اےک شخص درےا سے اےک مچھلی پکڑ کر لاےا ۔بےوی نے غصے سے کہا نہ گھر مےں آٹا ،نہ گھی ،نہ گےس ،نہ بجلی اسے کےسے پکاﺅں ،واپس چھوڑ آﺅ ،جب اس شخص نے مچھلی واپس درےا مےں چھوڑی تو مچھلی نے درےا مےں تےرتے ہہوئے نعرہ لگاےا ،جےو شہباز شرےف ۔دراصل لطائف عوامی سوچ ،امنگوں اور مسائل کا ہنسوڑ رخ ہوا کرتے ہےں ۔ان کی اہمےت سے انکار نوشتہ دےوار سے انکار کے مترادف ہے ۔اس کے پس منظر مےں سوچ کی تبدےلی ،مسائل کی شدت اور خواہشات کی طلب موجود ہوتی ہے ۔اےک مولوی گاﺅں کی مسجد مےں درس دے رہا تھا کہ روزوں کے بدلے مےں جنت مےں آپ کو اپنی ہی بےوی حوروں کی سردار بن کر ملے گی ۔ےہ سن کر اےک دےہاتی نے ساتھ بےٹھے اپنے دوست کو کہنی مار کر کہا ”پتر ہور روزے رکھ “۔اےک سرائےکی نے زندگی مےں پہلا روزہ رکھا اور وہ بھی گرمےوں کا ،افطاری کے وقت اس نے کچھ ےوں دعا مانگی ”نےت کرےندا روزہ کھولن دی تے توبہ کرےندا وت رکھن دی “۔پٹھان کا روزہ تھا اور اوپر سے بہت پےاس بھی لگی ہوئی تھی لےکن ساتھ بےٹھے شخص نے جب پانی پےنا شروع کر دےا تو پٹھان آسمان کی طرف منہ کر کے بولا ،اﷲ اس کو اگر ہم نے جنت مےں دےکھا تو اس کا خےر نہےں ۔دعوت افطار مےں مولانا صاحب نے دےکھا کہ برےانی مےں دونوں بڑے لےگ پےس دوسری طرف ہےں تو انہوں نے فوراً برےانی کا تھال گھما کر دونوں لےگ پےس اپنی طرف کر لئے ۔ساتھ بےٹھے شخص نے کہا ،مولانا ےہ کےا؟ مولانا بولے مرغے کے پاﺅں قبلہ کی طرف تھے ،سےدھے کئے ہےں ،انہی دنوں اےک مےسج آےا ”بے شک ہم ہی ہےں جو تمہےں قبر کا اندھےرا اور حشر کی گرمی ےاد دلاتے ہےں ورنہ تم تو قبر اور حشر کو بھول ہی چکے تھے ،منجانب واپڈا“۔واپڈا کے حوالے سے ہی ےہ پےغام ملا ”اے مومنو تم پر روزے فرض کئے گئے ہےں جےسے تم سے پہلی امتوں پر ،اور مومنو ےاد رکھو پہلی امتوں کو بھی بجلی مےسر نہےں تھی ۔“گزشتہ روز اےک اور موبائل مےسج مےں ملک کے تمام بڑے قائدےن کی مسکراتے چہروں والی گروپ فوٹو تھی اور نےچے لکھا ہوا تھا کہ ”ذرا خےال سے دل مےں گالی دےنے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے “۔افطاری سے ذراپہلے اےک فقےر نے صدا لگائی ”روزہ کھولن والےو ،بابے نوں وی فروٹ چاٹ تے دہی بھلے کھوا دےو ،بابا برےانی وی کھا لےندا اے ،بابا چکن برگر تے آئس کرےم وی کھا لےندا اے ،گھر سے آواز آئی کہ بابا جتےاں وی کھا لوے گا تو بابا بولا نئےں پتر بابے نوں سخت غذا منع اے ۔افطاری کے وقت اےک لڑکی نے اپنی شادی کی دعا کچھ اس طرح مانگی ۔ےا اﷲ مےرے والدےن کو اےک امےر اور خوبصورت داماد دے دے ،دعا تو آناً فاناً قبول ہوئی اور اک دولت مند لڑکے سے اس کی چھوٹی بہن کی شادی ہو گئی ۔مطلب کنفےوژن اور اوور اےکٹنگ دعا بھی نقصان دہ ہوتی ہے ۔اےک دوست جو رمضان شروع ہوتے ہی ےہ کہہ کر بےوی کو مےکے بھجوا دے کہ اسے دےکھ کر مجھے روزہ لگتا ہے ،جو تنہائی پسند اےسا کہ جسے پسند کرتا ہو تنہائی مےں ہی کرے ،جو مذہبی اس قدر کہ اگر دائےں بائےں لڑکےاں بےٹھی ہوں تو ان کو اےسے دےکھے کہ جےسے بار بار سلام پھےر رہا ہو ،جس کی گفتگو اےسی کہ بندہ دوچار منٹ بعد ہی اس کی خاموشی کی دعائےں کرے ۔اس نے روزہ نہ لگنے کی ےہ ناےاب دعا مانگی ”ےا اﷲ مےنوں روزہ نہ لگے ۔“ شہنشاہ بابر نے اپنی بائےو گرافی مےں لکھا کہ کہ ہندوستان پر حکومت کرنے کا تو مےں نے کبھی سوچا ہی نہےں ۔مےں نے تو اپنی زندگی مےں صرف دو بڑے کام کےے ،اےک فرغانہ سے بھاگ کر ہندوستان آتے ہوئے راستے مےں خود کو اژدہے سے بچانا اور دوسرا اےک بار دربا ر مےں چےنی وفد کی موجودگی مےں خارش محسوس ہوئی تو خود کو خارش کرنے سے روکا ۔اس کوشش مےں مجھے اتنا زور لگانا پڑا کہ پسےنہ آ گےا ۔رمضان المبارک نےکےوں کا مہےنہ ہے ۔اسی ماہ رمضان کی پاک ساعتوں مےں قرآن پاک کی مقدس آےات کا نزول ہوا ۔روزہ ارکان اسلام مےں سے دوسرا رکن ہے ۔قرآن 23رمضان کو مکمل ہوا ،تورات 6رمضان کو ،انجےل13رمضان کو اور زبور18رمضان کو نازل ہوئی ۔روزے اپنی افادےت کے حوالے سے عےسائےوں ،نصرانےوں اور ےہودےوں کے ہاں بھی ملتے ہےں ۔ہندوستان مےں بھی چےنی دھرم مےں روزے برت کی صورت مےں موجود ہےں ۔قدےم مصرےوں مےں بھی روزہ تہوار کی شکل مےں موجود رہا ۔ےونان مےں خواتےن تھمو فےرےا کی تےسری تارےخ کو روزہ رکھتی ہےں ۔پارسی مذہب مےں بھی روزے کا ثبوت ملتا ہے ۔اسلام اور دےگر مذاہب کے روزوں مےں فرق ہے ۔ان مےں ےہ عام لوگوں پر فرض نہےں ۔اﷲ پاک قرآن پاک مےں فرماتا ہے کہ اے اےمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے ہےں ۔جےسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے ،تا کہ تم پرہےز گار بن جاﺅ ۔ہمارا مذہب نےت اور اےمانداری پر منحصر ہے ۔مذہب کے پانچوں استعداد ارکان کی ادائےگی کے وقت اﷲ تعالیٰ کا کوئی نمائندہ ظاہری طور پر تو ہمارے سر پر موجود نہےں ہوتا تا ہم انسان کے بارے مےں بڑے فےصلے نےت کی بنےاد پر کر دئےے جاتے ہےں ۔جو عبادت خالی پےٹ سے ،خشک لبوں کے ساتھ ،فسق و فجور سے دور رہ کر ،گالی گلوچ سے پرہےز اور ہر بدی سے بندش کے بعد کی جائے وہ درجے مےں اس کے برابر کےسے ہو سکتی ہے جو کہ تاجر اپنا اور اپنی تجوری کا پےٹ بھرنے کے بعد کرتا ہے ۔جس مفہوم مےں ہم اپنے مذہب کو برتتے ےا برت رہے ہےں ےہ ظاہر داری اور دکھاوا اس کے اس مفہوم سے قطعی طور پر متصادم ہے جو نزول کے وقت اس کا ماخذ و مقصود تھا ۔مذہب اگر ہمارے کردار مےں نہےں اترا تو ہم ےقےنا اکارت عبادت کر رہے ہےں ۔روزہ فقط فاقے کا نام نہےں بلکہ ہر قسم کی بدی برائی سے آفاقے کا نام ہے ۔اگر اےسا نہےں تو ےہ قرب الہٰی ےا عبادت کا حصہ ہر گز نہےں ہے ۔عبادت مےں حد درجہ نےک نےتی اور اےمانداری درکار ہے ورنہ زمےن پر ٹکرےں مارنے کو خالص عبادت قرار نہےں دےا جا سکتا بقول اقبالؒ
جو مےں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمےں سے آنے لگی صدا
تےرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کےا ملے گا نماز مےں
زکواة ہمارے مذہب کا اہم رکن ہے جس کی اصل روح کو تصوےر اور تشہےر کے ذرےعے زخمی کر دےا جاتا ہے ۔لباس کی ےکسانےت اور عبادت کے اکٹھ کو حج نہےں کہہ سکتے بلکہ اسے بھی اگر اپنی نےت اور اےمانداری کے تناظر مےں دےکھا جائے تو تبھی قابل قبول ہو سکتا ہے ۔