کالم

سوشل میڈیا احترام انسانیت سے احترام مذاہب تک

آ ج کے دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا دن بدن اسکی اہمیت بڑھ رہی ہے انٹرنیٹ نے دور دراز تک اپنی بات پہنچانے کو آسان کر دیا ہےاس سے جہاں رابطے تیز اور موثر ہوئے وہاں اس کے کئی نقصانات ہیں سوشل میڈیا کے فوائد حاصل کرنے کیلئے پڑھا لکھا اور باشعور ہونا ضروری ہے سوشل میڈیا کے نتائج اس کے استعمال کرنےوالے پر منحصر کرتے ہیں کہ وہ اس کا مثبت استعمال کرتا ہے یا منفی سوشل میڈیا تعلیم ، رابطوں میں تیزی طبی مقاصد اور انفارمیشن کے تبادلے کےلئے استعمال کیا جائے تو اس کے خاطرخواہ فائدہ مند نتائج ہیں تاہم اگر اس کا استعمال غلط اطلاعات اور افواہیں پھیلانے، مقدس ہستیوں کی توہین ، مذہبی منافرت سیاسی دشمنی اور نفرتوں میں اضافہ اورجھوٹی خبریں پھیلانے کیلئے استعمال کیا جائے تو اس کے شدید منفی نتائج برامد ہوتے ہیں بلکہ اس سے معاشرے میں شر پھیلتا ہے ۔ سوشل میڈیا اج کل کے دور میں ایک طاقتور ترین ہتھیار ہے، دن بدن اس کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ،ہم لوگوں کی پوسٹیں دیکھتے بھی ہیں ان پر ریمارکس بھی دیتے ہیں اور ان پر دیے گئے ریمارکس پڑھتے بھی ہیں ،سو ہمیں انتہائی سوچ سمجھ کر احتیاط سے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیے آزادی کا قطعا مطلب مادر پدر ازادی نہیں ہوتا، واٹس ایپ ،فیس بک یوٹیوب ، اسکائپ اور ٹوئٹر استعمال کرنیوالوں میں ایک بڑی تعداد کم تعلیم یافتہ اور ٹین ایجرز کی بھی ہے جو ناسمجھی میں اس کابے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور وہ اس کے منفی مضمرات سے واقف نہیں ہوتے، پسند اور ناپسند کی بنیاد پر معاشرے میں نفرتیں پھیلا رہے ہوتے ہیں کئی مذہبی ,فرقہ پرست گروپس سوچ سمجھ کر پلاننگ کے تحت سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر رہے ہیں، بعض اوقات یہ مذہبی گروپ غیر ملکی سازشوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ صارف ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کے خلاف بیانات میں ایسا طوفان بدتمیزی برپا کرتے ہیں کہ الاامان الاالحیظ، سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی توہین امیز خاکے بنانا اور بیانات توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے ساتھ ،کسی کی تضحیک اڑانا اور پگڑی اچھالنا بھی عام ہے جس سے معاشرے کو بے پناہ نقصان پہنچ رھا ہے ایک غلط اور جھوٹی مذہبی یا سیاسی پوسٹ کے نتائج کس قدر خطرناک ہو سکتے ہیں اس کا شاید اس پوسٹ کرنے والے کو بھی انداز نہیں ہوتا ا گرچہ حکومتی سطح پر ایف ائی اے ان سوشل میڈیا اکانٹس ہولڈرز کے خلاف کارروائی کر رہی ہے ایف ائی اے نے اپنے توہین مذہب سائبر کرائم کے حوالے سے سیل بنا رکھے ہیں کئی افراد کو گرفتار بھی کیاگیا کئی کو عدالتوں سے سزائیں ہوئیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ توہین مذہب کے حوالے سے جوقوانین اس وقت موجود ہیں ان پر موثر طریقے سے عمل درامد کیا جائے، یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ایسے اکانٹس کو بلاک کرنے کےلئے مانیٹرنگ کا موثرنظام وضع کر کے اس پر عملدرآمد کرئے نوجوان نسل کی تربیت اسلامی خطوط پر کی جائے اور ان کے لیے تربیتی سیشن سٹارٹ کیے جائیں، صارفین کو یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کو منفی پروپگنڈا اور جاسوسی کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے ملک دشمن عناصر منفی پروپگنڈا کے ذریعے اپنے مفادات اور مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس امر کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کو بالغ اور باشعور افراد استعمال کریں اس حوالے سے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر گہری نظر رکھیں اور وہ اس کاا غلط استعمال کرنے کے کسی بھی امکان کی گنجائش نہ رکھیں ،مستعد اور چوکس رہتے ہوئے بچوں کی نگرانی کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کریں ۔آئی ٹی ایکسپرٹس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے ،تاکہ بچے سوشل میڈیا کی یلغار میں مذہبی یا سیاسی انتہا پسندی کا راستہ اختیار نہ کرسکیں ،انکی نگرانی کا مربوط نظام بھی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ دنیا کے اکثر ممالک میں ملکی قوانین کی پابندی ضروری ہے وہاں سوشل میڈیا سائبر کرائم کے حوالے سے کئی اہم فیصلے بھی سامنے ا چکے ہیں آزادی کا مطلب کہیں بھی یہ نہیں کہ مقدس ہستیوں اور اسلامی شعار کی توہین، مذہبی عقائد اور نجی زندگی میں مداخلت کی جائے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کےلئے کوئی حدود و قیود نہیں اس کےلئے موثر قوانین ہونے چاہئیں جبکہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو اپنے لیے خود بھی ایک ضابطہ اخلاق بنانا ہوگا اور اپنا احتساب خود کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں آزاری اظہار کا مطلب غلط لیا جاتا ہے مقدس ہستیوں کی توہین سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا سوشل میڈیا کے تمام صارفین کیلئے ضروری ہے کہ وہ کوئی بھی پوسٹ کرتے یا کسی پوسٹ کو لائک ، ڈس لائک اور شیئر کرتے وقت اس کی درستگی کی تصدیق کر کے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں ۔خصوصا سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں اورمذہبی منافرت پھیلانےا والوں کے خلاف کارروائی، نفرت آمیز مواد کی اشاعت پر پابندی کے قوانین پر۔موثر عملدرآمد کی ضرورت ہے جبکہ مذہبی ہم آہنگی رواداری کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔سوشل میڈیا۔ کے استعمال کو شفاف بنانے کی اہم ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے ،محض غلط پوسٹوں پر پابندی اور سزا ہی اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے بہترین استعمال کے لئے بھرپور آگاہی مہم چلانا بھی ریاست کی ذمے داری ہے ،سوشل میڈیا صارفین کو ایجوکیٹ کرنا بھی اہم ہے ۔اس حوالے سے ایک جامع اور مربوط ضابطہ اخلاق ترتیب دیکر اسکی تشہیر بھی کی جائے ،عام صارفین کو اس کے فائدے اور نقصانات سے آگاہ رکھتے ہوئے اس پر 100فیصد عملدرآمد بھی وقت کی ضرورت ہے ،کیونکہ سوشل میڈیا اب انسان کے معاشرتی نظام کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے اس لئے اس کا ہر لحاظ سے بہترین استعمال ہی اس سے جڑے تمام بنیادی مسائل کا حقیقی حل ہوگا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے