کالم

رہائشی مکان کی تعمےر ،اےک کٹھن مرحلہ

اگ رہا ہے درودےوار پہ سبزہ غالب
بےاباں مےں ہےں اور گھر مےں بہار آئی ہے
شاےد غالب کا گھر بھی بے درو دےوار تھا کےونکہ جھونپڑےوں اور کچے گھروندوں مےں جس طرح موسم کی سختےوں کا احساس و ادراک ہوتا ہے اونچے محلوں مےں رہنے والے ان کے درد سے آشنائی نہےں رکھتے ۔ہمارے لےڈران مےاں نواز شرےف اور عمران خان کا رائے ونڈ اور بنی گالہ مےں کہنے اور سننے مےں تو اےک مکان ہی ہے لےکن اس رقبے پر تو کئی بستےاں تعمےر کی جا سکتی ہےں ۔مکان بہر حال اےک ضرورت ہے ۔ہر انسان اپنی زندگی مےں شدت سے خواہش کرتا ہے کہ مےرا ذاتی مکان ہو ۔وہ جو اےک نےک و پارسا حضرت نوح کی داستان ہے جنہےں اےک طوےل زندگی عطا ہوئی انہوں نے سےنکڑوں سال اےک جھونپڑی مےں گزار دئےے ،جب فرشتہ اجل جان لےنے کےلئے حاضر ہوا تو استفسار کےا کہ آپ نے دنےا مےں اےک طوےل زندگی گزارنے کے باوجود اپنا ذاتی مکان کےوں نہےں بناےا ۔۔۔؟ انہوں نے جواب دےا کہ مےں اتنا عرصہ تمہارا ہی منتظر رہا کہ نہ جانے آپ کب آ موجود ہوں ۔اس لئے اس طرف توجہ نہےں دی ۔وہ تو اےک برگزےدہ شخصےت تھی ۔ہم تو گنہگار ٹھہرے جو مکان بنانے کا ارادہ کر بےٹھے ۔راقم اپنے جس پرانے مکان مےں رہائش پذےر تھا وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مرمت بھی ضروری تھی لےکن راقم ہمےشہ اس سے غافل رہا کےونکہ
کون اس گھر کی دےکھ بھال کرے
روز اک چےز ٹوٹ جاتی ہے
پرانے مکان کے دروازوں کو بھی دےمک نے لقمہ بنا لےا تھا ۔اےنٹےں خستہ حالی کا نوحہ پڑھ رہی تھےں ،لوہے کے دروازے زنگ نے چاٹ لئے تھے جس طرح انسان بےمارےوں کا شکار رہتا ہے اسی طرح عمارت ،قوم اور زمےن کو بھی امراض لاحق ہو جاتے ہےں ۔وطن عزےز مےں تبدےلی کے دعوے کرنے والے تو ملک مےں کوئی انقلابی تبدےلی لانے سے عاجز رہے لےکن ہم نئے مکان کی تعمےر کی شکل مےں رہائشی تبدےلی کےلئے کمر بستہ ہو گئے ۔کئی عزےزوں اور دوستوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ دےکھو ہم مکان کا پراجےکٹ شروع کرنے کے بعد زمےن بوس ہو چکے ہےں ،تم اسے شروع کرنے سے قبل ہزار بار سوچنا ۔راقم جواب دےتا کہ نئے مکان مےں رہنا ہمارا دےرےنہ خواب تھا جس کی تعبےر آپ عنقرےب دےکھےں گے ۔
ہمارے خواب کا لکھا بدل بھی سکتا ہے
وہ خواب ہے تو حقےقت مےں بدل بھی سکتا ہے
دوست احباب بہ اصرار تلقےن کرتے
ےہ آرزو بھی بڑی چےز ہے ہمدم
وصال ےار فقط آرزو کی بات نہےں
پختہ ارادے بھلا کب ٹوٹتے ہےں کہتے ہےں کہ ضرورت اےجاد کی ماں ہے ۔ہم اس اےجاد کو قائم کرنے پر تلے بےٹھے تھے ۔راقم نے راج(مکان تعمےر کرنے والے) کو مشورہ کےلئے بلاےا ۔بعض پےشے تو اب سرے سے مفقود الخبرہو چکے ہےں لےکن ےہ راج ابھی تک اپنے سفر پر رواں دواں ہےں ۔ےہ راج اکثرےت مےں ان پڑھ اور کسی انجنئےرنگ ےونےورسٹی کے فارغ التحصےل نہےں ہوتے ۔جس راج کو مشورہ کےلئے بلاےا وہ ہمارا پرانا ملنے والا تھا ۔راج صاحب سے مشورہ کےا کہ تےن چار کمروں کے مکان پر کتنا خرچ اٹھ جائے گا ۔انہوں نے زمےن پر چند لکےرےں کھےنچ کر مسکراتے ہوئے کہا کہ تےن لاکھ لےکن زےادہ سے زےادہ چار لاکھ مےں کام مکمل ہو جائے گا لےکن شومئی قسمت کہ ہم ان کی اس وقت کی مسکراہٹ کو نہ بھانپ سکے ۔بقول شاعر
تمہارے دعوے کی جو حقےقت ہے
تمہارے طرز تبسم سے آشکارا ہے
گرمی کے سخت گرم موسم مےں جب سورج اپنے پنجے سمےٹنے پر کسی طرح آمادہ نہ تھا اور انگےٹھی کی طرح دہک رہا تھا ،ہم پسےنے مےں شرابور سورج کی قہر بار نگاہ کی پرواہ کئے بغےر مکان کی تعمےر مےں جت گئے ۔مکان تو ہم تعمےر کروانے چلے تھے بڑے جذبے اور جوش سے لےکن جب اس مےں ہاتھ ڈالا تو تو معلوم ہوا کہ اس پر خرچ تو ہمارے تصور سے بھی بالا تھا ۔سوچا وہی لوگ اچھے تھے جو پرانے وقتوں مےں چھوٹے چھوٹے گھروں کے مکےن ہوتے ، سارے گھر مےں لٹرےن ،ندارد ،فطری حاجات کےلئے باہر کھےتوں کا رخ کےا جاتا ۔ان کے زمانہ مےں آج جےسے عالیشان گھر اور آسائشوں سے بھرپور زندگی کہاں تھی ۔اے سی کا نام کسی نے سنا تک نہےں تھا ۔لوگ اپنے گھروں کی چھتوں ےا اپنے مکان کے صحن مےں سوتے تھے ۔اس وقت ہر چےز سستی تھی لےکن غرےب کےلئے اس وقت بھی مکان کی تعمےر اےک خواب تھا ۔اب جبکہ سستائی کو مہنگائی کا دےو چٹ کر چکا ہے اور ہر روز تےزی سے نگل رہا ہے ۔شاےد وہ وقت جلد آنے والا ہے جب اےک مکان اےنٹ ،سےمنٹ ، سرےے اور تےاری سمےت اربوں مےں تےار ہو گا ۔ ہمارے سےاسی لےڈران تو اےسا وقت آنے پر ان ممالک کی جانب کوچ کر جائےں گے جن کے بےنکوں مےں ان کی بڑی بڑی رقوم جمع ہوں گی اور ملک کے عوام اذےت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے ۔آج بھی پاکستان کے بد نصےب معاشرے مےں جہاں اشرافےہ کی قزاقےوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہےں ،جب چاہے اندھی اور سفاکانہ مفاد پرستی کے تحت سےمنٹ ،بجری ،اےنٹوں اور سرےے کی قےمتوں مےں اچانک اور من مانا بلا جواز اضافہ کر دے ،گندم آٹے اور چےنی کا بحران پےدا کر دے ،کوئی عناں گےر نہےں ،نہ ہی ان سماج دشمن عناصر کے خلاف کوئی آئےنی ،قانونی اور عدالتی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے ۔ہمارا حال تو اس بڑھےا جےسا ہے جو اپنا سارا اثاثہ لےکر مصر کے بازار مےں ےوسف کو خرےدنے کےلئے ”سوت کی اےٹنی“ لےکر چلی تھی ۔ ان ماہرےن تعمےر ےعنی راج اور مزدوروں پر کام کے دوران نظر رکھنا تا کہ کام کے دوران میٹیریل کا صحےح استعمال کرےں ،ہمارے ذمہ تھا ۔گورنمنٹ کی طرف سے تعمےر کردہ عمارتوں ،پلوں اور سڑکوں کی عمر کم از کم پچاس سال تو ضرور ہونی چاہئےے لےکن ہمارے ےہاں پل ،عمارتےں اور سڑکےں کبھی اپنی عمر پوری نہےں کرپاتے بلکہ وقت سے پہلے ہی گر کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہےں ۔اگر تعمےر مےں کرپشن اور ملاوٹ کی جاتی تو مغل بادشاہ کی بنوائی ہوئی شاہی مسجد کب کی زمےن بوس ہو چکی ہوتی ۔مکان تو زندگی مےں بمشکل اےک بار ہی بنواےا جا سکتا ہے ۔اےک سردار جی پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے ہو کر نےچے کودنے کی تےاری کر رہے تھے ،قرےب سے گزرتے ہوئے اےک نوجوان نے انہےں اچانک دبوچ لےا ۔سردار صاحب تھے کہ ہاتھوں سے نکلے جا رہے تھے ۔سردار جی آپ کےا کر رہے ہےں ،نوجوان نے پوچھا ،سردار جی نے غصے سے جواب دےا مجھے روزگار نہےں مل رہا جس کے باعث مےں ابھی تک مکان بنوانے کے قابل نہےں ہو سکا اور شادی سے محرومی مقدر بن چکی ہے ۔مےں دو خود کشےاں کرنا چاہتا ہوں ۔نوجوان نے مسکرا کر پوچھا ،آپ تو پہلی خود کشی مےں مر جائےں گے پھر دوسری خود کشی کس طرح کرےں گے ؟ سردار جی نے پہاڑ سے انگلی نےچے کرتے ہوئے کہا ،وہ دےکھو درےا بہہ رہا ہے ،مےں جمپ لگا کر درےا مےں خود کشی کروں گا پھر تےر کر نکلوں گا اور پھر اسی پہاڑ سے دوسری بار خود کشی کروں گا ۔تو قارئےن ہم اپنے لئے گوشہ امان ےعنی مکان کو خلد بنانے پر تلے بےٹھے تھے لےکن ہماری پرواز راستے مےں ہی ختم ہو گئی ۔خدا خدا کر کے دےوارےں لےنٹر تک پہنچ گئےں ۔اسی اثنا مےں راج صاحب نے سامان کی اےک نئی فہرست پکڑا دی ہم دم بخود تھے ۔
سانس دےکھی جو تن بسمل مےں آتے جاتے
اےک اور چرکا دےا صےاد نے جاتے جاتے
اس وقت ہماری مالی پوزےشن تو اس نہج پر پہنچ چکی تھی ۔
ہم نشےنو! تم سے اب دل طالب انصاف ہے
جےب کو مےں نے ٹٹولا تو مطلع صاف ہے
آخر کار ہم اس نتےجے پر پہنچے کہ اپنے خانہ خلد ےعنی مکان کی تعمےر مرحلہ وار کی جائے ۔اب ہمارا نئے مکان کی تعمےر کا ارادہ رکھنے والے احباب کو ےہی سندےسہ ہے کہ
نہاےت سوچ سمجھ کر کوچہ الفت مےں قدم رکھنا
گھڑا کچھ اور کہتا ہے بھنور کچھ اور کہتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے