کالم

روز نیا کٹا کیوں کھلتا ہے ؟

روز نیا کٹا کیوں کھلتا ہے۔ کٹے طاقتور ہیں یا رسی ان کی کمزور ہے۔ یہ سمجھ سے فی الحال باہر ہے۔ چلو یہ سمجھتے ہیں کہ دوستی سی کس سے کی جائے۔کسی کے بارے میں معلوم کرنا ہو کہ یہ دوستی کے قابل ہے کہ نہیں تو آپ اس سے اس کے دوستوں کی دوستی کی عمر پوچھیں کہ تمہارے دوست کتنے پرانے ہیں ؟ اکثر لوگ جلدی جلدی دوست بدلتے رہتے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ اس میں خودکفیل ہیں۔ سکول کالج کے دوستوں سے رابطے میں ہیں۔ ہمارے مسرور احسن کا شمار بھی ہمارے ایسے ہی دوستوں میں ہوتا ہے ۔وہ دوستیاں نبھانے کی شہرت رکھتے ہیں۔خوش نصیب ہیں کہ دوسری بار پیپلز پارٹی سے سینٹر بنے ہیں۔ حلف کی تقریب عید سے ایک روز قبل ہوئی۔ فون پر بتایا کہ سندھ ہاس میں ٹھہرا ہوں۔ فون ہمارے دیرنہ دوست ساتھی عارف رضا کو دیا۔ کہا یہاں تو چاند رات کا سماں ہے۔آپ بھی آجا ۔ اپنے بھائی خالد عباس کے ہمراہ سندھ ہاس پہنچے۔ خوب گرمجوشی سے گلے ملے ۔فون مسلسل بج رہا تھا، مبارکبادیں وصول کر رہے تھے۔ان کے ہی ایک پرانے ساتھی رانجھا صاحب لندن سے پان اور سیگریٹ کے ساتھ شمع محفل تھے۔ ان سے ملکر ہمیں یوں لگا جیسے ہمارے بھی پرانے ساتھی ہوں۔ وہ عرصہ دراز سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ پوچھا آپ برطانوی کمیونٹی کے کتنے قریب ہیں؟ کس کس کو جانتے ہو؟ کہا کوئی نام لیں کہا کبابش کے اونر افتی اور امجد کے کیا فون مل سکتے ہیں۔۔بتایا کہ میری آخری ملاقات ان دو دوستوں سے 1986 میں لندن گرین سٹریٹ میں ان کی پہلی کبابش رسٹورینٹ کی برانچ کے افتتاح کے موقع پر ہوءتھی۔ میں ان کی خوشیوں میں شامل ہونے کیلیے امریکہ سے آیا تھا۔ رانجھا صاحب نے دونوں دوستوں افتی اور امجد کو فون ملانا شروع کر دیا۔ ثابت کیا کہ آپ بھی یاروں کے یار ہیں ۔ میں نے کہا دونوں میں کسی کا بھی فون نمبر دیں۔ تھوڑی ہی دیر میں لندن سے امجد کا فون آ گیا۔ مجھے یقین نہ تھا کہ اتنے عرصے بعد امجد بھائی مجھے پہچان لیں گے۔ افتی کا بتایا آج اس کے ریسٹورنٹ کی نئی شاخ کا افتتاح ہے۔ وہاں مصروف ہے۔یہ دونوں دوست کم بھائی زیادہ ہیں عام طور پر بزنس میں دوستیاں اتنی دیر چلتی بہت کم دیکھیں ہیں۔لیکن اگر نسلیں اچھی ہوں تو پیسے کو نہیں رشتے کو اہمیت دینے والے سچے کھرے دوست یاریاں نبھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ دونوں کا شمار بھی انہیں دوستوں میں ہوتا ہے۔اب کبابش رسٹورینٹ کی سو سے زیادہ دنیا بھر میں برانچیں ہیں۔ ان میں پیار پہلے سے بھی زیادہ پایا۔ افتی سے تو میری پاکستان میں بہت سی یادیں وابسطہ ہیں۔ اگر میں کہو کہ پاکستان سے باہر جانے کا شوق افتی کی وجہ سے پیدا ہوا تھا تو غلط نہ ہو گا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ کا ویزا نہیں تھا لیکن افتی کے جانے کے بعد میرے پاس امریکا کا ملٹیپل ویزا تھا۔ لندن کے ایتھرو ایرپورٹ پر افتی نے ہی ویلکم کیا تھا۔لندن کی سڑکوں کی سیر وقاض نے کرائی تھی۔ وقاص بعد میں امریکہ پڑھنے چلے آیا۔ پنجاب گورنمنٹ میں وزیر اطلاعات رہ چکا ہے۔ کالم بھی لکھتا ہے۔لندن کا پہلا ڈسکو کلب مجھے افتی نے دکھایا تھا۔ افتی اور امجد نے پہلی برانچ لندن میں جب افتتاح کیا تو مجھے بھی کہا کہ ہمارے بزنس میں تم بھی شامل ہو جا لیکن مجھے برطانیہ کی نسبت امریکہ پسند زیادہ پسند تھا۔ واپس جا کر نیویارک میں ہوٹل مینجمنٹ کیا ۔ اس دوران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرنپ کے ہوٹل ٹرنپ ٹاور مین ہٹن پہنچے پر ہمارے کلاس فیلو کا استقبال صدر ٹرنپ نے ہی کیا تھا۔ ہوٹل مینجمنٹ کرنے کے بعد اگر امریکہ یا برطانیہ میں رہتا تو کسی فائف سٹار ہوٹل کا جی ایم ہوتا۔ لیکن میری والدہ کو ہوٹل کی جاب کرنا پسند نہ تھا جس کی وجہ سے وکالت کا پیشہ میں آیا۔ اس پیشے نے مجھے عزت دی پیسہ دیا شہرت دی۔ دنیا میں سب سے خوبصورت پیشہ میرے نزدیک اب وکالت ہے پروفیشن کوئی بھی برا نہیں ہوتا پروفیشن کو اچھا برا ہمارے اپنے ہی بناتے ہیں۔ پاکستان میں افتی کے ساتھ ایک چاند رات کا واقع یاد آرہا ہے۔اس واقع کے بعد افتی واپس لندن چلا گیا تھا۔ افتی کے ساتھ چاند رات اسلام آباد کی جناح سپر میں منانے کا پروگرام دن کو ہم نے طے کر لیا تھا ۔ افتی کے دوست عدنان نے دعوت دی کہ ہم وہاں مہندی چوڑیوں کا سٹال لگائیں گے ۔ افتی کو انگلش گانوں پر گوروں کے انداز میں ڈانس کرنا آتا تھا۔ ہم دونوں رات گیارہ بجے چھپ کر چاند رات منانے پہنچ گئے۔ عدنان کے والد کرنل تھے اور یہ ضیاالحق کا دور تھا لہذا سٹال لگانے میں عدنان کو کوئی مشکل نہ ہوئی۔چاند رات کو بہت رش تھا۔ افتی کا وہاں پہنچنا ہی تھا کہ ڈیک پر انگلش گانا چلتے ہی افتی نے سٹپ ڈانس جیسے ہی شروع کیا اس سٹال پر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ اس دوران کیڈٹ کالج پٹارو کے نوجوانوں نے بھی افتی کے ساتھ ڈانس کرنا شروع کر دیا۔ پولیس گشت پر تھی۔ اس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ نوجوانوں نے پولیس سے مقابلہ کیا۔ پولیس تعداد، میں کم تھی جس کی وجہ سے پولیس کو بھاگنا پڑا۔ مزید پولیس آنے پر سٹال کو عدنان سمیت پولیس تھانے لے گئی۔ ہمیں بھائی بھی تلاش کرتے ہو ئے مل گئے ہم نے کہا اگر ہمیں عدنان کے گھر لے چلیں تاکہ ان کے گھر والے انہیں تھانے سے گھر لے جاسکیں۔ عدنان کے گھر پہنچے کہا انکل وردی پہنیں اور تھانے چلیں پولیس انہیں پکڑ کر تھانے لے جا چکی ہے۔جب ہم کرنل صاحب کے ساتھ تھانے پہنچے تو پولیس نے سب کو چھوڑ دیا اور سارا سامان بھی لوٹا دیا ۔ اس رات گھر میں ہماری خوب کلاس لی گئی۔ اس کے کچھ روز بعد ہی افتی کو لندن واپس جانے کی اجازت مل گئی۔پاکستان سے جاتے ہوئے افتی نے مجھ سے لندن آنے کا حلف لیا۔ پھر میں نے بھی یاری نبھائیں اور پہلے لندن افتی کے پاس پہنچا پھر امریکا۔ یہ وہ یادیں تھیں جن کو ہم دونوں نے آج فون پر یاد بھی کیا ۔ جس طرح کا اجکل بہاولنگر کا واقع میڈیا پر چل رہا ہے۔اچھا نہیں لگا۔ دعا ہے اس کے بعد ایسے مزید واقعات دیکھنے کو نہ ملیں۔ پولیس اور افواج پاکستان دونوں عوام کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ دونوں کے کندھوں پر اہم ذمہ داریاں ہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے کا احترام کرنا نہایت ضروری ہے۔ جس قسم کی وڈیو دکھائی گئی ہیں۔ انہیں دیکھ کر سر شرم سر جھکا ہے جس نے ایسا کیا ہے اس کے خلاف سخت ایکشن لینا ضروری ہےاس پر جو ۔ایکشن کمیٹی بنی ہے اس کی رپورٹ اوپن کی جائے،انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔ ابھی تو ججز کے خطوط کا مسئلہ حل نہیں ہوا ، الیکشن پر انگلیاں اٹھی ہوئی ہیں۔ یعنی ایک کٹا ہم باندھتے ہیں دوسرا کٹا کھل جاتا ہے کیوں ؟ عوام پہلے سے ہی پریشان حال ہیں۔مظفر گڑھ میں غربت سے تنگ شہری نے سات بچوں اور بیوی کو قتل کر دیاہے عوام کے ساتھ ججز بھی انصاف کی تلاش میں ہیں۔ لہذا ادارے اداروں کا احترام کریں۔ اپنا اپنا کام کریں جو ادارہ غلطی کرے اسے سخت سزا دیں۔اسے بے لگام نہ چھوڑیں۔ اداروں کو اپنی عزت و ساکھ بحال کرانے کے لے سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے ۔ قوم پہلے ہی کنفوزن کا شکار ہے ۔کسی بات کو ہم سمجھتے نہیں، کسی نے بچے سے پوچھا تم تعلیم کیوں نہیں حاصل کرتے ہو ؟جواب دیا کہ تعلیم زیور ہے اور اسلام مردوں کو زیور پہنے سے منع کرتا ہے ۔ جب حالات ایسے ہونگے تو سوچ پھر ایسی ہی پیدا ہوگی۔ سوچ یہ بھی ہے کہ بل گیٹس کو ہمارے بچوں کی ہی فکر کیوں ہے۔ انہیں ہی پولیو کے قطرے پلائں جائیں جب کہ اسرائیل غزوہ میں بچوں پر بم برسا رہا ہے وہاں یہ بل گیٹس خاموش ہے۔ ان بچوں کو مرتا کیوں نہیں دیکھ رہا ہے۔ اس کی انہیں کیوں فکر نہیں پرواہ نہیں۔پاکستان اور دنیا کے ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں جس سے لگتا ہے قیامت قریب ہے۔ تیل بکھرا پڑا ہے تیلی لگنے کی دیر ہے۔ لہٰذا جنت میں جانے کے عملی اقدامات بھی ہمیں کرنے ہونگے۔موجودہ حالات میں ہم پر جنت کے دروازے بند نہیں تو تنگ ضرور ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے