کالم

سرکار بنام ذوالفقار علی بھٹو وغیرہ!

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے عدالتی فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کےلئے پاکستان کے موجودہ صدر آصف علی زرداری کے اپنے پہلے دور سال 2011میں سپریم کورٹ میںبھٹو ریفرنس جو دائر کیا گیا بالآخر اسکا فیصلہ انہی کے دوسرے دور سال 2024 میں ہو چکا ہے جسمیں قرار دیا گیا ہے کہ بھٹو کا ٹرائل قانون کے مطابق ایک فیئر ٹرائل نہیں تھا۔ یاد رہے ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں جرم ثابت ہونے پر لاہور ہائی کورٹ سے سال 1978 میں سزائے موت سنائی گئی اور جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے مارچ 1979 کے اپنے ایک منقسم فیصلے میں بھٹو کےخلاف موت کی سزا برقرار رکھی تھی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کو کبھی بھی قبول نہیں کیا جو انکے مطابق اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دباو¿ میں فیصلہ دیا گیا تھا ۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اس کو عدالتی قتل قرار دیا۔ البتہ صدارتی ریفرنس کے اختتام پر یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ سپریم کورٹ نے آیا اپنی غلطیوں کی تلافی کرنے کی کوشش کی ہے، کسی طاقتور کو اسکا ذمہ دار ٹھہرایا ہے یا صرف گونگلووں سے مٹی جھاڑی ہے۔نواب احمد رضا خان قصوری ہمارے آج کے مشہور و معروف قانون دان اپنے والد کے قتل میں بھٹو مرحوم کے خلاف مثتغیث تھے جنکا الزام تھا کہ 11نومبر 1974 کی رات کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ایما پر ان پر حملہ کروایا گیا جسمیں وہ تو محفوظ رہے لیکن گاڑی میں ساتھ بیٹھے انکے والد نواب محمد احمد خان سر میں گولیاں لگنے سے وفات پا گئے۔ اس دور میں نواب احمد رضا بھٹو مرحوم کے قریب ترین ساتھی شمار ہوتے تھے بعد میں مبینہ طور پر کچھ پالیسی اختلافات کےساتھ ساتھ سیاسی تنازعات اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ مسٹر بھٹو مرحوم نے انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہوا تھا۔ کئی بار کوشش کی گئی انکے قتل کی کیونکہ قصوری صاحب انکی ایک نہیں مانتے تھے۔ "جو ڈھاکہ جائے گا اسکی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی کی واضح دھمکی کے باوجود مسٹر قصوری ڈھاکہ چلے گئے جسکا بعد میں بہت ہی برا نتیجہ نکلا کہ اس دور میں انکی گاڑی پر حملہ کروایا گیا جسمیں انکے والد گرامی کو اس قاتلانہ حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ مدعی کا دعویٰ تھا کہ مسٹر بھٹو کی قائم کردہ ایف ایس ایف کے کرتا دھرتا مسعود محمود وغیرہ نے بھٹو کے ایما پر ہی یہ حملہ کروایا تھا ، نواب احمد رضا خان نے ابتدائی رپورٹ تو بھٹو کے دور ہی میں درج کروا دی تھی لیکن اس پر فوری کارروائی چونکہ ممکن نہ تھی اس لیے ایف آئی آر کو سر بمہر کر دیا گیا اور جب بھٹو مرحوم کا زوال شروع ہوا تو سال 1977کو بھٹو صاحب کو اس مقدمہ میں جنرل ضیا الحق کے دور میں گرفتار کر لیا گیا اور یوں پھر سے بند طاقچوں سے یہ فائل برآمد ہوئی اور اس پر عام سیشن کورٹ کی بجائے ڈائریکٹ لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل شروع ہوا۔ بھٹو مرحوم کے وکیل جناب یحی بختیار تھے اور پراسیکیوشن کے ساتھ ساتھ مدعی مقدمہ نے بھی اپنے موقف کو ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ مسٹر بھٹو کو بالآخر 18 مارچ 1978 کو سزائے موت سنائی گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قید و بند کے باوجود مسٹر بھٹو کے شیدائی لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے لیکن اسوقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اتنی طاقتور تھی کہ اس نے کسی کی چلنے نہ دیتی۔ سیکڑوں ہزاروں سیاسی ورکروں کو گرفتار کیا جاتا، سر عام کوڑے مارے جاتے، کسی صحافی کی جرات نہ ہوتی کہ وہ جابر اور ظالم حکمران کے خلاف کچھ لکھ بھی سکتا۔ مسٹر بھٹو کی اس سزا کے خلاف اپیل سپریم کورٹ نے سنی اور تین چار کی بنا پر مسترد کر کے سزائے موت کو بحال رکھا گیا۔ نظر ثانی بھی دائر ہوئی جسمیں بھٹو مرحوم نے گھنٹوں خود دلائل دئیے لیکن مشترکہ طور پرریویو کو بھی مسترد کر دیا گیا۔ اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ مسٹر بھٹو کو چار ہمراہی مجرمان کےساتھ 4۔اپریل سال1979 کو علی الصبح پھانسی پر چڑھا کر اس کی سزا پر عملدرآمد بھی کروا دیا گیا۔ بلاشبہ مسٹر بھٹو ایک ذہین فطین انسان تھے،ایک کامیاب لیڈر تھے ۔ مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جو شاید اغیار کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ لیکن کسی کی ضد کے ہاتھوں اسے صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا گیا ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنرل ضیا الحق مسٹر بھٹو کو راستے ہی سے ہٹانا چاہتے تھے تو اسے ملک بدر بھی کر سکتے تھے، چین اسے اپنے ہاں لے جانا چاہتا تھا اسے جانے دیتے یا کچھ سزا کم کر سکتے تھے، جو بطور صدر انکے پاس ایک اختیار بھی موجود تھا تو شاید اتنی خرابی پیدا نہ ہوتی، اتنا قیمتی انسان ضائع نہ ہوتا اور جب میں اس دور کو یاد کرتا ہوں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مسٹر بھٹو کی لاکھ پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود اس سے اچھا پالیسی ساز، عوام دوست اور عالمی سطح کا دلیر سیاستدان قائد اعظم کے بعد اس ملک کو اسوقت تک شاید نصیب نہ ہو سکا تھا۔ ایٹمی پروگرام کا وہ خالق تھا اور سب سے بڑھ کر کرپشن کا اس پر کوئی الزام نہ تھا،اگر جنرل ضیا الحق تھوڑی سی بھی لچک دکھاتے، تو فوجی حکمرانوں پر امریکہ کی تابعداری کا لیبل کبھی نہ لگتا، آج کا پاکستان کبھی ایسا ہوتا اور نہ یہ ان سب کا بچا کھچا کوڑا کرکٹ آج کے حکمرانوں کی شکل میں ہمارے نصیب میں آتا۔ حیرت ہے آج جس چور اچکے کو دیکھو وہ مسند اقتدار سنبھالے بیٹھا ہے لیکن جس نے یہاں زرا سی بھی خودداری ۔ ایمانداری دکھائی یا تو وہ قیدی نمبر 1772بھٹو بنایا گیا، 804 بنایا گیا۔نواب احمد رضا خان قصوری کے والد کا بلاشبہ بے رحمانہ قتل ہوا، مقدمہ بھی چلا اور انہیں اسوقت کی عدالتوں نے ہر سطح پر انصاف دیا۔ دوسرے فریق کا موقف ہے کہ یہ عدالتی قتل تھا جو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے زور بازو سے کروایا اور عدالتیں محض استعمال ہوئیں۔ جناب جو بھی ہوا بہت برا ہوا، قتل بذات خود ایک بد ترین فعل تھا تو انصاف کا قتل بھی اس سے بھی برا ہے لیکن اس چالیس پینتالیس سالہ عرصہ میں فریقین کے ورثا آج بھی موجود ہیں۔ جہاں پیپلز پارٹی بھٹو مرحوم کے بعد بھی کئی دفعہ اقتدار میں آ چکی ہے وہیں مسٹر احمد رضا خان قصوری بھی بلا خوف و خطر شاید بغیر کسی خاص سیکورٹی کے پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران نہ تو ملک سے بھاگے یا خوف زدہ ہوئے بلکہ انہیں ہم نے ہمیشہ ہر عدالت میں خود بطور وکیل پیش ہوتے دیکھا اور وہ کچھ حد تک عملی سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے۔ اگر میں انہیں عزم و ہمت، جرات و دلیری کا پیکر نہ کہوں تو اس سے کم کیا کہوں۔ لیکن میں مسٹر قصوری سے بھی یہ بات کہنے کی جسارت پر معافی مانگتا ہوں کہ آپ کے والد محترم تو چلے گئے، اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے تھے، لیکن اگر آپ بڑا دل کر کے بےنظیر بھٹو، شاہنواز بھٹو کے والد کو از خود معاف کر دیتے تو شاید آپ اسکی باقی زندگی تو بچا سکتے تھے، محترمہ نصرت بھٹو آپکے گھر آ کر آپکو اس سلسلے میں ملی بھی تھیں اور اگر حضور ایسا ہو جاتا تو نا صرف آپ کی عزت وقار اور احترام میں مزید اضافہ ہو جاتا بلکہ آپکو آج پھر سے بھٹو صدارتی ریفرنس جیسے خود ساختہ مقدمے کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور سب سے بڑھ کر اس قوم پر ایک احسان عظیم یہ بھی ہوتا کہ ملک پر کرپٹ اور نکمی کھیپ کبھی مسلط نہ ہو سکتی۔ جسمیں بھٹو کی موت پر رونے والے بھی شامل ہیں اور مٹھائیاں بانٹنے والے بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے