کالم

روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کےا کرے

رمضان المبارک اﷲ تعالیٰ کی بے پاےاں رحمتوں کا مہےنہ ہے ۔اس بابرکت مہےنے مےں روشن کتاب اتری ،اےسی کتاب جو کبھی بھی تعرےف آشنا نہےں ۔جس سے قےامت تک انسان فےض و رہنمائی حاصل کرتے رہےں گے اور اپنی پےاس بجھا کر تسکےن قلب کے سامان حاصل کرتے رہےں گے ۔ےہ معجزہ ہی ہے کہ ہزاروں برس قبل بنی نوع انسان کو کتابی صورت مےں رہبری کا کل اثاثہ مہےا کر دےا گےا ،جس مےں ہر موڑ پر اصولی رہنمائی پہلے سے ہی موجود ہو گی ۔آج ہماری پستی اور ذلت کا سبب ےہی ہے کہ ہم نے آفاقی پےغام جو کہ قرآن مجےد کی شکل مےں ہے ےکسر بھلا دےا ہے ۔دنےا مےں اس وقت سب سے زےادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن مجےد ہے ۔نائن الےون کے بعد سب سے زےادہ فروخت ہونے کا شرف بھی قرآن مجےد کو ہی حاصل ہے ۔افسوس تو اس بات پر ہے کہ اتنی کثےر تعداد مےں فروخت ہونے والی کتاب کے قارئےن کی قسمت نہےں بدلی ،حالات نہےں بدلے ،روےوں مےں تبدےلی نہےں آئی ،اخلاقےات مےں حسن پےدا نہےں ہوا ،احترام آدمےت فروغ نہےں پا سکا ،بغض و عناد کی لکےر پار نہےںکرسکے ،تعصب رگ و رےشے مےں خون کی طرح گردش کر رہا ہے ،نفرت کو اےسے ضروری سمجھا جا رہا ہے جےسے زندگی کےلئے سانس ،اس کی وجہ کےا ہے ؟ہم صرف رسمی تلاوت کرتے ہےں ،فہم قرآن سے دور ہےں ۔ہم نے گہرائی مےں جا کر اس کی سطروں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے مےں کوتاہی و چشم پوشی کی ۔ہم انقلابی سے زےادہ ثوابی ہےں ۔اس کتاب مےں تو بار بار حصول علم ،غوروفکر اور تفکر و تدبر اختےار کرنے پر زور دےا گےا ہے ۔ہم تو مذہب کے دوسرے ارکان بھی عادتاً پورے کر لےتے ہےں لےکن ان کی اصل روح تک نہےں اتر پاتے ۔بدکار کی اپنی بد اعمالےوں مےں کی گئی عبادت ،رشوت خور کی رشوت کے نوٹوں سے جےب بھر کر کی گئی عبادت ،تاجر کی ناجائز کمائی سے تجوری کا پےٹ بھرنے کے بعد کی گئی خےرات صرف دکھاوے کی عبادت ہے ۔اگر مذہب ہمارے کردار مےں نہےں اترا بلکہ صرف گفتار اور رکھ رکھاﺅ تک محدود ہے تو ےہ ہماری بد نےتی پر محمول ہے ۔ہم دےانتدار نہےں ۔ہم مذہب سے بھی بد دےانتی کے مرتکب ہو رہے ہےں ۔روزہ فقط جسمانی تقاضے کا نام نہےں بلکہ ہر قسم کی بدی ،برائی سے افاقے و اجتناب کا نام ہے ۔عبادت کا مقصد ہی نےک اور اےمانداری ہے ۔اعمال کا دارومدار نےتوں پر ہے ۔اسی طرح زکواة ہمارے مذہب کا اہم رکن ہے، جس کی اصل روح اور مقصد کو تصوےر اور تشہےر کے ذرےعے اکارت کر دےا جاتا ہے ۔حج کی ادائےگی کےلئے بھی نےت شرط ہے ۔صاحبان فکر کے نزدےک رمضان اےک امتحان ہے ۔بندے کے صبر کا ،استقامت کا ،قوت برداشت کا ،برائےوں سے اجتناب کا ،گناہوں سے دوری کا لےکن دنےا کے بہت اہم اسلامی ملک مےںاس ماہ رمضان کو برسوں سے اےسا امتحان بنا دےا گےا ہے جس سے انسان کسی صورت نبرد آزما نہےں ہو سکتا ۔دنےا بھر کے مختلف ممالک مےں کرسمس ہو ےا کوئی اور مذہبی رسومات کا دن وہاں حکومت اور کاروباری طبقہ مل کر اےسے اقدامات کرتا ہے اور صارفےن کو واقعی رعاےتی نرخوں پر مختلف اشےاءفراہم کرتا ہے ۔پاکستان کی صورتحال اس سے ےکسر مختلف ہے ۔ےہاں ہر دور مےں اعلانات تو بڑے کئے جاتے ہےں اور ان کی ٹی وی پر کورےج خصوصی طور پر کرائی جاتی ہے مگر عملی طور پر صارفےن کو بہت ساری چےزےں سستی نہےں مہنگی خرےدنا پڑتی ہےں ۔اس کے ساتھ جب ماہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو جاتا ہے تو پھر ”عےد سےل“ کے نام پر جو لوٹ مار ہوتی ہے اس کی کوئی انتہا نہےں ہوتی ۔وطن عزےز مےں مہنگائی کے عفرےت نے ہماری سماجی اور معاشی زندگی پر اپنی گرفت پہلے ہی مضبوط کر رکھی ہے لےکن آمد صےام کے ساتھ ہی مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ جاتا ہے اور افسوس کہ اسے بوتل سے نکالنے والے مسلمان ہی ہےں ۔بات رمضان کے امتحان کی ہو رہی تھی اور ےہ امتحان انسانوں کےلئے اﷲ نے نہےں بلکہ ان کے ہم وطنوں اور مسلمانوں نے ہی پےدا کےا ہے اور چےزوں کا تو ذکر ہی کےا چاول ،دالےں ،گوشت ،انڈہ ،مرغی ،پھل ،مشروبات اور روزہ کھولنے کی کھجورےں بھی روزہ دار صرف حسرت سے دےکھ سکتا ہے ،وہ ان تک رسائی کے قابل نہےں بقول شاعر
جس کے پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کےا کرے
ذخےرہ اندوز ماہ صےام کی آمد پر خوشی اس لئے مناتے ہےں کہ اس رحمتوں اور برکتوں کے موسم مےں انہےں اےک کے چار بنانے کا موقع مل رہا ہے ۔وطن عزےز پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور غےر ممالک کے باسےوں کو ےہاں اسلام ہی اسلام نظر آئے گا۔مسجدوں کی کثرت ،ذرائع ابلاغ دن رات اسلام کا پرچار کرتےِ ،جگہ جگہ اﷲ رسول کا نام لکھا نظر آتا ہے ،کہےں درودوسلام چسپاں ہےں تو کہےں احادےث نبوی کندہ ہےں پاکستانی کرنسی پر بھی رزق حلال کا حوالہ دےا گےا ہے لےکن اس سب کے باوجود ہمارے تاجر ،ذخےرہ اندوز ،موقع پرست عموماً مال بنانے کےلئے ماہ صےام ہی منتخب کرتے ہےں ۔حکومت نے صارفےن کےلئے کچھ سستے مراکز قائم کئے ہےں لےکن ان تک پہنچ کتنے لوگوں کی ہے اور وہاں کتنی اشےائے صرف دستےاب ہےں ۔رزق حلال کے بغےر نہ روزے قبول ہوں گے نہ نمازےں نہ عبادتےں ۔رمضان المبارک مےں اﷲ تعالیٰ نے حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر بہت زور دےا ہے ۔خصوصی طور پر روزہ صرف کھانا پےنا چھوڑ دےنے کا نام نہےں بلکہ غرےبوں اور بے نوا انسانوں سے ہمدردی اور غمگساری کا نام ہے ۔ماہ رمضان مےں ہمدردی اور غم گساری کے تقاضے بھی بڑھ جاتے ہےں ۔ اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ،بے حساب رزق اپنی قدرت سے عطا کر دےتا ہے لےکن جس کو اﷲ کے فضل اور نعمتوں کی فراوانی اور رزق مےں فراخی دی جاتی ہے ،اس کے اےمان کا تقاضا بھی بڑھ جاتا ہے ۔اہل ثروت کے رزق مےں ضرورت مندوں ،غربا ،مساکےن ،ےتےموں اور محتاجوں کا حصہ بھی مقرر فرما کر ان کو آزمائش مےں ڈالا گےا ہے کہ وہ کس حد تک حکم ربانی بجا لاتے ہےں ۔شےخ سعدی شےرازی بےان کرتے ہےں کہ اےک شخص بادشاہ کا باورچی تھا ۔اس کے خاندان کا گزر بسر شاہی محل سے لائے گئے کھانے پر تھا ۔اےک دن اس کی بےوی نے کہا کہ وہ کھانا لےکر آئے ،بچے بھوکے ہےں ۔باورچی نے کہا :آج کھانا نہےں آئے گا کےونکہ بادشاہ نے (نفلی) روزہ رکھا ہے ،شاہی باورچی خانہ بند ہے ۔بےوی بولی :بادشاہ کے روزے کی وجہ سے ہمارے بچے بھوکے رہےں ۔اس سے بہتر تھا وہ روزہ نہ رکھتا ۔روزہ اسے زےبا ہے جس کے دستر خوان سے صبح شام غربااور مساکےن کھانا کھاتے ہوں ۔اﷲ تعالیٰ نے روزے کے اصل مفہوم سے آگاہی کے بغےر روزہ رکھنے کو فاقہ کشی سے تشبےہ دی ہے ۔
اس ماہ صےام کا سبق اور درس ےہی ہے کہ ہم جن نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہےں ان مےں اﷲ کے دےگر بندوں کو بھی شرےک کرےں جو ان سے محروم ہےں ۔کسی اےک فاقہ کش ،بھوکے ،بے گھر کی حالت بہتر بنانے کےلئے بھی کوئی اﷲ کا بندہ کچھ کرے تو وہ خدا اور بندے کے اس انفرادی معاملے مےں اجتماعےت کا مثبت رنگ شامل کر سکتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ اس ماہ رمضان کی مبارک ساعتوں مےں ہمےں اس کار خےر مےں حسب استطاعت شامل ہونے کی توفےق عطا فرمائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے