منافع بخش سرکاری کمرشل ادارے معیشت کا جھومر سمجھے جاتے اور قومی خزانے کی آبیاری کے ساتھ افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتے ہیں بدقسمتی سے پاکستان کے وہ ادارے جو کبھی ریونیو فراہم کرتے تھے آج الٹا معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے بھاری بھرکم قرضے لینے پڑ رہے ہیں وفاقی حکومت نے 24سرکاری اداروں کی تین مراحل میں نجکاری کا فیصلہ کر لیا ہے وفاقی وزیر برائے نجکاری عبد العلیم خان نے سرکاری اداروں کی نجکاری کی تحریری تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کر دی ہیں پہلے مرحلے میں قومی ایئر لائن، روز ویلٹ ہوٹل نیویارک فرسٹ وومن بینک لمیٹڈ، ہاس بلڈنگ فنانس کارپوریشن زرعی ترقیاتی بینک، سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ اور گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ کی نجکاری ہو گی دوسرے مرحلے میں پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن، جامشورو پاور کمپنی لمیٹڈ سینٹرل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ ناردرن پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ لاکھڑا پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ ہزارہ الیکٹرک سپلائی کمپنی حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ اور سکھر الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ کی نجکاری کی جائے گی یاد رہے کہ کابینہ کمیٹی برائے نجکاری نے 2اگست 2024 کو 24 تجارتی ریاستی ملکیتی اداروں کو نجکاری پروگرام میں شامل کرنے کی منظوری دی تھی فیصلے کی توثیق وفاقی کابینہ کی جانب سے 13 اگست 2024 کو کی گئی نج کاری اس عمل کو کہتے جس کے تحت کسی بھی سرکاری نیم سرکاری یا سرکاری ایجنسیوں کے زیر انتظام ادارے کو نجی ملکیت میں دے دیا جائے نقصان میں رہنے والے اداروں کی نج کاری سے عموما ادارے کی کارکردگی اور خدمات میں بہتری آتی ہے اور ادارہ کچھ عرصے میں منافع بخش بن جاتا ہے لیکن منافع بخش ادارے کی نج کاری ملک کیلئے گھاٹے کا سودا اور حکمرانوں کی بد عنوانی کا نتیجہ ہوتی ہے عصر حاضر میں نجکاری امپیریل کنٹرول کے تحت کی جاتی ہے اسے یوں بھی دیکھا جائے کہ بین الاقوامی بینک اسٹاک مارکٹیں اور مقامی حکمران نجکاری کے اس عمل سے فائدے حاصل کرتے ہیں جن کا حتمی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آلودگی اور بڑھتی ہوئی آبادی کے کرپشن زدہ بے ہنگم انتظامی شہروں میں ہر قسم کی کرنسی کی یلغار سے کسینو معیشت کو تقویت دی جائے اس سے عالمی سرمائے کے مردہ ڈالروں کی گلوبلائزیشن میں جان پڑ جاتی ہے گلوبلائزیشن کا استحصال متحرک ہو جاتا ہے اور سٹہ باز جگہ جگہ اپنی دولت پارک کر کے اسٹاک مارکیٹوں میں جوا کھیل کر اناڑیوں کی دولت لوٹ لیتے ہیں اور چھاپے گئے منجمد پڑے ہوئے کھربوں ڈالر متحرک ہو کر غریب دنیا کو صارف کی منڈی بنا کر قرضوں میں جکڑ دیتے ہیں نجکاری کے پروگرام کو ترتیب دے کر امپیریل فنڈ وصول کرنیوالے مشیر معاشی دہشت گرد اور مقامی ملکی حکومتیں مع ایجنسیوں کے یہ کام سر انجام دیتی ہیں قیمتوں کا تعین کرنے کے علاہ یہ حلقے با اثر خریدار کو متوجہ بھی کرتے ہیں سرمایہ داروں کا عالمی پیرس کلب اس عمل کی نگرانی کرتا ہے اور اپنے پروکسی کے ذریعے اس لو پروکسیٹ میں اپنا حصہ بھی لیتا ہے نجکاری کا دائرہ عمل یا احاطہ کار اور فریم ورک کا تعین معاشی طاقتوں کے ایما پر عالمی مالیاتی ادارے کرتے ہیں چنانچہ عوام کی کمائی پر ہوئی ٹیکسوں کی آمدنی اور ان سے بنائے ہوئے قومی اثاثے عالمی سرمایہ داروں کو منتقل ہو جاتے ہیں جن کی واپسی ممکن نہیں نجکاری کے عمل سے مقامی سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ ہی پیداواری قوتیں توانا ہوتی ہیں جس سے عوام کو فائدہ ہو نجکاری کے یہ معنی نہیں ہیں کہ صرف کسی ادارے کو ٹیک اوور کرنا ہے بلکہ ایسے پیداواری اسٹرکچر کو ختم کرنا مقصود ہوتا ہے جو عالمی مسلط کردہ سامراجی کنٹرول یا عالمی سرمائے کیلئے چیلنج ہو اس لئے ان طاقتوں کو اس امر سے کوئی غرض یا دلچسپی نہیں کہ پرانا اسٹرکچر قائم رہتا ہے یا نہیں اس سارے کھیل میں اجتمائی جدوجہد سماجی انصاف کا حصول اور تبدیلی کا عمل ابہام کا شکار ہو کر دم توڑ دیتا ہے اور نتیجے میں قومی ریاست کا تشخص عالمی تجارتی تنظیم اور آئی ایم ایف کے تابع ہو جاتا ہے جدید دور میں ترقی سے مراد قرضوں سے زر مبادلہ کے ذخائر بنانا نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی خود مختاری کا راستہ کھلا رکھنا ہے پاکستان آئی ایم ایف کی اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کی شرائط میں بری طرح پھنس چکا ہے وہ ہدایت کرتا ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھا وزیر خزانہ بڑھا دیتے ہیں وہ کہتا ہے اپنے اثاثوں کی نجکاری کرو تا کہ قرضوں کی ادائیگی ہو آپ پہلے اپنے اثاثوں کو خراب کرتے ہیں پھر اونے پونے داموں میں فروخت کر دیتے ہیں وزیر اعظم شہباز شہباز شریف سمیت دیگر حکومتی عہدیداروں کا یہ بجا ہے کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری سے ٹیکس دہند گان کے پیسے کی بچت ہوگی مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ 50 سے لیکر 70کی دہائی تک خسارے میں چلنے والے تمام ادارے منافع میں جا رہے تھے پھر بد نصیبی سے یہ تمام حکومتی ملکیتی ادارے سیاسی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے حکومتی ملکیتی اداروں کے خسارے میں جانے کی وجوہات میں نالائق اور نا اہل لوگوں کی اعلیٰ سطح پر بھرتی سیاسی اثر و رسوخ اور سب سے بڑھ کر رشوت اور بد عنوانی کا سرایت کر جانا ہے جس کے باعث غیر دستاویزی اور غیر قانونی معیشت پروان چڑھی ہے جس کا سالانہ حجم کھربوں میں ہے اور یہ بھاری بھرکم رقوم جو قومی خزانے میں جانی چاہئیں بد عنوان اہل کاروں کی تجوریوں میں جارہی ہیں ان میں بعض ایسے ادارے شامل ہیں جہاں ممکن ہے بد عنوانی کا عنصر موجود نہ ہو لیکن وسائل کی کمی عدم توجہ یا نجی شعبے سے مسابقت کی سکت نہ ہونے سے خسارے میں جارہے ہیں حکومت کا اسٹریٹجک ریاستی ملکیتی اداروں کے علاہ دیگر تمام حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کر چکی ہے تو پھر اسے اس ضمن میں اپنا ہوم ورک مکمل کر لینا چاہیے خصوصاً نجکاری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانا پہلی ترجیح ہونا چاہیے تاکہ اس پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔