اجتماعی دانش تو کب کی دم توڑ چکی اور انفرادی کا حال بھی پتلا۔ہم کرپشن انڈیکس میں 140اقوام کو بچھاڑ کر اس بار بھی رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں داخل ہو گئے ہیں . مگر نہایت معذرت کے ساتھ کرپشن کی دوڑ میں شاندار کامیابیاں صرف تین بڑی و دیگر سیاسی جماعتوں کی مرہون منت نہیں بلکہ، نظام عدل، پولیس سمیت دیگر ادارہ جات اور بشمول ہر پاکستانی کرپشن کی روز افزوں ترقی میں حصہ دار.محترم ندیم پراچہ نے اس پر برجستہ کہا اور خوب کہا کہ ‘انفرادی کرپٹ اجتماعی عدل کے خواہاں ہیں’.کہ ہم ہر دور حکومت اور اس نظام کے ساتھ عدل و انصاف کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔کیا عجب نہیں کہ ایک طرف رمضان المبارک، عبادات کا ذوق ، مساجد آباد تو قرآن کا شغف، طواف و عمرہ، صدقہ و خیرات مگر اس کیساتھ ساتھ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، مصنوعی گرانی، جھوٹ ، بدعنوانی، کاروبار و رہائش میں تجاوز، دھوکہ، بدگمانی، بدزبانی جیسے اخلاقی رزائل، بات واضح کہ بے سرور نماز اور ثواب کی غرض سے تلاوت قرآن نے ہماری زندگیوں کو انقلاب آشنا نہیں کیا. کیوں !؟ چلیں ماضی کو بھلا کے اب سوچتے ہیں اور ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش.کہ عبادات کے بھاری بھرکم پیکجز ریڈیو سے لیکر ٹی وی اور پھر سوشل میڈیا پر بھر مار، مساجد اور اجتماعات میں آداب رمضان کے لیکچرز مگر سب بے سود نظر آتے ہیں.ہماری روح اثر پذیری سے محروم کیوں!؟ رمضان کے مقدس ایام ہمارے اخلاق پر اثر انداز کیوں نہیں ہو رہے. احسن تقویم اور نائب قدرت کی زبان نے کیوں ہر سو حشر بپا کر رکھا ہے اور سوشل میڈیا اسے مہمیز لگانے کےلئے جو فتنہ و انتشار کا موجب.صاحبزادہ منیر عالم ہزاروی نے کمال نکتہ اٹھایا کہ ماہ رمضان میں اور کچھ نہیں تو صرف زبان اور ہاتھ سے خیر کا عہد کر لیں تو پرامن معاشرہ کی تشکیل ممکن۔ بدقسمتی یہ ہمارے خوابیدہ ضمیر پر نزول کتاب ہوا ہی نہیں جیسے اقبال نے یوں بیان کیا "تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب،.گراں کشا ہیں نہ رازی نہ صاحب کشاف.”نزول کتاب کیا ہوتا افسوس تو یہ کہ نسل نو درست طریق سے ناظرہ پڑھنے کے وصف سے بھی عاری. دینی مدارس میں بھی نظام تعلیم حوصلہ افزا نہیں۔اسی پہ علامہ نے فرمایا "گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے، مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس.”شب و روز کیسے بدلیں اور زندگیوں میں انقلاب کیسے آئے.کہ نماز ہو روزہ یا تلاوت قرآن، فقط ثواب کےلئے ثواب کےلئے ہی تو رہ گئے تخیل حور و قصور کی چاہت میں گم اور رکوع و قیام شہد و شراب طہور کےلئے.خواص کو چھوڑ کر پڑھنے والے کو خبر ہے نہ پڑھانے والے کو علم، کہ کتاب لا ریب کس سے مخاطب اور کیوں !اسی لیے تو دانائے راز نے کہا تھا.” ترا امام بے حضور تیرا قیام بے سرور، ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر "پوری زندگی اسی طرح پڑھنے اور سننے میں گزر جاتی ہے ثواب کے رجسٹر بھرے جا رہے ہوتے ہیں مگر قلب و روح پہ جس انقلاب نے بپا ہونا تھا تا دم مرگ وہ خالی. پورا سال تو ہمارے گھروں میں تربیت کا جو اہتمام رہتا ہے اسے چھوڑیے رمضان الکریم میں بھی دل کے احوال بدلتے ہیں اور نہ روز مرہ کے اعمال وافعال.سوچییے کہ اگر وردات قلب نصیب ہوتی تو زبان جھوٹ سے پاک ہوتی اور دل بدگمانی و غیبت سے دور.مگر ہوا یہ کہ رمضان کو انواح و اقسام کے زرق اڑانے کا استعارہ بنا لیا گیا اور ہر گھر میں بساط کے مطابق شاندار انتظام.بندگان خدا نفس کو پروردہ کرنے کا اہتمام تو خوب کرتے ہیں مگر روح کی شادی کا کتنا انتظام کیا جاتا ہے سب کو خبر۔ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ اب تو حال یہ کہ”وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ” کہ انفرادی و اجتماعی خرابیوں نے سود و زیاں کے احساس سے بھی بے بہرہ کر دیا۔کوئی افلاس سے مرتا ہے تو مرے، غربت و انصافی پہ خود کشیاں، رزق کے حصول کےلئے ناموس فروخت، مظلوم مسلمانوں پرظلم و بربریت، غرضیکہ کسی پر ضمیر انگڑائی لیتا ہے اور نہ اجتماعی گناہوں سے توبہ پر آمادہ.ہر چند کہ رمضان المبارک کے لیل و نہار میں رحمت خداوندی گناہ گار بندوں کےلئے بازوئے رحمت کشا کئے ہوئے ہے.ہمیں بقول بہلول دانا موقع ہے "اللہ سے صلح کر لینے کا”عمیق عرق ریزی اور اہل تصوف کی صحبت سے اکتساب کے بعد سادہ اور آسان نسخہ کہ جو نہ صرف قلب و باطن کی طہارت کا سبب بلکہ ملک سے تفرقہ و انتشار کے خاتمہ کی خشت اول ثابت ہو سکتا ہے کہ اس بار اور کچھ نہیں فقط قلب و باطن کو ” جھوٹ و بہتان "کی غلاظت سے پاک کر لیں تو یقین جانیے کہ پھر عبادات بھی لطف دینگی اور طاعات ذوق.علامہ کی روح سے معذرت کیساتھ حال کچھ ایسا "ہے عمرہ و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا، کند ہو کے رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام "