کالم

زیرِ التواءمقدمات اور 26ویں آئینی ترمیم

سبھی جانتے ہےں کہ وطن عزیز کی کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو دہائی اکثریت سے 26ویں آئینی ترمیم منظو ر ہو چکی ہے ۔غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ عدالتی اصلاحات کی تاریخ میں بادی النظر میں یہ بہت بڑی پیش رفت ہے جس کے نتیجے میں توقع ہے کہ ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں مقدمات نمٹانے میں نتیجہ خیز پیش رفت ہوگی جس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں گے ۔اس صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں سستا اور فوری انصاف دلانے کے بلنگ بانگ دعوی ماضی کی بہت سے حکومتیں کرتی رہی ہیںلیکن اس ضمن میں کسی بھی جہموری یا فوجی آمریت میں کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا۔ 2007میں عدلیہ کی آزادی کی تاریخی جدوجہد کے بعد معرض وجود میں آنے والی ’آزاد عدلیہ‘ سے عدالتوں میں برس ہا برس تک دھکے کھانےوالے لوگوں نے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی تھیں مگر اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود سستے اور فوری انصاف کا حصول ایک خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں ’آزاد عدلیہ‘ کی بحالی کے باوجود پاکستانی عدالتوں میں زیرِ التواءمقدموں کی تعداد تیرہ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر کی ضلعی عدالتوں میں روزانہ دو سے تین ہزار نئے مقدمات آتے ہیں جبکہ ان عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر فیصلوں کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں، سپریم کورٹ، چار ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں زیر التوامقدموں کی تعداد ایک لاکھ پچاسی ہزار سے زیادہ ہے اور ان میں بعض مقدمے ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے زیر التوا ہیں۔مبصرین کے مطابق حالیہ برسوں میں اعلی عدالتوں میں ججوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن سپریم کورٹ کے علاوہ کسی بھی ہائی کورٹ میں اب بھی ججوں کی تعداد قانون کے تحت متعین کی گئی ججوں کی تعداد سے کم ہے۔سپریم کورٹ میں زیر التو ا مقدمات کی تعداد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق سپریم کورٹ میں 33ہزار 269سول اور 10ہزار 335 فوجداری اپیلیں 28از خود نوٹسز، 2ہزار 64نظرثانی درخواستیں زیرِ التوا ہیں اور یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں دو ایڈہاک ججوں سمیت انیس جج ہیں۔اسی تناظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ زیرِ التوا مقدمے صوبہ پنجاب میں ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ میں زیرِ التوا مقدموں کی تعداد ایک لاکھ پندرہ ہزار سے زیادہ ہے جبکہ ماتحت عدالتوں میں نو لاکھ پچاس ہزار سے زائد مقدمے زیر التو ہیں۔علاوہ ازیں لاہور ہائیکورٹ میں اسوقت فعال ججوں کی تعداد چالیس کے قریب ہے جبکہ قانون کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد پچاس سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔پشاور ہائی کورٹ میں اٹھارہ جج صاحبان تعینات ہیں جبکہ سندھ ہائیکورٹ میں ستائیس جج تعینات ہیں۔قابل ذکر ہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ التو مقدموں کی تعداد تیس سے زیادہ ہے جبکہ ماتحت عدلیہ میں ایک لاکھ سے زیادہ مقدمے زیرِ التوا ہیں اور سندھ ہائی کورٹ میں صرف پچیس جج موجود ہے حالانکہ قانون کے مطابق سندھ ہائی کورٹ چالیس جج ہونے چاہئیں ۔ دوسری جانب بلوچستان ہائی کورٹ میں سب سے کم مقدمات زیر سماعت ہیں اوربلوچستان ہائیکورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے جبکہ بلوچستان کے اٹھارہ اضلاع کی ماتحت عدالتوں میں چھ ہزار کے قریب مقدمے زیر التوا ہے۔بلوچستان کی ہائی کورٹ میں اس وقت چیف جسٹس سمیت پانچ جج صاحبان کام کرہے ہیں جبکہ وہاں پر ابھی تک ججوں کی چھ آسامیاں خالی ہیں۔ہائی کورٹ کی رولنگ کے مطابق ایک سول جج کے پاس دوہزار کے قریب مقدمات سماعت کےلئے ہونے چاہئیں جبکہ عملاً ایک سول جج کے پاس آٹھ ہزار سے زائد مقدمات زیر سماعت ہوتے ہیں۔اس ضمن میں مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کی سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی صورتحال سنگین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ بعض مقدمات ایسے بھی ہیں جن کے نمٹنے کا انتظار کرتے کرتے سائل دنیا ہی سے رخصت ہو چکے ہیں اور اب اُن کی نسلیں یہ کیسز بھگت رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں تاخیر سے ملنے والے انصاف کو انصاف تصور نہیں کیا جاتا۔ انصاف کی فراہمی میں اِس تاخیر کا سبب ہمارے ہاں غیرسنجیدہ اور غیرضروری مقدمات کی بھرمار بھی ہے جس کی وجہ سے عدالتی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ صرف فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے بلکہ اہم مقدمات کی سماعت میں بھی دیر ہو جاتی ہے۔ ایسے غیرضروری اور غیرسنجیدہ مقدمات میں درخواست گزار کیخلاف کارروائی کرنے سے بھی غیرضروری مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ایسے میں ہمارا نظامِ انصاف فوری اصلاحات کا متقاضی ہے، اس ضرورت کا اظہار تو سب ہی کرتے ہیں لیکن موثر اقدامات کم ہی عمل میں آتے ہیں۔اس تمام صورتحال میں سنجیدہ حلقوں نے اس امر کو انتہائی مثبت پیش رفت قرار دیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس امر کی کوشش کی گئی ہے کہ انصاف کی فراہمی میں ہونےوالی تاخیر پر قابو پایا جائے اور عام لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق احسن طریقے سے میسر آسکیں ۔ امید کی جانی چاہےے کہ سول سوسائٹی اور معاشرے کے تمام طبقات اس امر کی بھرپور کوشش کرینگے کہ ان آئینی اور عدالتی اصلاحات کو ان کی صحیح روح کے مطابق نافذ عمل کیا جاسکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے