانے کہ ےہ مجھے اللہ سے ہدا ےت لا کردےنے والا ہے اور اس کے علاوہ کہےں سے بھی ہداےت نہےں مل سکتی توےہ رسالت ہے۔ وقت کی پا بندی کا سبق سےکھناصبر کی تربےت ہونااور پانچ وقت اللہ کے بندہ ہونے کا احساس ہونااور اُن کو اےک دوسرے کے معاملات کابھی علم ہونا تو ےہ نماز ہے۔ اِس کے بعد انسان کسی اےسے نظام پر عمل کرے کہ اُس کے کمزور ساتھےوں کو اگرزندگی گزارنے کےلئے مادی وسائل کی ضرورت ہو تو وہ مل سکےں تو ےہ زکوٰة ہے۔اسی انسان کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے اللہ کے دےن کوقائم کرنے مےں بھوک پےاس برداشت کرنی پڑے اور ےہ احساس تازہ رہے کہ تکلےف کے وقت انسان کی کےا کےفےت ہوتی ہے تو اِس کےلئے روزہ ےعنی رمضان ہے۔ انسا ن بستی بستی ، شہر شہر، ملک ملک، بر اعظم بر اعظم مےں آباد ہوتا ہے اب ان سب انسانوں کو اےک دوسرے سے ملنے کے لےے، اےک دوسرے کے حالات معلوم کرنے کے لےے کوئی اےسی جگہ ضرور ہونی چاہےے کہ وہاں سبجمع ہوں اور اللہ کے دےن کو قائم کرنے کی تدبےر کرےں تو وہ حج ہے۔ مندرجہ بالا احکام پر عمل کر کے ہی انسان اللہ کا پسندےدہ بندہ بن سکتا ہے۔اسی لےے اللہ نے ےہ عبادات فرض کر دی ہےں۔کامےاب زندگی:۔اب ذرا دِل پرہاتھ رکھ کر سوچےںکہ اس سے بہتر شےرازہ بندی کچھ اور ہو سکتی ہے،ےا ےہی بہتر ہے جو ہمارے رب نے بنائی ہے۔اسی مےں اللہ کے حکم کی ادائےگی ہے ،اسی مےں رضا الہی ہے ،اسی مےں فلاح آخرت ہے اور ےہی اللہ کا منشاءہے۔ اور ےہی کامےاب زندگی گزارنے کا اللہ کی طرف سے دےا ہوا مےنول ہے۔ہم نے اُوپر مشےن کی مثال سے نتےجہ اخذ کےا ہے کہ صحےح نتائج کےلئے ضروری ہے کہ مشےن بنانےوالے کے مےنول پر عمل کےا جائے تو صحےح نتائج ملےں گے۔اسی نظم مےں منضبط ہو کہ اللہ کے دےن کو قائم کرنے کی سعی و جدوجہد مےں کامےاب ہو سکتے ہےں۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے راستے پر چل کر ہی صحےح نتائج حاصل کر سکتے ہےں۔ےہ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے ا ور انسان سے انتہائی محبت کا اظہار ہے کہ اُس نے وہ تمام عبادات جس پر عمل کر کے انسان اپنا ہی فائدہ کرتا ہے اللہ نے اس پر اپنی طرف سے انعام بھی رکھ دےاہے ےعنی اللہ کی جنت ۔ اگرتوحےد ، نبوت، نماز،زکوٰة،رمضان حج اور جہاد فی سبےل اللہ کے احکامات پرصحےح اللہ کے بتائے ہوئے اصو لوں کے مطابق عمل کرو گے تو اس جہاں مےں عزت وقار تو ملے گا ہی دوسری زندگی مےں جو اصل اور ابدی زندگی ہے ےعنی جنت کے بھی حق دار ہوجاوگے اور ےہی اللہ تعالیٰ کا منشاءہے۔فلسفہ: ۔اب مزےد سوچےں کہ اس کے پےچھے فلسفہ کےا ہے۔فلسفہ ےہ ہے کہ کررہ ارضی پر، ےعنی جہاں انسان آباد ہے وہاںاللہ کا حکم چلے، شےطان مردود کا حکم نہ چلے،خود ساختہ نظرےات نہ چلےں، باپ دادا نے جو قاعدے بناے¾ ہوے¾ ہےں،جو غلط ہےں وہ نہ چلےں،انسان اپنی خوا ہشات پر جو کہ اکثر غلط ہوتےں ہےں عمل نہ کرے۔ جس دور کا بھی انسان ہو وہ سمجھ لے کہ اُس سے قبل کے دور کے انسان نے جوغلطےاں کی ہےں اُن سے سبق حاصل کرے جو اس سے پہلے دور کے انسان نے شےطان کے کہنے پر غلط کام کےے ہےں اُن سے بچے اور اللہ سے توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلے ےہ ہے فلسفہ۔اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی عبادات کے لےے ادارے قائم کےے ہےں وہ دراصل انسان کو اللہ کے دےن کو اس دنےا مےں قائم کرنے کے دوران مدد فراہم کرنے کے لےے بنائے ہےں اور اُن کو فرض کا درجہ بھی دے دےا ہے کہ ےہ عبادات ہر حالت مےں کرنی ہےں۔ےہ عبادات کرےں گے تو مسلمان ورنہ کافر ۔ رکاوٹ : ۔ بہت سے انسان جو اللہ کے اصل راستے سے ہٹ کر شےطان کے راستے پر چل پڑتے ہےں وہ اس کام مےں رکاوٹ ڈالتے ہےں وہ ےہ اصل کام نہےں ہونے دےتے ان لوگوں کی مزاحمت کرنے کےلئے اللہ نے اپنے بندوں پر ےہ عبادات فرض کی ہےں تا کہ جب مزاحمت کرنے والوں سے مقابلہ ہو تو سخت جان بن جا ئےںاور اُن بُرے لوگوں کے سامنے دےوار بن کر کھڑے ہو جائےں وہ برُے لوگ اِن کا راستہ روکےں گے وہ ان کو ہرطرح سے نقصان پہچانے کی کوشش کرےں گے، وہ قتل عام کرےں گے اور شےطان کے کہنے پر ہر اس کام سے روکےں گے جو اللہ نے اپنے نےک لوگوں کو کرنے کےلئے کہا ہے۔اب ذرا غور کرےں اےسے غلط لوگوں کا کمزور لوگ مقابلہ کر سکتے ہےں؟ ےقےناّنہےں کر سکتے۔جہاد فی سبےل اللہ:۔لہٰذ ان نےک لوگوں کی تربےت کےلئے اللہ تعالیٰ نے عبادات کا نظا م قائم کےا ہے۔ اب مزےد غور کرنے سے معلو م ہوتا ہے جو لوگ اللہ کی زمےن پر اللہ کا نظام قائم کرنے کی ڈےوٹی ادا کر رہے ہےں وہ صرف نماز پڑھ کر،زکوٰة دے کر ،ر مضان کے روزے رکھ کر ، سال مےں اےک حج کر کے اور دل مےں اللہ کے نظام کو قائم کرنے کاارادہ کر کے ےعنی کلمہ توحےد پڑھ کر اللہ کے دےن کوقائم نہےں کر سکتے ہےں ؟ تجر بہ ےہ بتاتا ہے طاغو ت ےہ کا م نہےںکرنے دے گا قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جگہ جگہ رکاوٹ ڈالی جاے¾ گی ابلےس نے شروع ہی سے کہا تھا کہ مےںانسان کو آگے سے پےچھے سے دائےں سے بائےں سے ہر طرح سے گھےروں گا شےطان اور اس کے چےلے نےک لوگوں کو نےک کام نہےں کرنے دےتے۔ شےطان بُرے لوگوں کے دلوں مےں وسوسے ڈال کر، اور بُرے انسان اپنی خو ا شہات کے پےچھے چل کر نےک لوگوں کے راستے مےںکھڑے ہوجاتے ہےںصرف عبادات کو ادا کر کے ان لوگوں کا مقابلہ نہےںہو سکتا اس کےلئے لوگوں کو جہاد فی سبیل اللہ کےلئے تےارہونا پڑتا ہے۔اُن بُرے لوگوں کے مقابلے کےلئے گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔اوراگر نےک لوگ صرف عبادات پر عمل کر کے چاہےں کہ اللہ کا نظام قائم ہو جائے اور اللہ کا منشاءپورا جائے،خلےفہ ہونے کا حق ادا ہو جائے تو ےہ ممکن نہےں۔ ہاں اللہ چائے تو صرف اس کے حکم سے سب کچھ ہو سکتا ہے مگرےہ اس کی مشےت ہے کے وہ اپنے نےک بندوں سے ےہ نظام قائم کرانا چاہتا ہے اس ساری تربےت ےعنی نماز، زکوة،رمضان ،حج اورزبان سے توحےد کا اقرار کرنے سے اجر تو ضرورملے مگر ےہ کام نہےں ہوگاان عبادات کے ساتھ ساتھ عملی جد وجہد کرنی پڑے گی۔ ےعنی جہاد فی سبےل اللہ کرنا پڑے گا۔ اسی لےے انسان کو روزے کے ذرےعے صائم کےا جاتا جےسے عرب کے لوگ گھوڑوں کو صائم کےا کرتے تھے تاکہ وہ ہر مشکل وقت کے لےے تےار رہے۔ مسلمان کو بھی اللہ کے دےن کو اللہ کی زمےن پر قائم کرنے کےلئے ہر وقت تےار رہنا چاہے۔اللہ سے دعاءہے کہ وہ اس دنیا میں اپنے دین کو جاری و ساری کر دے آمین۔
کالم
رمضان انسان کی جسمانی،روحانی تربےت کاذرےعہ!
- by web desk
- مارچ 10, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 156 Views
- 4 مہینے ago