کالم

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

دنیا میں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کے دکھانے کی خواہش تو ہر شخص میں فطری طور پرو موجود ہوتی ہے مگر کامیاب کوئی کوئی ہوتا ہے منزل کی جستجو میں تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے آگے بڑھنا اور بڑھتے ہی رہنا ہر کسی کا خاصا نہیں ہوتا کامیابی وکامرانی صرف ان کے قدم چومتی ہے جو ستاروں پر کمند ڈالنا جانتے ہوں معروف سینئر صحافی’ کالم نگار’ اینکرز رف کلاسرا کا شمار ان شخضیات میں ہوتا ہے جنہوں نے نا ممکن کو نہ صرف ممکن کر دکھایا بلکہ بہت تھوڑے عرصے میں جس طرح اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا وہ چھوٹے اور پسماندہ علاقوں سے شعبہ صحافت میں آنے والے نئے نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے *فیض* *احمد* *فیض* کی ایک بڑی انقلابی نظم ہے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول کہ زباں اب تک تیری ہے
تیرا استواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم وجاں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
اس نظم کا ایک ایک لفظ دل و دماغ میں جسے اترتا چلا جاتا ہے اور جسم وجان میں جوش وولولہ کی ہزاروں جوت جگا دیتا ہے *فیض* *احمد* *فیض* نے اپنی یہ نظم چاہے جس کسی کے لئے بھی تخلیق کی ہو لیکن موجودہ دور میں یہ سب سے زیادہ جس پر صادق آتی ہے وہ رﺅف کلاسرا ہے جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ کے علاقہ جیسال کلاسرا کی جٹ فیملی سے تعلق رکھنے والے کلاسرا اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ کلاسرا لکھتے ہیں وہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں زیر تعلیم رہے۔ سنیئر صحافی نے روزنامہ ڈان کے رپورٹر کے طور پر صحافت کے خار دار میں عملی قدم رکھا بعدازاں دی نیوز کے ساتھ منسلک ہوگئے۔وہ پیچیدہ مسائل پر جرات مندانہ منفرد اور غیر مقبول موقف اختیار کرنے کے لئے مشہور ہیں’سیاسی اتار چڑھاملک کی موجودہ سنگین صورت حال کی وجوہات’ بیورو کریسی کی ٹوٹتی’ جڑتی لڑیوں اور علاہ ازیں پس پردہ بہرپیوں کو جس خوبصورت اور مہذبانہ انداز میں انہوں نے بے نقاب کیا وہ ہر کسی کا خاصا نہیں ۔ جنوبی پنجاب کے ایک گاو¿ں کی گلیوں میں پروان چڑھنے والے انتہائی نفیس سادگی اور عاجزی کے پیکر کلاسرا نے کبھی بھی اپنے ماضی کو چھپانے کی کوشش نہیں کبھی یہ دعوی نہیں کیا ۔ وہ آج صحافت کے میدان میں جس بلند مقام پر موجود ہیںوہ ان کی محنت لگن اور اپنے پیشے کے ساتھ اخلاص کا ثبوت ہے۔صحافت کے حوالے سے اگر گزشتہ ڈیڑہ سو سال کے طویل عرصے پر نظر ڈالی جائے تو اردو صحافت کے بے باک اور نڈرعلم وعمل کے شیدائی اور فکر وفن کے سرتاج صحافیوں میں سے ایک نام روف کلاسرا کا بھی ہے ان کے نزدیک صحافت کوئی پیشہ یا محض تفریح طبع بہم پہنچانے کا ذریعہ نہیں’ انہوں نے صحافت کو فنکارانہ ہنر مندی کے ساتھ ضرور برتا مگر وہ اسی میں الجھ کر نہیں رہ گئے وہ فن اور لوازمات فن سے آگے اور بہت آگے چلے گئے انہوں نے اس سے وہی کام لیا جو کسی زمانے میں شمشیر وسناں اور تیر و تفنگ سے لیا جاتا تھا بلا شبہ انسان جب آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہے تو دوستوں کے ساتھ ساتھ اس کے دشمنوں کی تعداد میں بھی خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور ان میں دوست نما دشمنوں کی تعداد کچھ زیادہ ہوتی ہے جو موقع ملتے ہیں طنز وطعن’ الزام تراشی’ بہتان تراشی اور دشنام تراشی کی انتہا کردیتے ہیں کچھ اسی قسم کی صورتحال کا اس وقت ان کو بھی سامنا ہے انہوں جب جب سے ایک چینل کے مالکان کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کچھ ناامید مایوس اور دوست نما دشمنوں نے ایک خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا ہے نجی ٹی وی کے ایک خط کو بنیاد بنا کر ان کی ماہانہ تنخواہ پر تنقید کی جا رہی ہے اور صحافتی برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ بڑی شخصیات اور صحافی بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں میڈیا انڈسٹری بھی بڑی ظالم چیز ہے ایک تو اس کا ،،چسکا ،،کسی بھی تیز نشے سے کم نہیں اوپر سے اس شعبے میں ایک سے بڑھ کر ایک استاد بیٹھا ہے جو اپ کی ٹانگیں کھینچنے میں ایک منٹ بھی دیر نہیں لگاتا اور ایک بار اپ کے پاﺅں پھسل گئے تو پھر دوبارہ پاﺅں جمانا بڑا مشکل ہوتا ہے نجی ٹی وی نے روف کلاسرا کو جس بھی تنخواہ اور شرائط پر ہائر کیا یہ ان کا باہمی معاملہ ہے اول تو ہمارا ان پر تنقید کا کوئی حق نہیں بنتا کیونکہ یہ پیشہ ہماری جیب یا سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ ایک سرمایہ دار کی جیب سے جارہا تھا دوسرا چینل کے مالکان نے ہائرنگ سے قبل ان کی مارکیٹ ویلیو کا پتہ چلایا اور اس کے بعد ہی انہیں پیکج آفر کیا اگر انہوں نے ایسا نہیں تو تو یہ ان کے بیوقوف ہونے کی نشانی اور چینل بند ہونے کی بڑی وجہ ہے اب جبکہ چینل مالکان اوران کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا ہے تو فورا ًاوور ریٹڈ اوور پیڈ جیسے طعنے مارنا انتہائی قابل افسوس امر ہے انکے خلاف ہر چھ ماہ بعد سوشل میڈیا پر ایک بھرپور مہم شروع ہوجاتی ہے اس مخالفانہ مہم کو شروع کرنے والے کبھی اپنے ہوتے ہیں تو کبھی غیر لیکن چند مخصوص عناصر اس مہم میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنا اور اس کو بام عروج پر پہنچانا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں اور اس وقت بھی یہی کچھ ہورہا ہے ،نجی ٹی وی کے حوالے سے کلاسرا کیخلاف مکمل اور باقاعدہ منصوبہ بند یک طرفہ سوشل میڈیا مہم کو دیکھ اور پوسٹوں کو پڑھ کر بے اختیار منہ سے نکلتا ہے یاروں کی خاموشی کا بھرم کھولنا پڑا اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا رﺅف کلاسرا نے اپنا حق مانگا اور بغض کلاسرا کے شکار مردو زن لٹھ لے کر انکے ہی پیچھے پڑ گئے اور سیٹھ کی دلالی کرنے لگے( معذرت لفظ ذرا سخت ہے لیکن اس عمل کیلئے اس سے بہتر لفظ نہیں ملا۔کلاسرا صاحب ایک چینل میں شاندار سیلری لے رہے تھے،مذکورہ نجی ٹی وی نے رابطہ کیا اوردو سال کا معاہدہ کیا کہ اگر آپ 2 سال پہلے چھوڑ کے گئے تو جو تنخواہیں لیں ہوں گی وہ بھی واپس کرنی پڑیں گی اور اگر ہم نے آپ کو نکالا تو ہم آپ کو بقایا تنخواہ دیں گے۔رﺅف کلاسرا کا شمار اس وقت تحقیقاتی صحافت کرنے والے پہلے دو تین صحافیوں میں ہوتا ہے اگر کسی چینل میںان جیسا تحقیقاتی صحافی بیٹھا ہو تو چینل مالک اس سے اپنے لئے کئی آسانیاں پیدا کروالیتا۔ جو معاوضہ طے ہوا وہ گن پوائنٹ پر نہیں ہوا تھا دونوں پارٹیوں کی باہمی رضا مندی سے طے پایا اب اگر ایک پارٹی اس پر عمل نہیں کرتی تو دوسری پارٹی کو ہر حق حاصل ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کیلئے تمام قانونی رستے اپنائے ۔ان کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری انتہائی گھٹیا مہم کا مقصد صرف اور صرف ایک مڈل کلاس سیلف میڈ کو نیچا دکھانا ہے میں اس مہم میں ایسے لوگوں کے چہرے ونام بھی دیکھ رہا ہوں جن کا کسی دور میں گھر اور تعلیم کا خرچہ انکے دیئے گئے پیسوں سے چلتا تھا۔ بہرحال جھوٹ’الزام تراشی کے اس بازار میں انکا سب سے بڑا جرم ان کی عاجزی وانکساری ہے ۔وہ عام آدمی سے بھی ایسے ملتے ہیں جیسے دہائیوں کی شناسائی ہو خدا ترسی اتنی ہے کہ اسی چکر میں نقصان بھی اٹھا بیٹھتے ہیں دوسرا یہ کہ آدھے شہر کو اپنے سچ اور تحقیقاتی خبروں و سکینڈلز سے مخالف کر لیا تو آدھے کو سفارش نہ مان کر اور یہ جرم بعض لوگوں کے نزدیک ناقابل معافی ہے۔کچھ اینکرز ان سے بھی زیادہ پیکج لے رہے ہیں تو وہاں ان کی زبانیں گنگ کیوں ہیں وہ صحافت کے خار دار میں قدم رکھنے والے نئے صحافیوں کیلئے ایک انسٹی ٹیوشن اور امید کی کرن ہیں جو اپنے پہلو میں بٹھا کر اس شہر بے وفا کی حقیقت بتاتے ان کو راستہ دکھاتے اور زیرو سے ہیرو بناتے ہیں رف کلاسرا اچھا نہیں کیوں کہ وہ آپ کی نظر میں ایک سیلف میڈ مڈل کلاس اور پینڈو ہے وہ امریکا برطانیہ کی بجائے جیسال کلاسرا کی باتیں کرتا ہے وہ گمنام گاو¿ں کے آخری مزار کا نوحہ لکھتا اور آج بھی اپنے گاو¿ں کے بابوں کو یاد کرتا ہے ڈائجسٹ کی کہانیوں کے مزے لیتا ہے آپ کو اس کی تکلیف ہے’اور مجھے فخر ہے کہ میں بھی پینڈو ہوں روف کلاسرا ایک نام نہیں بلکہ ایک انسٹیٹیوٹ ہیں اور سیکنڑوں نوجوان اس انسٹیٹیوٹ سے فیضیاب ہوکر صحافی دنیا میں اپنا نام کما رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے