کالم

زمانہ حسد سے خالی نہیں

ٓآپ اس بات کو مانیں یا نا مانیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارے معاشرے کو تباہی تک پہنچانے میں جہاں دیگر وجوہات ہیں وہاں کرپشن کا اہم کردار بھی ہے۔بڑے لوگوں نے اس شعبے کو ترقی کی منازل تک پہنچایا اور پھر ہر طبقے کے لوگ بیک ڈور سے کامیابیوں کی راہ تلا ش کرنے لگے۔اخلاق کردار،مثبت سوچ اپنی موت آپ مر گئے۔کہا جاتا ہے جنہیں مواقع نہیں ملتے وہ اخلاقی کردار وغیرہ کی باتیں کرتے ہیںدولت نہیں کمائیں گے تو معاشرے میں مقام کیسے مل سکتا ہے۔بڑے بڑے گھر گاڑیاں بے دریغ خرچ کےلئے دولت جس کے پاس نہیں وہ اپنی کمزور حیثیت کو چھپانے کےلئے لکچر جھاڑتے رہتے ہیں ۔ معاشرہ ایسے لوگوں پر نہ تو توجہ دیتا ہے اور نہ ہی ان کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم نے پچھتر سالوں میں کیا گنوایا اور کیا حاصل کیا۔میرے خیال میں ہم نے بہت کچھ گنوایا ہے ملک معاشی طور پر اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ ایک اطلاع کے مطابق تقریبا آٹھ سو پچاس کھرب روپے کا ملک مقروض ہے کروڑوں روپے ادھار کی رقوم اتارنے کی مد میں دینے پڑتے ہیںاور یہ قرض ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ہر سال اس کی تہہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ایسی حالت میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ حیران ہوں دل کو روووں کہ پیٹوں جگر کو میں، مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں۔ ملک جسے لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا دن بدن تنزلی کا شکار ہی ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتیں بھی ملک کی معاشی حالت کو ٹھیک نہیں کر سکیں وجوہات اور حالات حکومتوں کے قابو میں نہیں آسکے۔ عام آدمی کو ان باریکیوں کا پتہ نہیں ہوتا انہیں دو وقت کی روٹی سستے داموں میسر ہونی چاہئے ورنہ مردہ باد اور زندہ باد میں فرق جلد ختم ہونے کے قریب ہوجاتا ہے ۔ آجکل عام آدمی کے شب و روز بہت ہی مشکل میں ہیںآمدنی اور اخراجات میں جو فرق ہے اس گیپ کو پورا کرنا مشکل ترین عمل بن چکا ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیا کیا جائے سفید پوش طبقہ حالات کے شکنجے میں اس قدر دبوچا جا چکا ہے کہ تو بہ ہی بھلی نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ حکومت چاہے عارضی ہو وقت گزارنے والی ہو یا پانچ سال والی جو اکثر اوقات مدت پوری کرنے کی خواہشمند رہتی ہے معاشی حالات بہتر بنانے کی توقعات دل ہی دل میں رکھتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ اس وقت جتنی بھی سیا سی جماعتیں بھڑکیں مار رہی ہیںاپنے اپنے دور حکومت میں ایسے حالات پیدا نہیں کر سکیں کہ تاریخ انہیں یاد رکھتی ۔ انتخابات جب قریب آتے ہیں تو سیاسی جماعتوں کو اپنا منشور اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس منشور میں ردوبدل سوجھتا ہے تاکہ زبان خلق سے اٹھتا ہوا شور انہیں نہ لے ڈوبے ۔ ہر ایم این اے اور ایم پی اے کروڑوں روپے انتخابات پر خرچ کرتا ہے۔اور پھر کامیابی کی صورت میں انکے دن بدل جاتے ہیںملک کے دن بدلیں یا نہ بدلیں سیاسی نمائندے کے حالات ضرور بدلتے ہیں ،لیڈر ہوگا تو ملک چلے گا اور حالات بدل سکتے ہیںورنہ عام آدمی کے بس میں کچھ نہیں۔ اس کے نصیب میں جو فاقہ کشی ہے اسے کوئی ٹال نہیں سکتاکہا جاتا ہے کہ یہ سب قدرت کی طرف سے ہوتا ہے اور مشیت ایزدی کے مقابل کسی کی مجال نہیںکہ حالات کو بدل سکے۔انہیں صرف صبر کرنا فرض ہے کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور یہ پھل عوام کی جھولی میں وقت مقررہ پر ضرور گرے گاایسے عمل میں دیر ضرور ہے مگر اندھیر نہیں۔سیاسی لیڈروں سے یہ بات کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ ان کے پاس دیکھتے ہی دیکھتے دولت کے انبار کیسے لگ گئے۔ الیکشن پر کروڑ لگاو اور سو کروڑ کماوترقیاتی فنڈ ان کی جھولی میں ضرور گرنا ہوتا ہے اور پھر آٹے میں نمک کے برابر عوامی سکیموں پر خرچ ہوتا ہے اور باقی لیڈر کی زندگی کی ترقی پر ، ایسے شخص کو اپنے عہدے اور معاشرتی اہمیت کی مطابقت میں پیسہ چاہیے ہوتا ہے لہٰذا اسے عوامی امنگوں کا خیال رکھتے ہوئے بلکہ نا چاہتے ہوئے بھی پیسہ زہر مار کرنا پڑتا ہے کوئی ادارہ ان سے خوشحالی کے راز نہیں پوچھ سکتا نہ ووٹر میں اتنا دم خم ہوتا ہے کہ لیڈر سے پوچھے کہ بھائی صاحب آپ اتنے جلدی امیر کیسے ہو گئے فیکٹریز اور ملیں لگانے والے تو امیر کبیر ہوتے ہیں اور ان کی امارت میں اضافے کی کئی وجوہات ہوتی ہیںلیکن سیاسی لوگوں کی خوشحالی عوامی امنگوں کی مرہون منت ہوتی ہے پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہے کہ وہ مسلسل لٹتے چلے جارہے ہیں اور لوٹنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں انکی موجیں لگی ہوئی ہیں انتخابات کے دنوں میں لیڈر ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے بڑی محبت سے گھر کے سربراہ سے حال پوچھتے ہیں پھر اپنا اور فیملی کا ووٹ اسے دینے کی درخواست کرتے ہیں پھر جب وہ کامیاب ہو جائیں تو انکی گردن میں سریا آجاتا ہے انہیں ملنا یا عوامی مشکلات کو بیان کرنے یا ان موضوعات کو یاد دلانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ لیڈر کو اپنا گھر وسیع رقبے پر لے جانے کی سوچ ہوتی ہے اور گاڑی کا ماڈل تبدیل کرنا ضروری ہو جاتا ہے بچے غیر ممالک میں اعلیٰ تعلیم کےلئے جانا بھی ضروری ہے اور فیملی کےلئے دیار غیر کا پھیرا بھی لازمی ہوجاتا ہے۔اتنے اہم امور میں اپنے حلقے کے مسائل کو حل کرنیکا نہ تو ان کے پاس وقت ہوتا ہے اور نہ عوام کو ملنے کےلئے گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے ٹائم ہوتا ہے ۔ عوام میں طرح طرح کی موسمیاتی بیماریوں کا رحجان عروج پر ہوتا ہے اس لیے اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے صحت ہوگی تو لیڈر کام کرسکتا ہے ۔ اکثر لیڈر بیماری کی وجہ سے ملک سے باہر جا کر علاج معالجے کو ترجیح دیتے ہیںکیونکہ تحقیق کے ذریعے ادویات اور طبی مراعات کا معیار جو غیر ممالک میں ہے اپنے ملک میں کہاں۔ عوامی خدمت کے جذبے کو کبھی ماند نہیں پڑنا چاہیے اس لئے لیڈر نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اپنی نسل کی زندگیاں بھی عوامی خدمت کےلئے وقف کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا ہوکے مصداق وہ اپنی اولادوں کو بھی عوامی خدمتگار بناتے ہیںتاکہ خدائی خدمتگاروں کی کمی نہ ہو اورانہیں سلام کرنے والو ں کی تعداد میں بھی کمی نہ ہومسائل قومی ہوں یا ملکی یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود حل ہوجاتے ہیںان کےلئے سوچنا بیوقوفی ہے عوام تو مسائل کا گڑھ ہیںاک مٹھی چک تے دوئی تیار یہ تو نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ذاتی ترقی اور خوشحالی کے لئے حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے حالات بہتر ہوں تو پھر انہیں ایک درجہ بلکہ کئی درجے بڑھانا فرض اولین ہونا چاہیے۔ آجکل کا زمانہ حسد سے خالی نہیں بلکہ حسد بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اس لئے اول خویش بعد درویش والی کہاوت پر عملی ہونا چاہیے ۔ جن گھروں کے بالغ افراد سیاست میں ہیںان پر فرض ہے کہ وہ سیاسی انڈسٹری کو فروغ دیںایک لگائیں تو دس ملیں گے اس کاروبار میں مالی نقصانات ہونے کا احتمال نہیں ہوتا ۔حکومت عوامی کاموں کو سرانجام دینے کےلئے فنڈز ضرور تقسیم کرتی ہے اور پھر اس سلسلے میںزیادہ پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی کہ فنڈکہاں اور کیسے خرچ کئے گئے لہٰذا پولیٹیکل انڈسٹری کے فروغ کےلئے تجربہ کار سیاستدانوں کی خدمات نمایاں ہونی چاہئیں ۔ نئے آنےوالوں کےلئے وقت اور پرانے سیاسی قائدین کی شاگردی اور ا ن کے اعمال ، افکار سے مستفیض ہونا اگر ضروری نہیںتو مشاورتی طرز عمل کا اختیار کرنا بھی سودمند ہے ۔ آجکل نڈسٹری لگانے کےلئے سو طرح کے بکھیڑے ہیںسیاسی انڈسٹری ان تمام الجھنوں سے آزاد ہے دولت قدم چومتی ہے اور سلام کرنےوالوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے، وٹامن کی گولیوں سے زیادہ سیاسی زندگی کے فوائد ہیں ، راہ پیا جانے یا وا پیا جانے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے