کالم

رویوں میں تبدیلی کی ضرورت

asad mustafa

پرسپیشن یا ادراک وہ قوت ہے جس میں ہم اپنی ذہنی قوت سے کام لیتے ہوئے پیش آنے والی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں، اپنی سوچوں کو مضبوط اور معلومات کو منتخب کرتے اورانہیں مرتب اور موقع محل کے مطابق بیان کرتے ہوئے اور ردعمل کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس قوت سے باہمی تعلق اور گفتگو کو شخصی آرا اور خیالات سے بامعنی بنایا بنایا جا سکتا ہے اور بہتر منصوبہ بندی بھی کی جا سکتی ہے۔یہی سے ہمارا رویہ تشکیل پاتا ہے۔ چنا نچہ اٹیچیوڈ ہماری سوچوں اور ان احساسات و افکار کا نام ہے جو ہمارے ذہن و دل میں اکثر گردش میں رہتے ہیں ۔یہی خیالات اور احساسات جب خارجی طور پر ہمارے برتا اور سلوک میں ظا ہر ہوتے ہیں ہمارا عمل بن جاتے ہیں۔یہ عمل خو بصورت بھی ہو سکتا ہے اور بدصورت بھی،آپ اسے خوش مزاجی اور بدمزاجی دونوں سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔لہٰذا یہ بات طے شدہ ہے کہ ہمارے برتاو¿ اورسلوک کا اظہار ہمیشہ ہمارے رویوں سے ہوتا ہے۔اگر ہم دوسروں سے اپنے سلوک کو بہتر کرناچاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رویے پر کام کرنا اور اسے بہتر کرنا ہو گا۔ہر شخص کو اپنی شخصی بہتری اور ذاتی تاثیر میں اضافہ کیلئے اپنی سوچ اور رویے کو خوبصورت بنانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس کیلئے برتاو¿ اور حسن سلوک کی نشاندہی کرنے کا طریقہ سیکھنا اور مناسب طریقے سے اس کے مطابق اپنی ذہانت کو استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔جب آدمی اپنے رویے کو بہتر بنا لیتا ہے تو اس کا کردار، حسن سلوک کے اوصاف سے بھر جاتا ہے ۔انسانی رویوں کا زیادہ تر تعلق انسانی نظریات اور عقائد کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے رویے انسان کے طرز عمل میں زیادہ مستحکم نہیں ہوتے بلکہ عقائد اور افکار وخیالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے عقائد اور نظریات کی بنیاد پر تعلقات بناتے اور انہیں سدھارتے ہیں تو ہماری شخصیت میں توازن پیدا ہوتا ہے اور عدم یکسانیت ختم ہو جاتی ہے اور ہم بہتر اخلاقیات کا مظاہرہ کرنےکی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ہمارا دوسروں کے ساتھ رویہ اورسلوک بھی تبدیل ہو کر بہتر ہو جاتا ہے۔بڑوں کےساتھ ہمارے سلوک میں سب سے زیادہ اہمیت انکا احترام کرنے،انکا حکم بجا لانے اور ان کی خواہشات اور ضرورتوں کا خیال رکھنے کا ہے جب کہ اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ برتا و¿میں سب سے زیادہ اہمیت ان کے ساتھ پیار بھرا انداز اپنا نے، ان کی اچھی تربیت کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے کا ہے ۔ بچہ کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔اس کے والد ین کا ہر عمل اور استاد کی ہر بات اس پر گہرا نقش چھوڑ جاتی ہے اس لیے آپ کو اپنے برتاو¿ اورطرز عمل میں تبدیلی کے متعلق آگاہ ہونا چاہئے اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔میاں بیوی میں ایک خاص رشتہ ہوتا ہے۔یہ رشتہ دھاگے سے زیادہ کچا بھی ہے اور پہاڑوں سے زیادہ مضبوط بھی،اس میں باہمی طنز و تشنیع اور اعتماد کی کمی اکثر بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔شادی کے بعد لڑکی لڑکے کو ایڈجسٹ ہونے میں تو دیر نہیں لگتی لیکن لڑکی کا سسرال اسے بہت جلد قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ وہاں لڑکی کو اپنے حسن سلوک سے جگہ بنانی پڑتی ہے۔اگر ایسا کچھ نہ ہو سکے تو میاں بیوی کی زندگی عذاب بن جاتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اگر شادی کے بعد لڑکے لڑکی کو الگ کر کے خود مختار کر دیا جائے تو بے شمار خاندانی جھگڑو ں جہاں نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ رشتہ داروں میں بھی بے شمار مسائل اپنے رویوں پر کام کر کے حل کئے جا سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے کسی رشتہ دار کے ساتھ اختلافات ہیں اور معاملات جھگڑے کی صورت اختیار کر سکتے ہوں,افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرنے کے ارادہ کےساتھ تو دوسروں کو معاف کرنےکی نیت سب سے پہلے کریں اور پھر زبان سے بھی دہرائیں کہ میں نے اسے معاف کیا ہے۔یہ ذہن و دل کی ہم آہنگی الفاظ کی صورت میں جب آپ کی زبان سے ادا ہو گی تو آپ کی شخصیت میں مثبت تبدیلی پیدا ہو گی اور اس مسئلہ کا حل بھی نکل آئےگا اور آپ کا رویہ بھی اس شخص سے بہتر ہو جائےگا۔ رویے پر یہی کام دوستوں اور پڑوسیوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔دفاتر چاہے سرکاری ہوں یا نیم سرکاری ، وہاں باس سے ملازمین کی ان بن ضرور رہتی ہے۔ چند ایک افراد جہاں اس کے قریب ہو تے اور اسے پسند کرتے ہیں تو وہاں بہت سے افراد اسے نا پسند بھی کر رہے ہوتے ہیں۔چونکہ باس نے ہر ایک شخص سے کام لینا ہوتا ہے اس لیے اس کا رویہ درست اور سخت بھی ہو سکتا ہے ۔ اس لیے اس وقت بھی کسی ناپسندیدہ صورتحال سے نرمی مزاجی اور اپنے رویے کو بہتر کر کے بچا جا سکتا ہے۔ ہمارے سیاسی اکابرین بھی رویوں کی کجی کا شکار ہیں ۔انہیں عوام اور ملک کی ترقی کی خاطر ایک دوسرے کےساتھ رویے درست کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔کسی بھی نیکی اور اچھائی کا عمل اس وقت تک شروع نہیں ہوسکتا جب تک آپ اس کے متعلق سوچتے نہیں ہیں اور اس کا ارادہ نہیں کرتے ۔ ارادے کے بعد ہی آدمی کسی عمل کی طرف قدم اٹھاتا ہے۔سکون کی کیفیت کا آغاز نیکی اور اچھائی کے ارادے سے شروع ہو جاتا ہے لیکن طمانیت واطمینان کی تکمیل وہ خوبصورت قدم اٹھا لینے کے بعد ہوتی ہے۔اسی لیے نیک اور اچھے اعمال کا تسلسل شخصیت کا حصہ بن کراس کی جاذبیت اور خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں اور برے اعمال شخصیت کی ظاہری وباطنی بد صور تی پر منتج ہوتے ہیں۔ ہمارے دین اسلام میں اس حوالے سے بہت خو بصورت احکامات ملتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف ہے کہ ”اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے“اس حدیث سے ظاہر ہو ہوتا ہے کہ اچھی اچھی نیتوں کی قدروقیمت اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri