اداریہ کالم

سلامتی کونسل، غزہ امن منصوبے پر بڑی پیشرفت

اقوامِ متحدہ کی 15رکنی سلامتی کونسل نے سلامتی کونسل نے غزہ امن منصوبے کی منظوری دیدی ہے ، پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے13 مستقل اور غیر مستقل اراکین نے منصوبے کی حمایت کی ہے جبکہ چین اور روس نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا تاہم اس پر تحفظات کاا ظہار کرتے ہوئے ووٹنگ سے غیر حاضر رہے، چین اور روس نے کہا منصوبے میں دو ریاستی حل، غزہ کی مستقل حکمرانی اور عالمی فورس کے دائرہ کار سے متعلق ابہام ہے،دوسری طرف حماس نے کہا قرارداد فلسطینیوں کے جائز حقوق پورے نہیں کرتی، امریکی صدر ٹرمپ نے کہا قرارداد کی منظوری تاریخی لمحہ ہے، امن کونسل کی صدارت خود کرونگا، برطانیہ، فرانس ، یورپی یونین نے بھی قرارداد کا خیر مقدم کیا ۔اقوام متحدہ میں چینی مندوب کا کہنا تھا کہ منصوبے میں دو ریاستی حل اور غزہ کی فلسطینی حکمرانی اور بین الاقوامی فورس کے دائرہ کار اور ڈھانچے سے متعلق ابہام ہے،اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے بھی استحکام فورس پر اعتراضات اٹھائے، نیبنزیا نے مزید کہا اہم بات یہ ہے کہ یہ دستاویز، امریکا کی جانب سے اسرائیل میں، مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کیے جانے والے بے لگام تجربات کیلئے پردہ نہیں بننی چاہیے، حماس نے بھی قرارداد کو مسترد کردیا ہے، تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق اور مطالبات پوری نہیں کرتی اور غزہ پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش ہے، جسے فلسطینی عوام اور مزاحمتی دھڑے قبول نہیں کرتے۔حماس نے مزید کہا کہ بین الاقوامی فورس کو غزہ کے اندر دیے گئے کام، جن میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے،اس کی غیر جانبداری کو ختم کر دیتے ہیں اور اسے تنازع کا حصہ بنا دیتے ہیں، جو بالآخر قابض (اسرائیل)کے حق میں جاتا ہے۔فلسطینی اتھارٹی نے منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور ان کی آزاد ریاست کے قیام اور غزہ میں امداد کی بغیر کسی رکاوٹ کے ترسیل کی تصدیق کرتی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قرارداد کی حمایت کو تاریخی لمحہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ امن منصوبے سے متعلق قرارداد منظور کیے جانے کے بعد پاکستان کے مستقل مندوب برائے اقوامِ متحدہ عاصم افتخار احمدنے کہا کہ اسلام آباد نے اس منصوبے کی حمایت صرف ایک بنیادی مقصد کے تحت کی جس میں خونریزی روکنا، خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں بچانا، جنگ بندی برقرار رکھنا اور غزہ سے اسرائیلی فورسز کے مکمل انخلا کو یقینی بنانا شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ووٹ فلسطینیوں، عرب گروپ اور 8رکنی عرب-اسلامی گروپ کے موقف کے مطابق دیا گیا، جنہوں نے اس سال کے اوائل میں ٹرمپ کے منصوبے کی توثیق کی تھی۔ ہمارا ووٹ فلسطین اور عرب گروپ کے موقف کی روشنی میں دیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ سفارتی کوششوں کا مقصد جنگ کا خاتمہ، انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنانا، جبری بے دخلی کو روکنا اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک قابلِ اعتماد راستے کی حمایت کرنا تھا۔پاکستان نے مذاکرات کے دوران فعال کردار ادا کیا، عرب تجاویز کی حمایت کی اور اپنے ترمیمی نکات بھی پیش کیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ قرارداد کا متن فلسطینی مسئلے پر بین الاقوامی قانونی جواز کے مطابق ہو۔انہوں نے بعض تجاویز شامل کیے جانے کا خیرمقدم کیا، مثلا فائربندی برقرار رکھنے کے صریح مطالبے کا اضافہ اور سلامتی کونسل کو باقاعدہ رپورٹنگ کی شرط، لیکن ساتھ ہی کہا کہ کئی اہم نکات ابھی بھی تشنہ رہ گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے واضح سیاسی راستہ، فلسطینی اتھارٹی کا حکمرانی اور تعمیر نو میں مرکزی کردار، اور اقوامِ متحدہ کی بڑھتی ہوئی شمولیت، یہ سب نہایت اہم پہلو ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم پرامید ہیں کہ آنے والے ہفتوں میں مزید تفصیلات سامنے آنے سے وہ ضروری وضاحت مل سکے گی۔ کوئی بھی امن منصوبہ اسی وقت قابلِ قبول ہوگا جب وہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار، آزاد اور جغرافیائی طور پر مسلسل فلسطینی ریاست کی تشکیل کی طرف لے جائے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
انسداد پولیو کے لیے جاپان کی بڑی گرانٹ کا اعلان
جاپان نے پاکستان کو ضروری پولیو ویکسین کی خریداری میں مدد کے لیے 3.5 ملین امریکی ڈالر کی نئی گرانٹ کا اعلان کیا ہے، جس سے ملک کی پولیو کے خاتمے کی کوششوں کے لیے اس کی دیرینہ حمایت کو تقویت ملے گی۔پاکستان پولیو ایریڈیکیشن انیشی ایٹو (PEI) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ 2026 میں منصوبہ بندی کی جانے والی مہموں کے لیے 24 ملین سے زیادہ ویکسین کی خوراکیں خریدنے کے لیے فنڈنگ کا استعمال کرے گا۔پاکستان عالمی سطح پر ان دو ممالک میں سے ایک ہے جو ابھی تک پولیو وائرس کی منتقلی کو نہیں روک سکا ہے۔ 2025 میں اب تک پاکستان میں کل 30 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔لاعلاج بیماری کے خاتمے کی فوری کوشش میں،حکومت نے شراکت داروں کے تعاون سے،روڈ میپ ٹو زیرو کے تحت نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان 2025-26 تیار کیا ہے،جس کا مقصد ملک بھر میں پولیو کی منتقلی کو روکنا ہے۔ہر قومی امیونائزیشن مہم کا ہدف 45 ملین سے زائد پانچ سال سے کم عمر بچوں کو ہے،جن کی مدد سے 400,000 سے زیادہ فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز ہیں جو کمیونٹیز تک پہنچنے اور ویکسین کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پولیو کے خاتمے کے بارے میں وزیر اعظم کی فوکل پرسن عائشہ رضا فاروق نے کہا،یہ شراکت داری مالی امداد سے زیادہ کی نمائندگی کرتی ہے؛ یہ یکجہتی اور مشترکہ مقصد کی عکاسی کرتی ہے۔ویکسین کی ہر خوراک اور جاپان کے تعاون سے تعاون کی جانے والی ہر کوشش ہمیں پولیو سے پاک پاکستان کے قریب لاتی ہے۔ہم اپنے پروگرام اور اپنے فرنٹ لائن ورکرز پر جاپان کے مسلسل اعتماد کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔پاکستان میں جاپان کے سفیر نے پاکستان کی صحت کی ترجیحات کے لیے جاپان کے طویل مدتی عزم کا اعادہ کیا۔جاپان نے ہمیشہ اس بات پر یقین کیا ہے کہ بچوں کو قابل روک تھام کی بیماریوں سے بچانا کسی قوم کے مستقبل میں سب سے اہم سرمایہ کاری ہے۔
جلاوطنی میں مجرم
2024 کے کریک ڈاؤن کے لیے شیخ حسینہ کی سزا نے بنگلہ دیش کے پہلے سے ہی نازک سیاسی ماحول پر دبا ؤبڑھا دیا ہے۔ایک آمرانہ رہنما کو بالآخر سزا سنائی گئی۔بنگلہ دیش کی طویل عرصے سے طاقتور خاتون شیخ حسینہ کو 2024 میں طلبا کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے خلاف وحشیانہ اور خونی کریک ڈاؤن کا حکم دینے پر مجرم قرار دیا گیا ہے ۔ حسینہ کی حکومت نے اپنے ہی شہریوں کے ساتھ دشمن جنگجوں جیسا سلوک کیا اور اب انہیں ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔لیکن جب بھی فیصلہ طاقت کے ساتھ آتا ہے،اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جنوبی ایشیا میں،طاقتور رہنماؤں کے لیے انصاف شاذ و نادر ہی کہانی کا اختتام ہوتا ہے۔ہندوستان میں حسینہ کی موجودہ جلاوطنی اس طرز پر بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔اسے سزا سنائی گئی ہے پھر بھی کچھ لوگ حقیقت پسندانہ طور پر توقع کرتے ہیں کہ یہ اس کے سیاسی سفر کا اختتام ہے۔علاقائی سیاست کا حساب کتاب بتاتا ہے کہ ایک بار دھول اتر جائے گی،مذاکرات شروع ہوں گے۔دلچسپیاں دوبارہ پیدا ہو جائیں گی۔بیک چینل یقین دہانیاں سامنے آئیں گی۔اور آخر کار،ان جرائم کی سنگینی کے باوجود ج ن میں وہ قصوروار پائی گئی ہیں،وہ بند دروازوں کے پیچھے ایک اور فہم کے تحت بنگلہ دیش واپس چل سکتی ہے۔بنگلہ دیش کے لیے یہ غیر یقینی صورتحال انتہائی غیر مستحکم ہے۔فروری 2026 کے انتخابات سے پہلے ہی تشدد کی زد میں رہنے والی قوم کو اب طویل سیاسی تقسیم کے خطرے کا سامنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے