مولانا ابوالکلام آزاد رقمطراز ہیں ”تاریخ اسلام میں حضرت امام حسین کی شخصیت جو اہمیت رکھتی ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔خلفائے راشدین کے بعد جس نے اسلام کی دینی ،سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر ڈالا وہ ان کی شہادت کا عظیم واقعہ ہے ۔بغیر کسی مبالغہ کے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثہ پر نسل انسانی کے اس قدر آنسو بہے ہوں جس قدر اس حادثہ پر بہے ۔چودہ سو برس کے اندر چودہ سو محرم گزر چکے اور ہر محرم اس حادثہ کی یاد تازہ کرتا رہا ہے ۔حضرت امام حسین کے جسم خونچکاں سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہا تھا اس کے ایک ایک قطرہ کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم و الم کا ایک ایک سیلاب بہا چکی ہے ”۔حضرت امام حسین اور ان کے خانوادہ کی شہادت اسلامی تاریخ کا اہم واقعہ ہے بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں ایسی روشن مثال نہیں ملتی جہاں اہل حق کی مٹھی بھر جماعت باطل کے مقابلے پر جہاد کرتے ہوئے شہادتوں کے تاج پہن کر آنے والی نسلوں کیلئے ہزاروں حکمتوں کے پردے وا کر دیتی ہے ۔آپ نے میدان کربلا میں فرمایا میں نہ تو اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں کسی بزدل کی طرح دوں گا اور نہ ہی کسی غلام کی طرح میدان سے بھاگوں گا ۔میری تربیت حق کا علم بلند کرنے کیلئے ہوئی ہے اور برائی کے خاتمہ کیلئے ۔امام حسین سے جب یزید کی بیعت مانگی گئی تو آپ نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا ”مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا”۔اس سے آگے یزید کی خباثت ،فسق و فجور ،شراب نوشی ،اسلامی تعلیمات کا سر عام مذاق اڑانے وغیرہ کا تذکرہ کیا ۔اس کے بعد اپنا تعارف کراتے ہوئے ارشاد فرمایا ،میں رسولۖ خدا کا نواسہ اور علی مرتضیٰ کا بیٹا ہوں ۔قرآن پاک میں آیت تطہیر ہماری شان میں اتری ہے ۔اسلام اور شعائر اسلام کو بچانے کیلئے امام کے پاس قیام کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا ۔اگر نعوذباﷲ یزید کی خواہش کی تکمیل تو درکنار اس پر خاموشی ہی اختیار کی جاتی تو گویا اس کے کردار و عمل کی ایک طرح سے خاموش توثیق ہو جاتی جو حسین ابن علی جیسے پیغمبر زادے سے ممکن ہی نہیں تھا ۔امام حسین نے بیعت مانگے جانے کے بعد اٹھائیس رجب کو مدینہ چھوڑ دیا تا کہ امن کی علامت شہر مدینةالنبی میں پیغمبر زادے کا خون نہ ہو ۔آپ اپنے اہل خانہ ،اپنی ہمشیرہ حضرت زینب سلام اﷲ علیہ ،دیگر خواتین اور بچوں کو ساتھ لیکر مکہ مکرمہ روانہ ہوئے ۔مکہ میں آپ نے احرام باندھا تا کہ حج ادا کریں اور حج کے بعد آگے روانہ ہوں لیکن آپ کو ایک سازش کی اطلاع ملی کہ دمشق سے کچھ لوگوں کو روانہ کیا گیا ہے جو دوران طواف ہجوم میں آپ کے مقدس خون سے حرم کعبہ کو رنگین کردیں گے ،اس طرح قتل کے الزام سے براہ راست یزید اور یزیدی بچ جائیں گے ،بعد ازاں سرکاری مورخین کے ذریعے اس واقعے کو کوئی اور رنگ دے لیا جائے ۔امام علیہ السلام کو جب یہ اطلاع ملی تو آپ خانہ کعبہ کے پاس گئے ،کعبے کے غلاف کو پکڑ کر فرمایا ،میں نہیں چاہتا کہ یہ حرم کعبہ جہاں مچھر اور مکھی مارنا بھی جائز نہیں ،میرے خون سے رنگین ہو جائے اس لئے مجبوراً میں روانہ ہو رہا ہوں ۔آپ احرام کھول کر دو ذوالحجہ کو کوفہ کیلئے روانہ ہوئے ۔آپ نے کوفہ کے حالات معلوم کرنے کیلئے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا ۔انہیں شہید کر دیا گیا ۔مقام ایک پر اپنے خطبے میں اسلام کی حرمت برقرار رکھنے کے اپنے عزم و ارادہ کچھ یوں بیان کیا اے لوگو!رسول کریمۖ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے کہ وہ ظلم کرتا ہے ،اﷲ کی قائم کی ہوئی حدیں توڑتا ہے ،سنت نبوی کی مخالفت کرتا ہے ،اﷲ کے بندوں پر گناہ اور سر کشی سے حکومت کرتا ہے اور یہ دیکھنے پر بھی نہ تو اپنے فعل سے اس کی مخالفت کرے ،نہ اپنے قول سے تو اﷲ ایسے آدمیوں کو اچھا ٹھکانا نہیں بخشے گا ۔دیکھو یہ لوگ شیطان کے پیروکار بن گئے ہیں اور رحمان کے سرکش ہو گئے ہیں ،مال غنیمت پر ناجائز قابض ہیں ،اﷲ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہراتے ہیں ان کی سرکشی کو حق و عدل سے بدل دینے کا سب سے زیادہ میں حقدار ہوں ۔اے اہل کوفہ تمہارے بے شمار خطوط اور قاصد میرے پاس پیام بیعت لیکر پہنچے ۔تم عہد کر چکے ہو کہ میرے ساتھ بے وفائی نہ کریں گے ۔اگر تم اپنی اس بیعت پر قائم رہو تو یہ تمہارے لئے راہ ہدایت ہے کیونکہ میں حسین ابن علی ابن فاطمہ اور رسول ۖاﷲکا نواسہ ہوں ۔میری جان تمہاری جان کے ساتھ ہے ،میرے بچے تمہارے بال بچوں کے ساتھ ہیں ،مجھے اپنا نمونہ بنائو اور مجھ سے گردن نہ موڑو لیکن اگر تم یہ نہ کرو بلکہ اپنا عہد توڑ دو اور اپنی گردن سے بیعت کا حلقہ نکال پھینکو تو یہ بھی تم سے بعید نہیں ۔تم میرے باپ بھائی اور عم زاد مسلم بن عقیل کے ساتھ ایسا کر چکے ہو لیکن یاد رکھو تم نے اپنا ہی نقصان کیا ہے اور اب بھی اپنا ہی نقصان کرو گے ۔تم نے اپنا حصہ کھو دیا ،اپنی قسمت بگاڑ دی جو بد عہدی کرے گا خود اپنے خلاف بد عہدی کرے گا ۔عجب نہیں اﷲ عنقریب مجھے تم سے بے نیاز کر دے گا ۔ایک اور جگہ خطبہ دیتے ہوئے امام حسین نے فرمایا ”معاملہ کی جو صورت ہو گئی ہے ،تم دیکھ رہے ہو دنیا نے اپنا رنگ بدل لیا ہے نیکی سے خالی ہو گئی ہے ذرا سی تلچھٹ باقی ہے حقیر سی زندگی رہ گئی ہے ہولناکی نے احاطہ کر لیا ہے افسوس، دیکھتے ہیں کہ حق پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔باطل پر اعلانیہ عمل ہو رہا ہے کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ پکڑے ۔وقت آگیا ہے مومن حق کی راہ میں رضائے الہٰی کی خواہش کرے لیکن میں شہادت کی موت چاہتا ہوں ۔ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود ظلم ہے ۔ امام حسین کے خطبوں کا یہ اثر ہوا کہ آپ کے قافلے کا محاصرہ کرنے اور آپ کے گھوڑے کی باگوں میں ہاتھ ڈالنے کی جسارت کرنے والا یزیدی فوج کے ایک دستے کا کمانڈر حر بن یزید ریاحی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ شب عاشور آپ کے پاس آ کر معافی کا طلبگار ہوا اور آپ نے کمال وسعت ظرفی سے اسے معاف کر دیا ،وہ آپ کی طرف سے جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ،قبر حر پہ اے کاش کوئی مصرعہ لکھ دے ،شام ظلمت میں تو جنت میں سحر ہوتی ہے ۔سات محرم کو لشکر یزید نے آپ ،آپ کے اہل خانہ اور بچوں پر پانی بند کر دیا ۔لشکر یزید کے گھوڑے اور دیگر جانور بھی جو پانی پی سکتے تھے ،خاندان نبوت کیلئے بند تھا بکرمی مہینوں کے مطابق یہ جیٹھ کا مہینہ تھا ،تپتے بے آب و گیاء صحرا میں جیٹھ کی گرمی اور پیاس کی شدت سے بچوں ،اہل خانہ اور جانوروں کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔بہر حال ٹھیک آج کے دن دسویں محرم ،اٹھارہ جیٹھ کو تاریخ اسلام کے ماتھے پر یہ بدترین داغ لگا دیا گیا کہ سبط نبیۖ جنہیں پیغمبر اسلام جوانان جنت کے سردار کے طور پر امت کو تعارف کرا چکے تھے ،اپنے ہی نانا کے کلمہ پڑھنے والوں کے ہاتھوں شہید کر دئیے گئے ۔امام حسین نے اسلام کی بقاء اور نظریہ حق کی خاطر ہاتھ کی بجائے سر دے کر اپنا نظریہ اسلام بچا لیا اور قیامت تک کیلئے حریت فکر کے امام ،استقامت کا استعارہ اور انقلابی تحریکوں کے روح رواں بن گئے ۔کربلا کے قافلہ سالار ،سبط رسولۖ اور ان کے 72جانثارساتھیوں نے حق و صداقت کیلئے شہادتوں کی وہ عظیم الشان روائتیں قائم کیں جنہیں آج بھی میرے وطن کی پاک فوج کے روشن چراغ زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔کربلا کے شہیدوں سے لے کر شہدائے وطن کے آخری شہید کا بہاخون کہتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے دین اسلام کی حرمت اور آبرو کو جس طرح بچایا اسلامی تاریخ میں وہ ایک روشن مثال ہے اور اس روشن مثال سے شہادتوں کے دیپ جلتے ہیں اور بقول اقبال یہ ثابت کرتے ہیں کہ
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
کالم
زندہ حق از قوت شبیری است
- by web desk
- جولائی 6, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 13 Views
- 9 گھنٹے ago