معزز قارئےن سے رابط منقطع ہو جانے کاباعث جہاں ناسازی¿ طبع بنا وہاں راقم کے مہربان و شفےق عزےز جناب خالد حسےن قرےشی اےڈووکےٹ ،عابد حسےن قرےشی (ر)سےشن جج اور زاہد حسےن قرےشی کی والدہ رحلت فرما گئےں ۔ ماں تو دنےا مےں اےک عظےم ہستی ہے ۔اس ہستی کے دام مفارقت دے جانے پر اولاد کےلئے دعاﺅں سے محرومی مقدر ٹھہرتا ہے ۔ماں تو دعا کا ہی دوسرا نام ہے ۔والدےن مےں بھی ماں کی محبت مثالی اور بے نظےر ہوتی ہے اور ےہ محبت زندگی اور کائنات کی انوکھی تشرےح ہے الفاظ جس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہےں ۔”کائنات کی پستےوں اور بلندےوں مےں جو کوئی ہے طوعاً و کرہاً ہمارے قانون کے سامنے سر تسلےم خم کئے ہوئے ہے “(القرآن)بے شک زندگی اور موت کا ہر ضابطہ بھی دےگر ضوابط کی طرح خدائے بزرگ و برتر کا ہی تخلےق فرماےا ہوا ہے ۔کوئی چاہے بھی تو گرےز کی کوئی راہ تلاش نہےں کر سکتا ۔موت اےسا اٹل قانون خدا وندی ہے جس کے سامنے ہر ذی نفس عاجز ہے ۔موت کے ناقابل ترمےم دستور کے روبرو سب کے سب اےک دم دم بخود ہےں ۔زندگی کو توازن بدوش کرنے والی اےک ہی چےز ہے اور وہ ہے موت۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے موت کی حقےقت کو کتنے احسن انداز سے بےان فرماےاکہ ”موت اےسی اٹل حقےقت ہے جو ہمےشہ ٹھہرائے ہوئے اندازے پر غالب آتی ہے اور جہاں حےات کا سفر کھےنچ کر لے جاتا ہے وہی حےات کی منزل منتہا ہے ۔بے شک موت تےزی سے ڈھونڈنے والی ہے نہ ٹھہرنے والا اس سے بچ کر نکل سکتا ہے اور نہ بھاگنے والا اسے عاجز کر سکتا ہے “۔معزز قارئےن موت سے کسی کو مفر ممکن نہےں ۔عمر انسانی چاہے لمبے عرصے پر محےط ہو لےکن آخر انجام موت ہے ۔اﷲ کی اس وسےع کائنات مےں موت سے بڑی کوئی حقےقت نہےں ۔رشتوں کی اکائی جسے خاندان کہا جاتا ہے مختلف حوالوں سے اےک دوسرے کے ساتھ پےار و محبت کے عظےم رشتہ مےں منسلک ہوتا ہے ۔ ےہی وجہ ہوتی ہے کہ بہن بھائی ،ماں باپ اور بےوی بچے الغرض قرےبی عزےز و اقارب سبھی اےک فرد کی رحلت سے متاثر ہوئے بغےر نہےں رہ سکتے ۔انسانی رشتوں کا ےہ تانا بانا ہم آہنگی کا آئےنہ دار ہوتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ اپنی بخششوں اور عطاﺅں کی اپنے بندوں پر انتہا فرما دےتا ہے لےکن انسان نہ صرف عاجز ہے بلکہ اس کی فکر ،اس کی سوچ اور اس کی عقل سب کچھ محدود ہے ۔وہ ہر لمحے اور ہر آن اﷲکی نعمتوں اور عطاﺅں سے فےض ےاب ہوتے ہوئے بھی اکثر محسوس نہےں کر پاتا جب کہ آزمائش کا بار اٹھانا اورکسی اچانک افتاد غم کو برداشت کرنا انسان کےلئے بے حد دشوار اور مشکل لمحہ امتحان بن جاتا ہے ۔پروردگار عالم کا احسان عظےم ہے اپنے بندوں پر کہ وہ غم ِ، آزمائش اور جدائی دےتا ہے تو پھر ان سب کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی دےتا ہے ۔روز ازل سے موت کا ساےہ بھی ہر ذی روح کے ہمرکاب رہا ہے ،چاہے کوئی جوان ہے چاہے بوڑھا ،کم سن ہے ےا ادھےڑعمر ۔جب موت کا وقت آجاتا ہے تو پھر انکار کےسا ۔جوان ہاتھوں مےں بڑوں اور بڑوں کی بانہوں مےں جوانوں کی رخصتی ہوتی آئی ہے ۔ےہی قانون فطرت ہے ۔ زندگی اور موت جانداروں کےلئے ہےں ۔انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے سے زےادہ جذباتی لگاﺅ کا حامل ہوتا ہے ۔خوشی اور غم انسانی زندگی کا حصہ ہےں ۔انسان کو غم ملتے ہےں تو خوشےوں کی امےد بھی بندھی رہتی ہے ۔زندگی اسی مد و جذر سے عبارت ہے ۔ےہ دنےا ہماری عارضی رہائش گاہ ہے ،آزمائش کی جگہ ہے ۔ ہمےں آزمائش کے چند دن گزار کر اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے ۔ہم سب مسافر ہےں بظاہر مقےم نظر آتے ہے ۔حدےث نبوی ہے کہ دنےا مےں اےسے رہو جےسے اجنبی ہو ےا راستہ چلتے مسافر ہو ۔ بقول شاعر
عےش منزل ہے غرےبان محبت پہ حرام
سب مسافر ہےں بظاہر نظر آتے ہےں مقےم
وقت کے چہرے پر انمٹ نقوش ابھرتے اور مٹتے ہےں ۔ان مےں سے ہر نقش اپنی سانسےں پوری کر کے دار فنا سے دار بقا کی طرف سدھارتا ہے جو دنےا کے معرض وجود مےں آنے سے لےکر چلی آ رہی ہے ۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے اےک جماعت کو ان کے مرنے والے کی تعزےت کرتے ہوئے فرماےا جو کہ اےک تاجر تھا اور دےار غےر مےں فوت ہوا ”اس موت کی ابتدا تم سے ہوئی نہ اس کی انتہا تم پر ہے ۔ےہ تمہارا ساتھی مصروف سفر رہتا تھا اب بھی ےہ سمجھو کہ وہ کسی سفر پر ہے اگر واپس آ گےا تو بہتر ورنہ تم خود اس کے پاس پہنچ جاﺅ گے ۔“معزز قارئےن اگر کسی انسان کی کامےابی دےکھنا مقصود ہو تو ےہی دےکھا جاتا ہے کہ اس کی اولاد جو اس کا اصل اثاثہ اور سرماےہ تھا کتنی کامےاب ہے ۔انسان کی کامےابی کا ےہ معےار نہےں کہ اس نے کتنے محل ،کتنی گاڑےاں اور کتنی جائےداد چھوڑی ۔ کامےابی کےلئے دنےاوی اور مادی وراثت ہر گز معےار نہےں ۔کامےابی کےلئے ثمر دےکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آےا دنےا سے جانے والا انسان اپنی اولاد مےں اپنی ذہنی ،اعلیٰ انسانی ،روحانی اور اخلاقی اقدار ،اچھائےاں اور خوبےاں منتقل کرنے مےں کامےاب ہوا ۔اگر وہ اےسا کرنے مےں کامےاب رہا تو پھر ےہ سمجھنے مےں کوئی امر حائل نہےں کہ اس انسان نے کامےاب زندگی بسر کی ۔جناب خالد حسےن قرےشی اےڈووکےٹ سابقہ صدر سےالکوٹ بار اور جناب عابد حسےن قرےشی (ر) سےشن جج ان ہر دو کی شخصےات مےں وہ تمام خوبےاں دےکھی جا سکتی ہےں جو انہےں والدےن سے ورثہ مےں ملےں ۔ان کا محبت و الفت کا روےہ مخصوص نہےں بلکہ ہر اےک کےلئے ےکساں ہے ۔محبت و شفقت کی سوغات بانٹنے مےں انہوں نے کبھی بخل سے کام نہےں لےا ۔وہ اخلاقی ضوابط کے پاسدار اور کمٹمنٹ کے آدمی ہےں ۔اےک انسان کو آغوش والدےن مےں سالہا سال بسر کرنا پڑتے ہےں تب ہی وہ دنےا مےں کسی کام کا بنتا ہے ۔دنےا مےں جےنے کےلئے کئی رشتے ناطے اور تعلق واسطے ہےں لےکن والدےن کی اولاد سے محبت گہری اور پائےدار ہے ،دےگر انسانی رشتے انسانی لالچ اور طمع کے پےش نظر ٹوٹتے اور استوا ر ہوتے رہتے ہےں مگر ےہ تعلق اور واسطہ اتنا مخلص ہوتا ہے جو ہمےشہ قائم و دائم رہتا ہے ۔ اولاد کی خوشی کےلئے سب کچھ قربان کر دےنے مےں ہی ماں کی خوشی پوشےدہ ہوتی ہے اور باپ جو مخلص ترےن رہبر ،محافظ اور معاون ہوتا ہے ۔والدہ کی رحلت ےقےنا ان بردران کےلئے بڑا صدمہ ہے لےکن مصائب زندگی کی بہتات کو اگر انسان ےاد رکھے اس کی زندگی اجےرن ہو جائے ۔ صبر خدا کی اےک نعمت عظےم ہے ۔اگر ےہ نہ ہوتا تو زندگی برقرار نہ رہتی ۔انسانی فطرت اسی ڈھب سے خلق کی گئی ہے جس کی آخری پناہ گاہ صبر ہی ہے ۔زندگی کےلئے پھر سے تگ و تاز کرنا پڑتی ہے ،زندوں کی فکر ہی زندگی کے تقاضے ہےں۔اگر ےہ نہ رہےں تو گوےا زندگی کی شمع ہی گل ہو کر رہ جائے ،نظام ہستی ختم ہو کر رہ جائے ۔ہم خالد حسےن قرےشی ،عابد حسےن قرےشی اور زاہد حسےن قرےشی کے غم مےں شرےک ہےں اور اﷲ تعالیٰ سے دعا گو ہےں کہ وہ ان کو والدہ کی جدائی کے صدمے مےں صبر جمےل عطا فرمائے اور ان کی والدہ کو اپنے جوار رحمت مےں بلند درجات عطا کر ے ۔آمےن ،ثم آمےن
آسماں تےری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
کالم
سب مسافر ہےں بظاہر نظر آتے ہےں مقےم
- by web desk
- فروری 17, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 96 Views
- 5 مہینے ago