کالم

سانحہ ڈھاکہ ! حسینہ واجد کا انجام

بنگلہ دیش کاقیام پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ہولناک باب ہے ۔ سولہ دسمبر 1971 کو پاکستان کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور مشرقی بازو انڈیا کے حوالے کر دیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا ۔ لاہور کے ایک ڈائیجسٹ نے اس موقع پر لکھا ہائے رے یہ رسوائی۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی تقریب منعقد ہوئی جس میں بھارت اور پاکستان نے شکست کی دستاویز پر دستخط کئے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان ٹوٹ گیا اور کئی ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے ۔ برگیڈیر صدیق سالک بھی ان اسیران میں شامل تھے انہوں نے اپنی کتاب ہمہ یاراں دوزخ میں بھارت کے جنگی قیدیوں سے سلوک یو این قوانین کی خلاف ورزی قیدیوں کے خط اور ان تک نہ پہنچنا اور ناقص کھانے کا تذکرہ کیا ہے ۔ پچیس مارچ انیس سو انہتر کو ایوب خان نے اقتدار یحی خان کے حوالے کر دیا تھا پاکستان کی تاریخ میں پہلے آزادانہ انتخابات منعقد ہوئے عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتیں جبکہ وہ مغربی بازو سے ایک سیٹ بھی نہ جیت سکی ۔ اسی طرح بھٹو کی پی پی پی نے مغرب پاکستان سے کلین سویپ کیا لیکن مشرقی پاکستان سے ایک سیٹ بھی نہ جیت سکی ۔ حکومت سازی شیخ مجیب الرحمن کا حق تھا بھٹو کی سیٹیں مجیب سے کم تھیں اسے حزب اختلاف میں بیٹھنا چاہیے تھا ۔اگر شیخ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنا دیا جاتا تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔ بنگالی بڑے محب وطن تھے مسلم لیگ کا قیام 1906 میں ڈھاکہ میں عمل میں آیا۔ بنگالیوں نے پاکستان کی آزادی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور قربانیاں دیں۔ شیخ مجیب الرحمن بھی محب وطن تھے ایوب خان نے اگر تلہ سازش کیس میں انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈالا بھرپور عوامی دبا کی وجہ سے شیخ مجیب کو رہا کرنا پڑا عوامی لیگ نے حکومت کے سامنے چھ نکاتی مطالبات رکھے ان کو پورا کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔ چونکہ بھارت کا طویل بارڈر ہمارے مشرقی بازو سے ملتا تھا اس لئے مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں ۔ پاکستان مخالف لٹریچر مشرقی بازو میں پھیلایا جا رہا تھا وہاں ہندو اساتذہ بھی نوجوان بنگالیوں کے زہن بدل رہے تھے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی بھٹو نے کہا جو ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے اور ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا دیا۔ یحی خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا شیخ مجیب الرحمن نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہزاروں بنگالیوں کی موجودگی میں پاکستان سے آزادی کا اعلان کر دیا جلسے میں بنگلہ دیش کا جھنڈا بھی لہرایا گیا آخر کار یحیی خان کے ہاتھ پاں پھول گئے انہوں نے اقتدار بھٹو کے حوالے کر دیا وہ پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے ۔مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کے پہلے وزیراعظم کا حلف اٹھا لیا۔ انہیں بنگلہ بندو کا خطاب دیا گیا ۔ شیخ مجیب نے تو کہنا شروع کر دیا تھا کہ مجھے اسلام آ باد کی سڑکوں سے پٹ سن یعنی جیوٹ کی بو آتی ہے۔ یعنی مشرقی ونگ کے وسائل مغربی پاکستان پر خرچ ہو رہے ہیں ۔بنگالی مستقل مزاج قوم نہیں ہے اس لئے جلد ہی ایک بغاوت میں مجیب الرحمن کو پورے خاندان سمیت ان کی رہائش گاہ دھان منڈی میں قتل کر دیا گیا اور مجیب کی لاش کئی روز تک سیڑھیوں میں پڑی رہی حسینہ واجد بچ گئیں کیونکہ وہ ملک سے باہر تھیں ۔بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو جب مجیب کے قتل کا علم ہوا تو مبینہ طور پر انہوں نے غصے میں آ کر اپنے آرمی چیف کو حکم دیا کہ باغیوں کو کچل دو لیکن بھارتی فوجی کمان نے انہیں سمجھایا کہ ایسا نہ کرنا کیونکہ بنگالی پہلے ہی بپھرے ہوئے ہیں ۔ پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش نے صنعتی میدان میں بہت ترقی کی خاص طور پر اسمال اسکیل انڈسٹری کو فروغ دیا گیا گھریلو صنعتوں کے پھیلا کے لئے عوام پر اعتبار کرتے ہوئے بینکوں نے خواتین کو چھوٹے قرضے دیے اس طرح ملک میں صنعتوں کا جال بچھ گیا گارمنٹس انڈسٹری نے بڑی ترقی کی اور اس شعبے میں بنگلہ دیش بین الاقوامی مقابلہ کرنے لگا۔ ملکی ایکسپورٹس اور جی ڈی پی میں اضافہ ہوا ۔ ملک نے مارشل لا کا دور بھی دیکھا جنرل ضیا الرحمن اور خالدہ ضیا نے بھی بنگلہ دیش پر حکومت کی۔ آخر کار شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کی وزیراعظم منتخب ہوئیں انہوں نے پندرہ سال تک بنگلہ دیش میں جمہوریت کے نام پر ڈکٹیٹر شپ قائم رکھی۔ بنیادی حقوق معطل کئے پریس پر پابندیاں لگائیں پاکستان اور بنگلہ دیش کے سفارتی تعلقات برسوں سرد مہری کا شکار رہے جماعت اسلامی کے کئی رہنماں کو پھانسی کی سزائیں دی گئیں اور بہت سے رہنماں کو جیل میں ڈالا گیا۔ سابقہ وزیراعظم خالدہ ضیا کو جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کیا۔ بنگالیوں نے 15 سال تک حسینہ واجد کا ظلم و ستم اورآمریت برداشت کی لیکن جب اس نے بنگلہ دیش کی بیوروکریسی میں 1971میں جاں بحق ہونے والوں کی اولادوں کے لئے ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹہ مقرر کیا تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا سڑکوں پر آ گئے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی جو کسی زمانے میں شیخ مجیب کے حامیوں کا گڑھ ہوا کرتی تھی آج اسی یونیورسٹی کے طلبا شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کے خلاف کھڑے ہو چکے تھے ان کا مطالبہ تھا کہ ملازمتوں میں کوٹہ واپس لیا جائے اور حسینہ واجد استیفی دے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مظاہروں میں شدت آتی گئی انہوں نے ڈھاکہ اور دیگر شہروں کی اہم شاہراہوں پر آویزاں شیخ مجیب الرحمن کے قد اور مجسموں اور تصاویر کو توڑ ڈالا ۔ وزیراعظم حسینہ واجد نے سختی کی سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہزاروں طلبا مظاہرین ہلاک ہوئے۔ طلبا نے وزیراعظم ہاس پر قبضہ کر لیا آخر کار شیخ حسینہ واجد نے طلبا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے وہ استیفی دے کر فوج کی چھتری تلے بھارت فرار ہو گئیں۔ اب نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کے عبوری وزیراعظم بن گئے۔ نئے عبوری سیٹ اپ کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ کچھ اصلاحات کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد امن وامان کا قیام سب سے بڑا مسلہ ہے۔ اب پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ بنگالیوں کو اب سمجھ آگئی ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے صرف اقتدار کی خاطر بھارت کے مفادات کی تکمیل کےلئے انہیں استعمال کیا اس کے بعد ان کی بیٹی حسینہ واجد نے اپنے والد کی پالیسیوں کی تکمیل کےلئے 15سال تک عوام کو یرغمال بنائے رکھا اسی لئے طویل جدو جہد کے بعد طلبا تحریک نے حسینہ واجد کو ملک بدر ہونے پر مجبور کر دیا۔ طلبا تحریک میں پاکستان کے حق میں بھی نعرے لگائے گئے۔ اب پاکستان اور بنگلہ دیش کو پرانی رنجشیں قدورتیں اور اختلافات بھلا کر نئے دور کا آغاز کرنا چاہیے ۔ وہی شیخ حسینہ واجد جس نے بنگلہ دیش کے عوام پر طویل عرصہ اپنی ڈکٹیٹر شپ قائم رکھی آخر کار عوامی دبا کے سامنے ہتھیار ڈال کر ملک سے فرار ہو گئیں اور ان کا عبرت ناک انجام ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے