طوفان میں کشتیاں اور گھمنڈ میں ہستیاں اکثر ڈوب جاتی ہیں۔ انسان کا نقصان مال اور جان کا چلے جانا نہیں بلکہ اس کا بڑا نقصان کسی کی نظر سے گر جانا ہے۔ انسان کو یہ توں توں میں میں، دھونس، تکبر ہی لے ڈوبتا ہے اور مد مقابل لے آتا ہے ۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم کسی مد مقابل کے سامنے پیار، خلوص اور اپنائیت کو دیکھتے نہیں؛ اپنا قصور مانتے نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تلخ کلامی میں معاملہ لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت گری تک پہنچ جاتا ہے۔ ان معاملات نے ہمیں مکمل تباہ و برباد کر دیا ہے اور ہم انسان سے حیوان بنتے جا رہے ہیں۔ ہمیں معاشرتی عدم برداشت لے ڈوبا ہے اور شرم و حیا سے مکمل عاری نظر آتے ہیں۔ دوسروں کی عزت نفس پر حملہ آور ہیں اور ہر بات میں گالم گلوچ وطیرا بنا لیا ہے۔ افسوس!آج ہم ایسے معاشرے میں زندہ ہیں، جہاں لوگوں سے تو درکنار اپنے ہمسایوں کے شر سے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کیا عجب زمانہ آگیا ہے کہ کوئی کسی سے خوش نہیں ہے۔ پیار محبت کی جگہ حسد اور بغض نے لے لی۔ ہم دوستیاں کم اور دشمنیاں زیادہ نبھاتے ہیں۔دشمن تو دشمن ٹھہرا، دوستوں کے ہاتھوں ہی ذلیل و رسوا ہو کر جیتے جی مر رہے ہیں۔ لوگ ہمدردی اور تعاون کے روپ میں بھی اپنا زہریلا وار کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔ اکثر اب تو دوستیاں اور بھائی چارے کی فِضا بھی ایک فریب سا لگتا ہے۔ بیشتر لوگ سامنے دوستیاں اور پس پردہ دشمنیاں کر رہے ہیں۔ رہی بات تعاون کی تو وہ اب تقریبا ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ اب کسی پر ہوتے مظالم پر ظالم کا ہاتھ نہیں کھینچتے بلکہ خاموش تماشائی بننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اب معاشرے میں ہمارا مقام بحیثیت قوم کم اور ایک ریوڑ اور بپھرے ہجوم جیسا زیادہ ہے ۔اب ہم کسی بھی واقعہ یا سانحہ میں متاثرہ شخص کی مدد کم اور اس کا تماشہ زیادہ دیکھتے ہیں۔ کسی کو بچانے کی طرف بالکل نہیں آتے ہیں۔ ظالم کو ظلم کرتے اور مظلوم کو پٹتے ہوئے دیکھ کر ظالم کا ہاتھ پکڑنے اور مظلوم کی مدد کرنے کی بجائے اس منظر کی صرف ویڈیو بناتے ہیں. یہی وہ ہمارا بے حس، سفاک اور بے رحمانہ معاشرتی رویہ ہے؛ جس نے بدقماش، گھٹیا ، بے حس افراد، گروہ کو شہہ دے رکھی ہے کہ وہ جس کا جب بھی چاہتے ہیں، گریبان چاک کر دیتے ہیں۔ جسے چاہتے ہیں لبِ سڑک مار مار کر لہولہان کر دیتے ہیں۔ اکثر تو معاملہ قتل و غارت گری تک جا پہنچتا ہے۔ سانحہ رائے ونڈ گاہک اور پھل فروش کی لڑائی میں بھی یہی بات تھی کہ اس لڑائی کے وقت وہاں پر موجود متعدد افراد انسان کم اور حیوان زیادہ تھے کہ درندہ صفت افراد کا ہوتا ظلم اپنے ہاتھوں سے روک نہ سکے اور ظلم و نا انصافی کا یہ سلسلہ چلتا اور بڑھتا دیکھتے رہے بلکہ یوں کہیے کہ اس واقعے کی تصویریں اور ویڈیو ہی بناتے رہے تو زیادہ مناسب ہے ۔کاش یہ ہجوم نما ریوڑ ، جس نے جتنی مستعدی اس واقعے کی ویڈیو بنانے پر دکھائی ،ان بدبخت اور شر پسندوں کو روکنے پر لگا دیتی تو اتنا بڑا سانحہ رونما نہ ہوتا ،جس نے دو قیمتی جانیں نگل لیں اور باقی عمر کے لیے کئی خاندانوں کو برباد کر دیا ۔بیوی بچے رل گئے ،گھر اجڑ گئے ۔دشمنیاں بڑھ گئیں اور ہنستے بستے گھروں کو بربادی میں بدل گئیں ۔جب میں یہ سطور لکھ رہا تھا تو اطلاعات ملی کہ سی سی ڈی نے ان دو بھائیوں کے قاتل پھل فروش دو افراد کو مبینہ پولیس مقابلے میں مار ڈالا ہے۔ افسوس سانحہ رائے ونڈ میں دونوں اطراف لاشیں ہی لاشیں بکھری ہوئی ہیں اور ریوڑ نما ہجوم اس پر افسوس اور خوشی کا ملتا جلتا اظہار کرتے؛ اپنی بے حسی کا مظاہرہ کر رہا ہیں ۔سانحہ رائے ونڈ معاشرتی عدم برداشت کا واضح ثبوت اور اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم انسان کم اور ہجوم زیادہ ہیں۔اس سانحہ نے یہ ثابت کیا ہے؛ اخلاقیات بہت بڑی چیز ہے اور جب اخلاقیات اور انسانیت کا جنازہ اٹھ جاتا ہے تو ایسے ہی سانحات رونما ہوتے ہیں اور انسانی قدروں، اصولوں اور ضوابط سے ہٹ کر ماورائے عدالت قتل بھی سند جواز پاتے ہیں۔