سوات ایک خوبصورت علاقہ ہے جہاں سیاحت کے شوقین افراد دور دور سوات کا رخ کرتے ہیں ایسے میں فیملیاں بچوں کے ساتھ، نوجوان دوستوں کی ٹولیوں میں سیروتفریح کے لیے سوات آتے ہیں۔ سوات شہر سے ایک دریا بھی گزرتا ہے۔ جب اس دریا میں پانی کم ہوتا ہے تو اس کے کنارے عارضی ریسٹورنٹ سج جاتے ہیں جہاں پر سیاحوں کیلیے بہتے پانی میں کرسیاں ٹیبل لگا کر کھانا پینا دیا جاتا ہے۔سیاح بھی اس جگہ پکنگ منانا سلفیاں بنانا پسند کرتے ہیں۔ سوات کے دلفریب نظاروں سے اور موسم سے لوگ انجائے کرتے ہیں۔ کاش یہاں کی انتظامیہ سیاحوں کے لئے حفاظتی انتظام کر رہی ہو تی تو معصوم جانیں یوں نہ دریا کی خونی لہروں کی نظر ڈوبتی نہ یہ دلخراش ڈوبنے کا واقع پیش نہ آتا۔ کہتے ہیں آگ کو تو پانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے مگر بہتے پانی کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ سوات کا اکثر یہ دریا پرسکون سے بہتا رہتا ہے مگر برسات کے موسم اس دریا کے تیور یک دم بارشوں سے بدل جاتے ہیں خوب اچھلتا ہے بکھیرتا ہے۔پھر اس کے پانی کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ موسم برسات میں دریا کے پانی میں یک دم اضافہ ہوتا ہے۔سیاحوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ پانی کے ریلے سے کیسے بچا جائے۔ وہ بے بس ہوتے ہیں اور موت انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ دریا کا پھیلا زیادہ ہونے سے اس میں بہتا پانی کم لگتا ہے لہٰذا بچے عورتیں مرد جواں اس پانی میں چل کر لطف اندوز ہوتے ہیں کرسیاں، ٹیبل لگا کر پکنگ مناتے ہیں۔ مقامی لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ برسات کے موسم دریا میں اچانک پانی کا ریلہ آتا ہے جس کے بعد وہ ہر چیز بہا کر ساتھ لے جاتا ہے۔ پھر دریا کے دونوں اطراف والے لوگ اس دریا کو آر پار نہیں کرسکتے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں ہی وہ سیاح جو خاندان دوستوں کے ساتھ انجائے کرنے آئے تھے۔ بیچ دریا میں کم پانی میں کھڑے کھا پی رہے تھے کہ بے رحم موجوں کا اچانک ریلہ آیا اور ان سب کو بہا کر لے گیا۔ کناروں پر کھڑے لوگ مدد کیلیے ریسکیو کو کال کرتے ہیں۔ ریسکیو والے رسے کے ساتھ آتے ہیں ۔ وہ بھی سامان نہ ہونے کی وجہ سے تماش بین بن کر لوگوں کو ڈوبتے دیکھتے ہیں جب بڑی گاڑی ریسکیور کی پہنچتی ہے تو وہ بھی بغیر سازوسامان کے اتی ہے۔ دیر سے آنے سے اس وقت تک پانی ان سب کو بہا کر لے جا چکا تھا۔ یہ تو پتہ چلا کہ ریسکیو کا محکمہ تو موجود ہے مگر بغیر سازوسامان ۔ اب ان کا کام سیاحوں کی لاشیں نکالنا ہی رہ گیا تھا آخری خبر انے تک اب بھی ایک بچے کی لاش نہیں ملی۔ اس واقع کے بعد ایک صوبہ دوسرے صوبے کو طعنوں کے نشتر مارنا شروع کرتا ہے یعنی اس پر لاشوں کی سیاست شروع ہو جاتی ہے۔ میڈیا پر تبصرے جاری ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ اس کے قصور وار مرنے والے خود تھے ۔ کیا ضرورت تھی انہیں دریا کے درمیان میں پکنگ منانے کی۔ یعنی یہ کہہ رہے ہیں کہ مرنے والوں کو اپنی موت سے بچنے کیلئے انتظام کر کے انا چائے تھا۔ کفن اور ایمبولیس کا بندوبست کر کے اتے۔ دنیا ساری میں سیاحت کے فروغ کے لیے سیاحوں کی جان و مال کی حفاطت کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے کیوں ؟ اس لیے یہاں جانور انسان ایک گھاٹ پر امیروں کا پھینکا گیا کھانا تلاش کرتے ہیں کھاتے ہیں پیتے ہیں۔ سوات میں ہر سال ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں مگر وقتی طور پر شور اٹھتا ہے پھرخاموشی ۔ اس لیے کہ یہاں زندگی میں سزا و جزا کا نظام قائم نہیں ہے۔ مرنے کے بعد کے نظام پر ہی ہمارا زور ہوتا ہے کہ وہاں حساب ہو گا بے حساب ہوگا سزا ہو گی جبکہ غیر مسلم اسی دنیا میں سزا کے نظام پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوات کا واقع سراسر اداروں کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ کے پی کے کے چیف جسٹس جسٹس سید عتیق شاہ نے سخت ایکشن اس واقع پر لے رکھا ہے۔دیکھتے ہیں قانون کیا کرتا ہے۔یہ طہ ہے کہ حکومتیں ادارے اس واقع کے زمہ دار ہیں مگر ابھی تک ان میں بلیم گیم جاری ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے سوات میں سیلابی ریلے میں لوگوں کے بہہ جانے کے فوری بعد متعدد اقدامات کیے ہیں۔ جس میں اعلی افسران کی معطلی بھی شامل ہے۔ سوات کے ڈپٹی کمشنر، ضلعی ہیڈ Rescue1122، اور دو دیگر افسران سمیت چار سینئر سرکاری اہلکاروں کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے تاکہ واقعے میں ممکنہ غفلت کی تحقیقات کی جا سکے۔ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے وزیراعلی نے چودہ دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے اور ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس میں ضلعی انتظامیہ کے افسران شامل ہیں تاکہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔ سزائیں اور مقدمات پر اوازیں بلند ہیں۔ سول سوسائٹی نے ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے جبکہ انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کرنے اور 45خلاف ورزیوں کے نوٹس جاری کرنے کے ذریعے سیاحوں کو خبردار کیا ہے۔ ریسکیو اور ریلیف آپریشنز ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو 1122کی ٹیموں نے تقریبا 120 اہلکار چھ مقامات پر تعینات اب کر دئے کیے ہیں پاکستان آرمی اور دیگر اداروں نے بچائو اور ڈوبنے والوں کی تلاشی کے کام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ریلیف پیکیج اور معاوضہ چیف منسٹر علی امین گنڈا پور نے متاثرہ خاندانوں کے لیے 150000روپے.یعنی ایک لاکھ پچاس ہزار روپے فی فرد معاوضہ کا اعلان کیا ہے، سوال ہے اتنی رقم سے گائے نہیں اتی انسانی جان کے معاوزے میں ہی کچھ بہتری لے اتے ۔یہ اچھا کیا ہے کہ فوری طور پر تمام سیاحتی اور تجارتی سرگرمیاں دریا کے کنارے عارضی طور پر بند کر دی ہیں ۔ غیر قانونی تعمیرات کیخلاف اقدامات دریا کے کنارے غیر قانونی ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور دیگر تعمیرات کے خلاف کریک ڈان شروع کر دیا ہے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے تاکہ 2014 کے River Protection Act کے تحت خلاف ورزی کرنیوالوں کا تعین کیا جا سکے ۔ حکومت نے فوری طور پر افسوس کا اظہار کیا لیکن عوام اور سول سوسائٹی نے ریسکیو ٹیموں کی سست طبیعت اور ابتدائی تاخیر پر شدید تنقید کی جارہی ہے ۔سابق وزیراعلیٰ محمود خان نے مقامی انتظامیہ پر نہ صرف غفلت بلکہ ریسکیو مشینری کی نقل و حمل پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ اس پرحکومت نے سخت اقدامات کرنے کا ارادہ کیا ہے۔معطلی، تحقیقاتی کمیٹیاں، کریک ڈان اور معاوضہ۔ البتہ ریسکیو آپریشنز میں تاخیر، ناقص آلات، اور انتظامی غفلت پر عوامی اور سول سوسائٹی کی جانب سے سخت ردعمل آیا ہے۔ اس سانحے نے صوبے میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے نظام پر گہرا سوال اٹھایا ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف موت پر افسوس ہی کافی نہیں عوام تقاضا کر رہے ہیں کہ نظامی اصلاحات کے لئے عملی اقدامات بھی کیے جائیں ۔ریسکیو کا عملہ بغیر سازوسامان کے کیوں تھا۔دو بچوں کے باپ نے روتے ہوئے میڈیا پر بتایا جب ریسکیو والے پہنچے تو ان کے پاس صرف ایک دسہ تھا دوسری گاڑی پہنچی تو ان کے پاس بھی ایک رسہ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کیا ریسکیو کے ادارے کا بجٹ نہیں تھا یا کوئی کھا گیا۔ملک میں معدنیات موجود ہیں مگر اواز اتی ہے ملبہ سے ایک اور لاش نکال لی گئی۔ لگتا یہی ہے کہ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا۔