ہم جب لفظ بلیو اکانومی کہتے ہیں تو مراد ہے سمندر، ساحلی زون، بحری وسائل اور ان سے جڑے معاشی مواقع کا ایسا عالمی تصور جو بحری ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ اقتصادی نمو، ملازمتوں کی تخلیق اور معاشرتی بہبود کو فروغ دے۔ اس میں مچھلی فشریز، ساحلی سیاحت، سمندری ٹرانسپورٹ، شپ بِریکنگ، بحری توانائی، سمندری حیاتیاتی تحقیق اور بحری جہازرانی و لاجسٹکس جیسے شعبے شامل ہیں۔ اس تصور کا مقصد صرف خام وسائل نکالنا نہیں بلکہ سمندر کی صحت اور بحری ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھتے ہوئے ایک پائیدار معاشی نظام بنانا ہے ۔ جبکہ لفظ سمندری معیشت عموماً ان اقتصادی سرگرمیوں کیلئے بولا جاتا ہے جو براہِ راست سمندر اور ساحل کے وسائل سے منسلک ہوں، مثلا مچھلی فارمنگ، ماہی گیری، پورٹ ٹرانسپورٹ اور شپنگ وغیرہ۔بلیو اکانومی اس سے کہیں وسیع تر تصور ہے، کیونکہ یہ ماحولیاتی تحفظ، تحقیق و جدت، متبادل توانائی اور ساحلی ترقی کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ یوں بلیو اکانومی وہ فریم ورک ہے جس میں سمندری معیشت کو سماجی، ماحولیاتی اور تجارتی زاویوں سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے۔پاکستان میں حکومت نے اس ضمن میں نسبتا تازہ لیکن نمایاں اقدامات شروع کیے ہیں۔ وزارتِ بحری امور نے بلیو اکانومی پالیسی کی تیاری کا عمل شروع کیا ہے تاکہ ملک کے بحری اثاثوں سے سالانہ تقریبا ارب ڈالر کے معاشی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔اسی طرح قومی مچھلی فشریز و ایکواکلچر پالیسی 2025-35 بھی متعارف کرائی گئی ہے تاکہ سمندری اور اندرونی پانیوں کی مچھلی فارمنگ کو فروغ دے کر غذائی تحفظ اور موسمیاتی لچک پیدا کی جا سکے۔اسی تسلسل میں رواں سال 6 جون 2025 کوپاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اورکانفرنس کے موقع پر Maritime at 100 وژن پیش کیا گیا، جس کا ہدف ہے کہ 2047 تک بحری شعبہ 100ارب ڈالر سالانہ کے مساوی اقتصادی حجم حاصل کرے ۔ تاہم اس وقت پاکستان کی بلیو اکانومی کا موجودہ حجم تقریبا ارب ڈالر سالانہ ہے، جو قومی جی ڈی پی کا صرف . فیصد بنتا ہے۔ مچھلی کی برآمدات کا حجم تقریبا ملین ڈالر اور ساحلی سیاحت کا تخمینہ ملین ڈالر سالانہ ہے۔یہ تناسب ہمارے 1046 کلومیٹر طویل ساحل اور 240,000مربع کلومیٹر کے ایکسکلوزِو اکانومک زون کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ علاقائی موازنہ کے طور پر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش نے بلیو اکانومی کو قومی ترقی کے مرکزی دھارے میں لا کر نمایاں پیش رفت کی ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کی بلیو اکانومی کا حجم تقریبا 6 سے 7 ارب ڈالر سالانہ ہے، اور حکومت نے 2030تک اسے 10ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف رکھا ہے۔ وہاں سمندری فشریز، شپ بلڈنگ، ساحلی سیاحت اور بحری توانائی کے منصوبوں میں نجی و غیر ملکی سرمایہ کاری تیزی سے بڑھ رہی ہے جو پاکستان کیلئے ایک عملی ماڈل فراہم کرتی ہے کہ کس طرح حکومتی وژن کو ادارہ جاتی عمل میں بدلا جا سکتا ہے ۔ پاکستان میں مثبت پیش رفت کے باوجود چند بنیادی رکاوٹیں موجود ہیں: ادارہ جاتی فریم ورک اور گورننس کا فقدان، پورٹس و شپ یارڈز کی کمزور صلاحیت، ماحولیاتی آلودگی، غیر رپورٹ شدہ ماہی گیری، اور تحقیقی مراکز کی کمی۔ یہ تمام عوامل ترقی کی رفتار کو سست کر رہے ہیں۔اگر ہم قلیل مدت میں اس شعبے کو وسعت دینا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ٹھوس حکمتِ عملی کے تحت نجی شعبے کی شمولیت بڑھائی جائے، پورٹ لاجسٹکس، شپنگ اور ماہی فارمنگ میں شراکت داری قائم ہواور علاقائی تعاون خصوصا خلیجی ممالک، وسطی ایشیا اور مشرقی افریقہ کے ساتھ بحری روابط کو مضبوط کیا جائے۔ساتھ ہی تحقیق، جدت اور سبز ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری ناگزیر ہے جیسے بحری توانائی (ساحلی ہوا اور سمندری لہروں سے توانائی)، شپ ری سائیکلنگ، گرین پورٹس، اور ساحلی کمیونٹیز کی پائیدار ترقی۔امید کی جا سکتی ہے کہ اگر یہ اقدامات تسلسل کے ساتھ جاری رہے، تو پاکستان کی بلیو اکانومی نہ صرف اپنی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈال سکتی ہے بلکہ ملک کو ایک نیلی معیشت کے انقلاب کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے ۔ آخرکار، ملک کا بحری رخ محض قدرتی اثاثوں پر نہیں بلکہ بروقت فیصلہ سازی، پائیدار حکمتِ عملی اور عالمی منڈیوں سے مثر انضمام پر منحصر ہے۔ اگر ہم نے اپنے ساحلوں کو صرف سمندر نہیں بلکہ امکانات کے سمندر کے طور پر پہچانا، تو یہی نیلا افق ہماری معیشت کی نئی توانائی بن سکتا ہے۔

