دنیا کے بیشتر انسان آج بھی تعلیم، صحت، خوراک اور آزادی جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، لیکن عالمی اسٹیبلشمنٹ ہمیں مسلسل یہ یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ ہم ایک ”مہذب، ترقی یافتہ اور انصاف پر مبنی دنیا” میں جی رہے ہیں۔ یہ دعویٰ جس نظام سے وابستہ ہے، وہ ہے سرمایہ دارانہ نظام — جو ترقی کا جھوٹا خواب، انصاف کا مصنوعی دعویٰ، اور انسانی مساوات کا کھوکھلا نعرہ ہے۔یہ نظام دنیا میں دولت اور وسائل کو چند ہاتھوں میں سمیٹ کر باقی انسانوں کو فاقہ کشی، محرومی اور غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ دنیا کی ایک فیصد اشرافیہ آدھی سے زیادہ دولت پر قابض ہے جبکہ باقی 99 فیصد آبادی کے حصے میں صرف جدوجہد، محرومی اور قرض آتا ہے۔ یہ نظام محنت کش سے دن رات مشقت کراتا ہے مگر بدلے میں اسے اتنا ہی دیتا ہے کہ وہ زندہ رہ سکے — ترقی کا وعدہ بس وعدہ ہی رہتا ہے۔سرمایہ داری نے انسان کی زندگی کو اشیائے صرف کا بازار بنا دیا ہے۔ اشتہارات کے ذریعے ایسی خواہشات پیدا کی جاتی ہیں جو فطرت سے میل نہیں کھاتیں۔ یوں انسان خود کو کبھی مکمل محسوس نہیں کرتا، وہ مسلسل کچھ خریدنے، کچھ حاصل کرنے، اور کسی نئی چیز کی طلب میں سرگرداں رہتا ہے۔ اس بھاگ دوڑ میں انسان اپنی اصل شناخت، سکون، اور تعلقات سب کچھ کھو دیتا ہے۔جمہوریت کا نعرہ دینے والے سرمایہ پرست ممالک دنیا میں صرف اپنی مرضی کی حکومتوں کو برداشت کرتے ہیں۔ جہاں ان کے مفادات پورے ہوں، وہاں بادشاہت اور آمریت بھی قابل قبول ہو جاتی ہے۔ مگر جہاں عوامی رائے ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنے، وہاں جمہوریت دشمنی کا لیبل لگا کر حکومتوں کو گرا دیا جاتا ہے۔ عراق، افغانستان، شام، لیبیا اور دیگر ممالک اس کی زندہ مثالیں ہیں۔انسانی حقوق کے نعرے صرف وہاں لگتے ہیں جہاں مغربی طاقتوں کو سیاسی یا عسکری فائدہ درکار ہو۔ فلسطین، کشمیر، یمن اور برما جیسے مظلوم خطوں کے لیے نہ کوئی قرارداد آتی ہے، نہ حملہ ہوتا ہے، نہ کوئی کانفرنس بلائی جاتی ہے — کیونکہ وہاں صرف مظلوم انسان بستے ہیں، سرمایہ دارانہ مفادات نہیں۔غریب ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے قرضوں میں جکڑا جاتا ہے، پھر ان قرضوں کے عوض ان کی خودمختاری، وسائل اور پالیسیاں گروی رکھ لی جاتی ہیں۔ افریقی ممالک سے تیل اور معدنیات، ایشیا سے محنت اور مشرق وسطیٰ سے جغرافیائی رسائی — سب کچھ سرمایہ دار اقوام کے شکنجے میں آ چکا ہے۔اپنے عالمی عزائم کی تکمیل کے لیے یہ طاقتیں فساد برآمد کرتی ہیں۔ افغانستان میں ”جہاد” کو مقدس عنوان دے کر اسلحہ، تربیت اور مذہب کو ایک مقصد کے تحت استعمال کیا گیا۔ نتیجہ: پچاس لاکھ انسانی جانوں کا ضیاع، ایک نسل کی تباہی، اور دائمی عدم استحکام۔ شام میں داعش کی سرپرستی کر کے حکومتی نظام کو تہس نہس کیا گیا۔ آج بھی مخصوص علاقوں میں شدت پسند گروہوں کو استعمال کیا جاتا ہے — بسا اوقات یہ عناصر مخصوص ایجنڈوں کی تکمیل میں مہرے بن جاتے ہیں، مگر انہیں عالمی میڈیا میں ”انتہاپسند دشمن” بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ ساری توجہ اس طرف رہے اور اصل کردار محفوظ رہیں۔ ایسا نظام جو امن کے نام پر جنگ کرے، انصاف کے نام پر قتل کرے، جمہوریت کے نام پر آمریت لائے، کیا وہ واقعی انسانی ترقی کا نظام کہلانے کا حقدار ہے؟ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ جو ہمیں آزادی? اظہار کا درس دیتا ہے، وہی اپنی مخالفت برداشت نہیں کرتا؟ جو معاشی آزادی کی بات کرتا ہے، وہی غریب ممالک کو سودی قرضوں میں جکڑ کر معاشی غلامی میں دھکیل دیتا ہے۔وقت آ گیا ہے کہ ہم اس نظام کی چمک سے دھوکا نہ کھائیں۔ یہ نظام ہمیں صرف صارف بناتا ہے، سوچنے والا انسان نہیں۔ ہمیں ایسے متبادل کی تلاش کرنی چاہیے جو انسان کو اس کی اصل قدر، مساوات، وقار اور روحانی سکون لوٹا سکے۔اسلامی معیشت، سوشلسٹ اصول یا فلاحی ریاست — یہ تمام ماڈلز کم از کم انسان کو اشیاء سے بڑھ کر ”انسان” سمجھنے کا دعویٰ تو رکھتے ہیں۔ اصل تبدیلی نظام میں نہیں، ذہن اور نیت میں ہونی چاہیے۔ جب تک ہم ترقی کو صرف منافع سے جوڑتے رہیں گے، تب تک یہ زمین صرف چند ہاتھوں کی جاگیر بنی رہے گی، اور باقی انسان محض زندہ لاشیں۔کیا ہم ترقی کی ایسی تعریف کو قبول کرتے رہیں گے جو لاکھوں انسانوں کے خون پر کھڑی ہو؟کیا ہم سرمایہ داری کی چمک دمک کے پیچھے اصل مظالم کو دیکھنے کی ہمت کریں گے؟کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم خاموش تماشائی بننے کے بجائے، سوال کرنے والے شہری بنیں؟اگر ہم نے نہ سوچا، نہ بدلا — تو آنیوالی نسلیں ہمیں معاف کریںگی؟