کالم

زکواة کی جبری وصولی اور مستحقےن زکواة

زکواة ،عشر اور خمس کی ادائےگی اسلامی معےشت کی بنےادی اکائی ہے ۔زکواة اور نماز دےن کے اےسے ارکان ہےں جن کا ہر دور مےں اور ہر مذہب مےں آسمانی تعلےم کے پےروکاروں کو حکم دےا گےا ہے ۔ےہ دونوں فرےضے اےسے ہےں جو ہر نبی کی امت پر عائد ہوتے رہے ۔لغوی اعتبار سے زکواة کے معنی بڑھوتری اور اضافے کے ہےں اور دوسرے معنی پاک و صاف ہونے کے ہےں ۔شرعی اصطلاح کے مطابق زکواة مےں دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہےں ۔زکواة کی ادائےگی مےں بقےہ مال پاک و صاف ہو جاتا ہے اور عدم ادائےگی سے اس مےں غرباءو مساکےن کا حق شامل رہتا ہے ۔قرآن مجےد مےں عموماً جہاں بھی نماز کا ذکر ےعنی اقامت صلواة کا حکم آےا ہے زکواة کی ادائےگی کا حکم بھی ساتھ ساتھ ہے۔ماہ رمضان مےں زکواة کی اپےل کی درخواستےں اور اشتہار بازی اتنی عام ہے کہ اےسا دکھائی دےتا ہے کہ پوری قوم ہی زکواة کی مستحق ہے لےکن زکواة و صدقات کا استحقاق صرف نادار اور بےمار مسلمانوں کو ہی قرار دےا گےا ہے ۔اےک رپورٹ کے مطابق پاکستانی اےک کھرب سے زائد صدقہ ،خےرات اور زکواة کی مد مےں دےتے ہےں لےکن انفرادی تقسےم مےں سب ضائع ہو جاتا ہے ۔حکومتی و نجی سطح پر ہزار ےا چند ہزار دےنے سے جہاں ہم بھکارےوں کی تعداد مےں اضافہ کر رہے ہےں وہاں سفےد پوش طبقہ کا بھی کچھ نہےں بنتا ۔غربت اور بھوک سے روز افزوں بڑھتی ہوئی خود کشےوں کے انسداد کےلئے اب وسےع پےمانے پر مستقل بحالی کا پروگرام شروع کےا جانا چاہےے ۔ہر سال مقررہ تعداد مےں معقول رقم دے کر لوگوں کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کےا جائے۔اس مقصد کےلئے ملک و معاشرے کے چند نےک نام لوگوں کی قےادت مےں زکواة بےنک قائم کےا جائے جو نجی شعبہ کے وافر وسائل کو منظم انداز مےں استعمال مےں لائے ،وسائل کم نہےں ہےں ضرورت وسائل کے بہتر مصرف اور منظم ترتےب و تنظےم کی ہے ۔اسلامی دنےا مےں شاےد ہمارا ملک ہی وہ واحد ملک ہے جہاں بےنکوں کے ذرےعے ان کے کھاتہ داروں سے زکواة جبراً وصول کی جاتی ہے ۔متحدہ عرب امارات مےں کم و بےش ہر شاہراہ کے اہم مقام پر زکواة کی ادائےگی کےلئے کاﺅنٹر بنائے گئے ہےں جہاں مقامی باشندوں مےں موجود مستحقےن زکواة خاموشی سے آتے ہےں اور اپنا شناختی کارڈ دکھا کر اپنے حصے کی زکواة وصول کر لےتے ہےں ۔کسی کو کانوں کان خبر نہےں ہوتی کہ زکواة دےنے والا کون ہے اور لےنے والا کون ہے ۔البتہ زکواة کاﺅنٹر ےو اے ای حکومت کی معاونت سے قائم کئے گئے ہےں جہاں متعلقہ علاقے مےں موجود اصحاب نصاب اپنی واجب الادا زکواة کی رقم جمع کرا جاتے ہےں ۔اس طرح زکواة کی وصولی اور ادائےگی کا ےہ سسٹم خاموشی کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے چل رہا ہے جس مےں کسی گھپلے کا کوئی امکان ہے اور نہ غےر مستحق لوگوں مےں تقسےم ہونے کا کوئی خدشہ ۔ ہمارے پڑوسی غےر مسلم ملک بھارت مےں جہاں مسلم آبادی ہماری مجموعی مسلم آبادی سے زےادہ ہے حکومت کی سطح پر زکواة کی وصولی اور تقسےم کو کوئی شعبہ قائم نہےں اور اسلام مےں زکواة کی تقسےم کا فلسفہ ہی ےہی ہے کہ اصحاب نصاب خاموشی سے اپنے ارد گرد مستحقےن مےں اپنی تسلی کر کے خود زکواة کی رقم تقسےم کرےں اور خالق کائنات سے اس کا اجر پائےں ۔وطن عزےز مےں زکواة کی جبری وصولی کی بدعت کا آغاز جنرل ضےاءالحق کے مارشل لاءدور مےں صدارتی زکواة آرڈےننس کے ذرےعہ ہوا ۔جس کی بنےاد پر تمام قومی بےنکوں کو پابند کےا گےا کہ وہ ماہ رمضان المبارک کے آغاز ہی مےں اپنے مسلم کھاتہ داروں کے اکاﺅنٹس مےں سے از خود واجب الادا زکواة کی رقم منہا کر لےا کرےں گے ۔اس مےں قباحت زکواة کی تقسےم کے نظام کے ذرےعے پےدا ہوئی کےونکہ حکومت نے زکواة ڈائرےکٹورےٹ قائم کر کے مستحقےن زکواة کی فہرستےں اپنی من مرضی سے مرتب کےں جن مےں زےادہ تر غےر مستحقےن کو مستحقےن زکواة بنا کر نوازا جانے لگا جبکہ زکواة ڈائرےکٹورےٹ اور اس کی پورے ملک مےں قائم برانچوں کے انتظامی اخراجات اور اس کے ملازمےن کی تنخواہےں بھی زکواة فنڈ مےں سے نکالی جانے لگےں ۔یہ سارے اخراجات کروڑوں مےں بنتے ہےں جبکہ بر سر اقتدار سےاسی جماعت نے زکواة فنڈ سے ہی اپنے کارکنوں کو نوازنے کے راستے نکال لئے ۔اس طرح زکواة کی تقسےم کے اسلامی تصور کو ہی غارت کر دےا گےا جبکہ اسلام مےں زکواة کی جبری وصولی کا بھی کوئی تصور موجود نہےں ۔زکواة کی جبری وصولی شروع ہوئی تو لوگوں نے اس سے بچنے کے بھی کئی راستے نکال لئے ۔پہلے تو مسلم کھاتہ داروں کی جانب سے اہل تشےع ہونے کے جعلی سرٹےفےکےٹ تےار کرا کے بےنکوں مےں جمع کرائے جانے لگے اور پھر کھاتہ داروں کی اکثرےت نے ماہ رمضان المبارک کے آغاز سے قبل ہی اپنے بےنک اکاﺅنٹ خالی کرنے کی راہ اختےار کر لی۔چنانچہ زکواة کی جبری وصولی کی بدعت نے اصحاب نصاب مسلمانوں کو جعل سازی کے گر بھی سکھا دئےے جو زکواة کی ادائےگی کے ذرےعے مستحقےن کی خاموشی سے امداد کر کے ثواب کمانے کے فلسفہ کی سرا سر نفی ہے ۔سب سے زےادہ اذےت ناک پہلو تو ےہ ہے کہ ضےاءآمرےت کو قبول نہ کرنے اور 5جولائی کو ہر سال ےوم سےاہ منانے والی پےپلز پارٹی نے بھی اپنے تمام ادوار حکومت مےں آمر ضےاءالحق کے مسلط کردہ زکواة آرڈےننس کو خوشدلی سے قبول کر کے اسے اپنے مقاصد کےلئے استعمال کرنا شروع کر دےا ۔غرض جو بھی سےاسی جماعت اقتدار مےں آئی اسے جرنےلی آمرےت کی قباحتوں کا ڈھنڈورا پےٹنے کے باوجود ضےاءالحق کے زکواة آرڈےننس مےں کوئی قباحت نظر نہےں آئی چنانچہ ےہ آرڈےننس قانون کا درجہ پا کر آج کے دن تک اپنی عملداری قائم کئے ہوئے ہے ۔آج بے نظےر انکم سپورٹ کا محکمہ اسی زکواة فنڈ سے چل رہا ہے اور پےپلز پارٹی سارا کرےڈٹ اپنے کھاتے مےں ڈالتی ہے جےسے انکم سپورٹ کی مد مےں ےہ طبقات اپنی جےبوں سے رقوم ادا کر رہے ہوں ،چنانچہ اس حوالے سے جائز سوال اٹھتے ہےں کہ جعلسازی کی بنےاد پر استوار کئے گئے زکواة کی جبری وصولی کے نظام کی شرعی حےثےت کےا ہے ؟ ہمارے جےد علمائے کرام فروعی مسائل و معاملات کے بارے مےں اپنا حصہ ڈالنے مےں تو پےش پےش ہوتے ہےں مگر زکواة کی جبری وصولی کے حکومتی نظام کے بارے مےں کوئی مستند رائے ےا فتویٰ صادر کرنے کی علمائے کرام مےں سے کسی کو کم ہی توفےق ہوتی ہے اور ےہ سےاسی جماعتوں نے بھی فوجی حکمرانوں سے انتہا درجے کی نفرت کرنے کے باوجود ضےاءآمرےت کے زکواة آرڈےننس کو آخر کس مقصد کے تحت خوشدلی سے قبول کر رکھا ہے اور زکواة کے نام پر جعلسازی کی لعنت اس معاشرے مےں کےوں سرائت کرنے دی جا رہی ہے ۔زکواة کی جبری وصولی کا حکومتی نظام تو در حقےقت مستحقےن زکواة کاحق مارنے کے فلسفہ پر مبنی ہے پھر کےوں نہ اس جبری نظام ہی کے خلاف آواز بلند کی جائے ۔کئی فلاحی اور رفاحی ادارے جو بے وسےلہ اور غرےب عوام کو اپنے ہسپتالوں کے ذرےعہ علاج معالجہ کی بلا معاوضہ سہولتےں فراہم کر رہے ہےں ۔مختلف تنظےمےں اور فلاحی ادارے بھی دن رات اپنے کام مےں مصروف ہےں ۔عمران خان اور نوجوان گلوکار ابرارالحق کے ہسپتال و دےگر کئی اےسے ادارے غرےب مرےضوں کی آخری امےد ہےں ۔کئی دےگر شخصےتوں نے بھی اسی مقصد کےلئے اپنے ہسپتال شروع کر رکھے ہےں جن مےں عبدالقدےر خان مرحوم بھی شامل تھے ۔اےسے ادارے ےقےنا زکواة کے مستحق ہےں مگر زکواة فنڈ کی حکومتی بندر بانٹ کے بعد سرکاری فنڈ مےں سے ان اداروں کی مالی معاونت کےلئے کےا بچے گا ۔کےا شہرےوں کی اس جبری نظام سے گلو خلاصی کےلئے کوئی تدبےر کارگر ہو سکتی ہے ؟ےہی آج کا سوال ہے جو مےں نے کارپردازان وقت کے سامنے رکھ کر اپنا فرض ادا کر دےا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے