کالم

سارک کی بحالی کےلئے بھرپور تعاون کی یقین دہانی

سارک کے 15 ویں سیکرٹری جنرل محمد غلام سرور پاکستان کے پہلے دورہ پر ہیں، وزیراعظم نے محمد غلام سرور کو سارک کے 15 ویں سیکرٹری جنرل کے طور پر تقرری کی مبارکباد دی اورکہا کہ سیکرٹری جنرل تنظیم کی بحالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ سیکرٹری جنرل سارک کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، وزیراعظم نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان بنگلہ دیش کےساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سارک میں علاقائی ترقی، تجارت، تعاون اور اشتراک کے بے پناہ امکانات ہیں، وزیراعظم نے سارک کو خطے میں ترقی اور خوشحالی پر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ شہباز شریف نے سارک چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا بھی اعادہ کیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان سارک عمل کو مضبوط بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ سیکرٹری جنرل سارک نے پرتپاک میزبانی پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا، سیکرٹری جنرل نے سارک کو علاقائی تعاون کیلئے ایک موثر پلیٹ فارم بنانے کے عزم سے آگاہ کیا۔جنوب ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم(سارک) جنوبی ایشیا کے 8 ممالک کی ایک اہم اقتصادی اور سیاسی تنظیم ہے۔اگر دیکھا جائے تو یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے جو تقریباڈیڑھ ارب لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔8دسمبر1985 کو پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیپ اور بھوٹان نے قائم کی تھی۔ابتداءمیں افغانستان اس تنظیم کا حصہ نہیں تھا،پھر 3 اپریل 2007 کو نئی دہلی میں ہونے والے تنظیم کے 14 ویں اجلاس میں افغانستان کو آٹھویں رکن کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا۔پاکستان اس تنظیم کااہم رکن ہے،جنوب ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم( سارک) جنوبی ایشیا کے 8 ممالک کی ایک اقتصادی اور سیاسی تنظیم ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے جو تقریباڈیڑھ ارب لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ تنظیم 8دسمبر 1985 کو پاکستان، بھارت،بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیپ اور بھوٹان نے قائم کی تھی۔ابتداءمیں افغانستان اس تنظیم کا حصہ نہیں تھا،پھر 3 اپریل 2007 کو نئی دہلی میں ہونے والے تنظیم کے 14 ویں اجلاس میں افغانستان کو آٹھویں رکن کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا۔پاکستان اس تنظیم کااہم رکن ہے،1970 کی دہائی کے اواخر میں بنگلہ دیش کے صدر ضیا الرحمن نے جنوب ایشیائی ممالک پر مشتمل ایک تجارتی بلاک کا خیال پیش کیا۔ 1981 میں کولمبو میں ہونے والے ایک اجلاس میں بھارت، پاکستان اور سری لنکا نے بنگلہ دیشی تجویز کو تسلیم کیا۔ اگست 1983 میں ان رہنماں نے نئی دہلی میں منعقدہ ایک اجلاس میں جنوب ایشیائی علاقائی تعاون کے معاہدے کا اعلان کیا۔ 7ایشیائی ممالک جن میں نیپال، مالدیپ اور بھوٹان بھی شامل تھے نے،زراعت و دیہی ترقی،مواصلات،سائنس، ٹیکنالوجی اور موسمیات،صحت و بہبود آبادی،ذرائع نقل و حمل،انسانی ذرائع کی ترقی جیسے شعبہ جات میں تعاون کا اظہار کیا۔ اپریل 2006 میںامریکہ اور جنوبی کوریا نے مبصر کی حیثیت سے تنظیم میں شمولیت کی درخواست دی۔ پھر یورپی یونین نے بھی مبصر کی حیثیت سے شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے ۔ دواگست 2006 کو سارک وزرائے خارجہ کے اجلاس میں امریکہ، جنوبی کوریا اور یورپی یونین کو مبصر کی حیثیت دے دی گئی۔ مارچ 2007 کو ایران نے بھی مبصر کی حیثیت کے لیے درخواست دی جو قبول کر لی گئی۔بلاشبہ یہ ایک بڑا پلیٹ فارم بن سکتا تھا جو اپنے قیام کے مقاصد کو بھول باہمی تنازعات میں الجھ گیا۔جنوبی ایشیا کی ترقی میں سارک کا کردار موثر نہ ہونے کی بڑی وجہ پاک بھارت کشیدگی کو سمجھا جاتا ہے۔انہی سیاسی اور علاقائی کشیدگیوں کے باعث جنوب ایشیائی ممالک مشترکہ معیشت کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اپنے قیام سے لے کرآج تک یہ تنظیم نشستند،گفتند، برخاستند کی مثال بنی ہوئی ہے۔اپنے قیام کے بعد لگ بھگ چالیس برس میںسارک کی کارکردگی قابلِ رشک نہیں رہی ہے اور اس کے رکن ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بھی 5فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔سارک رکن ممالک کئی بار آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کے لیے اپنی عدم رضامندی کا اظہار کر چکے ہیں۔حالانکہ بھارت، مالدیپ، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کےساتھ متعدد تجارتی معاہدے کر چکا ہے لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش کے اس نوعیت کے معاہدے فریقین کے خدشات کے باعث نہ ہو سکے۔وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے سارک کی بحالی کےلئے اپنے تعاون کا بھرپور عزم ظاہر کر کے عندیہ دیا ہے کہ پاکستان خطے کی معاشی ترقی کا خواہاں ہے۔ پاکستان اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کو غربت پسماندگی اور جن دیگر سماجی مسائل میں مشترکہ چیلنجز کا سامنا ہے وہ باہمی تعاون کے ذریعے ان کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اسکے لیے سارک مفید ترین پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے مگر بھارت خصوصا بی جے پی کی موجودہ حکومت کی ہٹ دھرمی یکطرفہ اقدامات کی پالیسی اور پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والی حکمت عملی سے پاک بھارت تعلقات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
بشکیک فسادات کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائیں گے
ایک ایسے ماحول میں جب ہر پاکستانی کرغستان میں ہونے والے پاکستانی طلباءکےساتھ پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہے ، یہ نہایت خوش آئند اطلاع سامنے آئی ہے کہ کرغزستان کے وزیر خارجہ جین بیک کلوبایف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بشکیک میں ہونے والے فسادات کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائیں گے۔اس بات کی یقین دہانی انہوں نے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کو آستانہ میں ملاقات کے دوران کرائی ہے جو وہاںپر موجود ہیں۔ ملاقات میں بشکیک، کرغزستان کی حالیہ پیشرفت اور وہاں پاکستانی شہریوں کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کی گئی، دفتر خارجہ کے مطابق نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی بنیادی تشویش اپنے شہریوں کی سلامتی اور بہبود ہے۔ بعد ازاں کرغز وزیر خارجہ جین بیک کلوبایف نے کہا کہ حکومت نے امن و امان کی بحالی کے لیے تیزی سے کارروائی کی، انہوں نے نائب وزیراعظم کو پاکستانی شہریوں کی حفاظت اور پاکستان واپسی کے خواہشمند طلبہ کی بحفاظت وطن واپسی کیلئے مکمل سہولت کے بارے میں یقین دہانی کرائی۔ادھرشنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب میں نائب وزیراعظم ووزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم غزہ میں اسرائیلی بربریت کی مذمت کرے، اس فورم سے درپیش چیلنجز کا حل تلاش کیا جائے۔ دریں اثنا اسحاق ڈار نے قازقستان میں منعقد ہونے والے ایس سی اوکونسل آف وزرائے خارجہ کے موقع پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات کی اور پاکستان اور رشین فیڈریشن کے درمیان بڑھتی ہوئی دو طرفہ افہام و تفہیم،تعاون اور حالیہ علاقائی و عالمی پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے ملاقات میں پاک چین اقتصادی راہداری کے باہمی فائدہ مند تعاون اور اعلی معیار کی ترقی کو مزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے آستانہ میں چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ اسحاق ڈار نے قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف سے صدارتی محل اکوردہ میں ملاقات کی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نائب وزیر اعظم نے قازقستان کے صدر کیلئے پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کی جانب سے نیک تمناوں کا اظہار کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے