کالم

زندگی کی حقیقت

زندگی خوبصورت ہے، حسیں ہے جسے کوئی کھونا نہیں چاہتا۔ یوں کہہ لیجیے کہ کوئی مرنا نہیں چاہتا مگر موت کا دیوتا ہے کہ ہر ایک کو دبوچ لیتا ہے۔ میں آرام کرسی پر اخبار کی ورق گردانی سے فارغ ہوا تو دھوپ کا لطف لینے لگا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ آج اگر میں ابدی زندگی کی جانب لوٹ جاں تو کیا ہوگا؟ میرے احساسات و محسوسات کیا ہوں گے؟ میں کوشش کے باوجود اپنے لب نہیں کھول پاﺅں گا کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ میرے ارادے اور حسرتیں کیا تھیں؟ میرے مرنے کے بعد بھی دھوپ اپنی تمام تر رعنائیوں کے چمکے گی۔ زندگی کی چہل پہل جاری رہے گی۔ چاند ستارے وقت پہ نکلیں گے اور آسمان پر جگنوﺅں کی طرح ٹمٹمانے لگیں گے۔ میری موت کا وہ دن مگر گھر والوں کے لیے ضرور مشکل ہوگا۔ میرا لاشہ ایک جانب پڑا ہو گا اور میرے اپنے میرے ابدی سفر پر روانہ ہونے پر آہ و بکا کر رہے ہوں گے۔ دوست احباب کو اطلاع دی جا رہی ہوگی، کچھ لوگ فیس بک پر میری وفات کے اعلان کے بعد اس بارے میں اپنے دکھ کا اظہار کر رہے ہوں گے۔ کچھ فون پر تعزیت کریں گے اور کچھ آخری وقت پر آئیں گے جب جنازہ اٹھایا جا رہا ہوگا یا نماز جنازہ کے لیے صفیں باندھی جا رہی ہوں گی۔ اور بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو اس وقت آئیں گے جب تدفین مکمل ہو چکی ہو گی تاکہ رسمِ دنیا نبھائی جا سکے۔ صدیوں سے دھرائے جا رہے تعزیتی کلمات کا تبادلہ ہوگا۔ گھر میں اپنوں پر قیامتِ صغری بیت رہی ہوگی مگر بہت سے لوگ کھانے پر بات کر رہے ہوں گے، کچھ تعریف اور کچھ اس میں نقص نکال رہے ہوں گے۔ اور پورا دن اسی طرح بھاگ دوڑ میں گزرے گا۔ رات کو تھکے ہارے سب سو جائیں گے تو اپنے قریبی قران مجید کی تلاوت کریں گی جب کہ بہت سے خوش گپیوں میں مصروف رہیں گے۔ اگلے روز قل کا ختم ہوگا، ایصالِ ثواب کی مجلس ہو گی اور بس۔سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں گے اور میرے اپنے گھر میں کچھ روز سوگ کی کیفیت رہے گی اور پھر سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جائیں گے اور کچھ عرصہ بعد بھول بھی جائیں گے۔ میں تو مر گیا، میرے بعد کیا ہوگا؟ مجھے یہ سردرد لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کبھی کسی نے سوچا ہے کہ موت اللہ تبارک تعالی کے جلیل القدر پیغمبروں اور ہستیوں کو بھی آئی اور وہ لوگ جو ساری زیست خدا کے احکامات کی حکم عدولی کرتے رہے، وہ بھی موت کے دیوتا سے نہ بچ سکے۔ میرے مرنے کے بعد بھی یہ دھوپ اسی طرح نکلے گی۔ چاند ستارے بھی آسمان پر اپنی محفل جمائیں گے۔ یہ سمندر بھی ایسے ہی بہتے رہیں گے۔ دریاﺅں کا پانی رواں دوراں رہے گا۔ پہاڑ سحر طاری کرتے رہیں گے۔ انسان تو چاند کے بعد مریخ پر جانے کے لیے کوشاں ہیں مگر چاند اپنی جگہ پر ہی کھڑا ہے۔ ماﺅنٹ ایورسٹ اور کے ٹو کو سر کرنے والے بہت سے کوہ پیما تو منوں مٹی تلے دب گئے کیوں کہ وہ مٹی کا خمیر تھا مگر یہ عظیم پہاڑ آج بھی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔ ہر انسان ہمیشہ جینے کی تمنا لیے ہوئے ہے، اس کے لاشعور میں یہ خیال رہتا ہے کہ باقی سب مر جائیں گے مگر وہ زندہ رہے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے، ہر ذی روح کو مرنا ہے، کوئی دولت کے انبار چھوڑ کر مرتا ہے تو کوئی فقیر مرتا ہے مگر زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ امتِ محمدی ﷺ میں سے ہونے کے ناتے ہم قیامت پر یقین رکھتے ہیں جب جزا و سزا کا حساب ہو گا۔ یہی حقیقت ہے چناں چہ اپنی تیاری مکمل رکھو تاکہ پراعتماد ہو کر موت کا سامنا کرو۔ تیاری ہو گی تو اگلے جہاں میں بھی کامیابی ملے گی۔ تیاری کے بغیر تو نقل کا امکان بھی نہیں ہوگا اور فیل ہونا ہی مقدر ٹھہرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے