کالم

سرور پیلس کے آنسو اور مرید کے کا لہو

زمانہ بدل گیا ہے، چہرے بدل گئے ہیں، مگر احساسات نہیں بدلے۔ میں آج بھی وہ لمحہ نہیں بھول سکا جب سرور پیلس کے پرنور ہال میں ایک ایسی فضا قائم ہوئی کہ وقت جیسے ٹھہر گیا ہو۔یہ 2002 کی بات ہے، جلاوطنی کے دن تھے۔ میں ان دنوں سعودی عرب میں پاکستان کے مفاد کیلئے سرگرم تھا۔ شہباز شریف تب لندن سے جدہ آئے ہوئے تھے۔ وہ وطن سے دور تھے، مگر ان کے دل میں پاکستان کا درد زندہ تھا۔ ہم چند قریبی لوگ ان کے گرد بیٹھے تھے۔گفتگو سیاست سے شروع ہوئی، پھر دھیرے دھیرے انسانی المیے کی طرف مڑ گئی ۔ میں نے اس موقع پر ایک اخباری خبر ان کے سامنے رکھی جو اس وقت کے پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ خبر کا عنوان تھا:اٹھو شہباز شریف،ہمیں بچا لو۔یہ ایک بیٹی کی پکار تھی ایک سادہ گھریلو خاتون جسکے گھر ڈاکو گھس آئے تھے، اور اس نے اپنی جان پر کھیل کر ڈاکوئوں کا مقابلہ کیا تھا۔ میں نے جب وہ خبر پڑھ کر سنائی تو شہباز شریف خاموش ہو گئے۔ انکی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ وہ دھیرے سے بولے:یہ ہے میرا پاکستان، یہ ہے میری قوم۔اسی لمحے انہوں نے راشد بٹ کو لاہور میں فون کر کے کہا:”اس بیٹی کو پچاس ہزار روپے پہنچا، یہ میرا سلام لے جانا۔اور واقعی، وہ رقم بھیجی گئی کسی حکومتی حکم کے تحت نہیں بلکہ دل کے حکم سے۔وہ لمحہ میرے دل پر نقش ہو گیا۔ میں نے ان کے جذبے کو سراہتے ہوئے عطاالحق قاسمی کا شعر ایک کاغذ پر لکھ کر انہیں دیا:
ظلم بچے جن رہا ہے، کوچہ و دیوار سے
اب عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے
یہی شعر وہ اس کے بعد ہر تقریر میں پڑھنے لگے۔ ان کی آواز میں سوز ہوتا، اور مجمع پر خاموشی چھا جاتی۔اس وقت کا شہباز شریف ایک احساس رکھنے والا انسان تھا، جو مظلوم کی آہ پر تڑپ اٹھتا تھا۔مگر وقت گزرا، مناصب آئے، اقتدار کے رنگ چڑھے اور آج، جب میں مرید کے میں ہونے والے ظلم و جبر کی تصویریں دیکھتا ہوں، تو وہی شخص مجھے یاد آتا ہے۔ وہی شہباز شریف جسکی آنکھوں میں ایک مظلوم بیٹی کی خبر پڑھ کر آنسو آ گئے تھے، آج ان کے حکم پر اپنے ہی لوگوں پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔کیا اقتدار انسان کے احساسات کو منجمد کر دیتا ہے؟ کیا منصب انسان سے انسانیت چھین لیتا ہے؟میں نے ان سے ایک دن کہا تھا،جناب، آپ سیاستدان ضرور ہیں مگر آپکے دل میں ایمان کی حرارت ہے، اسے کبھی بجھنے نہ دیجیے گا۔لیکن آج حالات دیکھ کر دل کہتا ہے کہ شاید وہ شعلہ اب راکھ میں بدل چکا ہے۔میں نے اپنی زندگی میں بہت سے ادوار دیکھے ،1974 میں تحریک ختمِ نبوت کے دوران اسیری کے دن،جب جیل کے دروازے میرے لیے کھلے۔پھر جنرل مشرف کے دور میں جب جنرل درانی نے مجھے جدہ میں قید کر دیا کیونکہ میں نے چند بیگناہ پاکستانیوں کے حق میں آواز بلند کی تھی۔میں نے جبر کے ہر دور میں یہی سوچا کہ ریاست طاقت کے زور پر وقتی سکون تو حاصل کر سکتی ہے، مگر قوم کے دل کبھی نہیں جیت سکتی۔ آج جب میں اپنے وزیراعظم کو امریکی صدر کے ساتھ ہاتھ ملاتے دیکھتا ہوں، جب ٹرمپ انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہیں، تو دل کے اندر ایک خوف سا اٹھتا ہے۔میں سوچتا ہوں۔کیا وہ لمحہ انہیں یاد نہیں آتا جب قرآن نے فرمایا تھا:یہود و نصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔وہ تم سے ہاتھ ملاتے ہیں مگر دل میں تمہارے خلاف سازشیں بنتے ہیں۔وزیراعظم صاحب! یہ ہاتھ دوستی کا نہیں، دباؤ کا ہاتھ ہے۔یہ اس ملک کے وزیراعظم کے کندھے پر رکھا گیا ہاتھ ہے جس کے پاسپورٹ پر آج بھی لکھا ہے:یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا تمام ممالک کیلئے کارآمد ہے۔کیا آپ کو قائداعظم کے وہ الفاظ یاد نہیں جنہوں نے فرمایا تھا:اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں ایک ناسور ہے، اسے تسلیم کرنا امتِ مسلمہ کی شکست ہوگی۔اور وہی جذبہ آج عمران خان میں زندہ ہے ،جب ان سے اسرائیل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا؛میرا فیصلہ وہی ہے جو قائداعظم کا فیصلہ تھا۔یہی وہ نظریہ ہے جس پر پاکستان بنا تھا۔لیکن افسوس، آج کے حکمران اسی نظریے سے غداری کر رہے ہیں۔میں نے محمود خان اچکزئی کا بیان سنا ،انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمران حجاج بن یوسف کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔اور میں نے دل ہی دل میں سوچا:شاید وہ غلط نہیں کہہ رہے۔کیونکہ جب ریاست اپنے ہی شہریوں پر ظلم کرے، جب احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلائی جائیں، جب ماں بہنوں کو زنجیروں میں جکڑا جائے، تو پھر یہ جمہوریت نہیں، یہ حجاج کا دور ہے۔میں آج شہباز شریف سے ایک سوال کرتا ہوں ۔جناب وزیراعظم!کیا آپکو وہ دن یاد ہے جب آپ سرور پیلس کے اس لان میں بیٹھے تھے، جہاں آپکی آنکھوں سے آنسو بہے تھے؟کیا آپکو وہ بیٹی یاد ہے جس کیلئے آپ نے پچاس ہزار روپے بھجوائے تھے؟کیا آپ کو وہ لمحہ یاد ہے جب آپ نے کہا تھا:”میں مظلوم کے ساتھ ہوں۔تو آج وہی مظلوم مرید کے کی سڑکوں پر خون میں نہا گئے۔میں آپ سے دشمنی نہیں کر رہا، بلکہ یاد دہانی کروا رہا ہوں۔اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا۔ تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔کاش آپ اس وقت عطاالحق قاسمی کا وہی شعر پھر سے دل میں دہرا لیں ،”ظلم بچے جن رہا ہے، کوچہ و دیوار سے …”کیونکہ اگر عدل نے خاموشی اختیار کی ، تو ظلم نسل در نسل پھیل جائے گا۔میں آج بھی وہی شخص ہوں وہی جو غربت سے نہیں بلکہ محنت کش گھرانے سے اٹھا جس کے والد چوہان میٹل ورکس کے معروف صنعتکار تھے ، جس نے گوجرانوالہ اور لاہور میں تعلیم پائی ، اور زندگی کا بڑا حصہ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی خدمت کرتے گزرا۔میری آج کی فریاد بھی وہی ہے جو کل تھی: پاکستان کو بچا لیجیے۔اس ملک کی سیاست سے انتقام، نفرت اور اقتدار کی ہوس کو نکال دیجیے ۔کیونکہ اگر قوم کے آنسو خشک ہو گئے تو پھر کسی کے آنسو نہیں بہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے