لگتا ہے روٹی ناپید ہوتی جارہی ہے اور وہ اپنی قسمت کو رورہے ہیں ۔جو بھی بحران آتا ہے کہاجاتا ہے کہ یہ مصنوعی ہے ، حکومتی حلقے یہی گردان رٹ رہے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ یہاں جو بھی بحران ہوتا ہے وہ مصنوعی ہوتا ہے جو پیدا کیا جاتا ہے در اصل یہ سرمایہ داروں کا کھیل ہے جو یہ عناصر باری باری کھیلتے ہیں کبھی آٹے کا بحران پیدا کیا جاتا ہے اور کبھی سیمنٹ اور سریا اور کبھی چینی اور گھی کا بحران پیدا کیا جاتا ہے ۔ اقتدار کے مزے لوٹنے والے حکمران اور اور اپوزیشن کہلانے والے سیاستد ان سب نے عوام کو مایوس کیا ہے ان کے پاس عوام کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے اور نہ وہ عوامی مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ان کو تو بس اقتدار اور کرسی اور وردی کی فکر پڑی ہے کوئی ایک طبقہ بھی ایسا نہیں ہے جو عوام کے سامنے اپنی صفائی پیش کرسکے پاکستان کے جاگیردار ہو یا سرمایہ داران اور بیوروکریٹ ہوں یا مذہبی سیاسی رہنماﺅں سب کے ہاتھ قومی مفادات کے خون سے رنگے ہوئے ہیںاین آر او کے تحت جاری کردہ فہرست اس کی دلیل ہے۔ قوم کے جو حقیقی لیڈر ور عوام کے صحیح نمائندے تھے طاقتور مفادپرست عناصر نے انہیں ملک اور قوم کیلئے انہیں سیکورٹی رسک قراردیکر قتل کروادیا اور یا وہ زمانے کی ٹھوکروں کی نظر ہوگئے اور ان کی جگہ دو نمبر کی سیاستدانوں لے لی جو مفادات کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے اور ملک میں آٹے کا بحران ہو یا چینی کا یہ سب کچھ ان مفاد پرستوں کا کیا دھرا ہوتا ہے اور قرائن بتارہے ہیں کہ اگر مفاد پرستی کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہ تو آنے والے سالوں میں ملک کے حالات مزید ابتر ہونگے،ماں باپ کیلئے اپنے بچوں کا پالنا مشکل ہوجائیگا اور خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہوجایگا ۔سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی صورت میں قابل اصلاح نہیں ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی مرمت کر کے اسکی اصلاح کی جائے موجودہ دور کی تباہ کاریوں کی بنیادسرمایہ دارانہ نظام اس نظام کی بقا جنگوں کے ساتھ وابستہ ہے دنیا میں جنگ ہوگی اور ممالک آپس میں جنگ پر آمادہ ہونگے تو اس نظام کی چکی چلتی رہیگی اسلئے یہ نظام دنیا میں امن نہیں چاہتا ہے اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل امریکہ ہے اور اگر دیکھا جائے تو اس کی جڑی اندر سے کھوکھلی ہیں اور یہ حالت نزع کی آخری ہچکیاں لے رہا ہے روس چین اور دوسرے علاقائی ممالک کا ایک دوسرے کے قریب آنے سے امرکی نظام کی نیند یں حرام ہوگئی ہے اور اسی بنا پر وہ پیچ وتاب کھارہا ہے اسلحہ کا بیوپاری اب تنہا ہوتا جارہا اور اب دہشت گردی کےخلاف موثر آپریشن بھی اس کیلئے گلے کی ہڈی ثابت ہورہا ہے یہ اب کوئی راز نہیں کہ دہشت گرد کس کے پیدا کردہ ہیں اور ان کو اسلحہ کون دے رہا ہے؟۔ اس وقت ہر پاکستانی ذہنی کرب میں مبتلا ہے اور باشعور حلقے یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا الیکشن سے تبدیلی ممکن ہے؟ پاکستان کے بہادر عوام ہیں اور نہایت غیور ہیں لیکن وہ جس نظام کے زیر اثر ہیں وہ سرمایہ دارانہ ہے اور سرمایہ پرستی کے جراثیم نے ہر چیز کو آلودہ کر دیا ہے اب ضرورت ہے اس نظام سے نجات کی ہے یہاں تو چہروں کی تبدیلی ہوتی ہے ایک کی جگہ دوسرا مسلط ہوجاتا ہے سرمایہ دارانہ نظام میں شخصیات کے آنے جانے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر آنےوالا دوسرے سے بدتر ہوتا ہے ۔ اس وقت جدوجہد کسی شخصیات اور افراد کے آنے جانے کےلئے جدوجہد نہیں ہونی چا ہیے بلکہ ملک عزیز میں سب جدوجہد سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف ہونا چائیے کیونکہ یہ نظام انسانیت کا دشمن ہے اور یہ نظام نہ انسان کے اخلاق خراب کر کے اسے خدا پرستی سے دور کر کے سرمایہ پرستی میں مبتلا کر دیتا ہے بلکہ یہ نظام انسان دوستی کا بھی دشمن نظام ہے چونکہ اس نظام کی بقاءظلم سے وابستہ ہے اور یہ نظام فساد اور طبقات پیدا کرتا ہے اس لیئے ساری جدوجہد اس نظام کیخلا ف ہونی چائیے کیونکہ خرابی نظام میں ہے!۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیر اثر دنیا کا سرمایہ دارانہ نظام دنیا کی ہر قوم کو نگل رہا ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کا تعاون بھی اس نظام کو حاصل ہے ۔ سرمایہ دار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتا کہ غریبوں کا گزر اوقات کس طرح ہوتاہے اور ان کے گھر کا چولہا کس طرح جلتا ہے اور ماں بھوکے بچوں کو کھانادینے کی بجائے لوریا اور جھوٹے کہانیاں سناتی ہیں جن کے کردار شہزادہ اور شہزادی ہوتے ہیں اور یہی سے ان بچوں کی ذہن سازی ہوتی ہے اوروہ کیپٹل ازم کی وباءکا شکار ہوجاتے ہیںکہ دنیا کے مزے اور عیاشیاں تو ان کیلئے ہیں ۔ یہ اصل میں راہزن ہیںاور انہوں نے اگر ایٹم بم وغیرہ بھی بنادیا ہے تو کیا ایٹم بم کھانے کی کوئی چیز ہے ؟یہاں تو عوام کو روٹی کا مسئلہ درپیش ہے ،لیکن یہاں تو گنگا الٹی بہتی ہے جو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتے ہیں ان کو سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے اور میدان مفاد پرست سرمایہ پرست سیاستدانوں کو خالی چھوڑدیا جاتاہے جواپنی تجوریوں اور آنےوالے الیکشن کی تیاریوں کیلئے غریب عوام کی کمائی کوہڑپ کرنے کی کوشش کا کوئی حربہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔!