سپریم کورٹ کی جانب سے قادیانی کمیونٹی کے ایک شخص کو ضمانت دیئے جانے پر ملک بھر میں احتجاجی کیفیت کی ایک لہر پیدا ہوئی ہے ،یہ فیصلہ6فروری کو سنایا گیا تھا لیکن سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کے بعد گزشتہ دو روز سے وسیع پیمانے پر رد عمل سامنے آنا شروع ہو چکا ہے ،ملک بھر میں مختلف سیاسی مذہبی جماعتیں ،تنظیمیں سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ،جمعیت علمائے اسلام ،جماعت اسلامی ،تحریک لبیک ،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،مجلس احرار پاکستان ،جمعیت اہلحدیث ،تحریک تحفظ ناموس رسالت اور دیگر جماعتوں و تنظیموں کی جانب سے مذمتی بیانات آچکے ہیں اور فیصلہ واپس لینے کے مطالبات کئے جارہے ہیں ،مذمتی بیانات اور مطالبات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اس میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے ۔مذکورہ مقدمہ6دسمبر2022کو چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں درج ہوا تھا جس میں قادیانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد اور ایک خاتون کو نامزد کیا گیا تھا ،اس مقدمے کے مدعی تحفظ ختم نبوت فورم نامی تنظیم کے سیکرٹری جنرل محمد حسن معاویہ تھے ،ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے 7مارچ2019کو مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران تحریف شدہ قرآن کی تفسیر60سے زائد بچوں میں تقسیم کی تھیں،واضح رہے کہ یہ تفسیر جس کا نام ؛تفسیر صغیر ؛ ہے قادیانیوں کی جانب سے تحریف کرکے مرتب کی گئی ہے ،اس مقدمے کی تفتیش کے بعد پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی شخص کو7جنوری 2023کو گرفتار کرلیا اور اس مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کردیا ۔گرفتاری کے بعد ملزم کی جانب سے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی جسے پہلے ایڈیشنل سیشن جج اور بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کردیا تو یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ،سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت کی اپیل کے ساتھ ہی ملزم کی جانب سے اپنے اوپر عائد ہونے والی فرد جرم سے مختلف جرائم حذف کرنے کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی ،سپریم کورٹ کی جانب سے ملزم کی دونوں درخواستوں کو منظور کرلیا گیا بالخصوص ملزم پر عائد ہونے والی فردم جرم سے دو مرکزی جرائم حذف کردیئے گئے جس سے مقدمہ اس قدر کمزور ہو گیا کہ ملزم کی درخواست ضمانت کو با آسانی منظور کرلیا گیا ،سپریم کورٹ کے اسی فیصلے سے ملک کے طول عرض میں ایک احتجاجی ردعمل پیدا ہوا اور فیصلے کو واپس لینے کے مطالبات شدت اختیار کرنے لگے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے باضابطہ وضاحت جاری کی گئی ہے جس میں نظر ثانی کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے ۔سپریم کورٹ کے وضاحتی اعلامیہ کے مطابق میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر فیصلے سے متعلق غلط تاثر پیدا کیا جارہا ہے ،فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا آئینی راستہ موجود ہے مگر اسے اختیار کئے بغیر تنقید کی آڑ میں عدلیہ اور ججز کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے ،اگر فیصلے میں اسلامی اصول کی غلطی ہوئی ہے تو اصلاح اہل علم کی ذمہ داری ہے اور قانونی راستہ موجود ہے اور اگر تنقید ضروری ہو تو مناسب اسلوب میں تنقید بھی کی جا سکتی ہے ،دوسری جانب چیئرمین پاکستان علما کونسل اور نمائندہ خصوصی وزیر اعظم پاکستان مولانا طاہر اشرفی نے پریس کانفرنس کے دوران حکومت پنجاب کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کے متعلق آگاہی دی جس سے یہ بات تو طے ہو گئی کہ اب اس فیصلے پر سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی کاروائی ہو گی ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ مولانا طاہر اشرفی نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ کچھ لوگ اس معاملے کو سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کر رہے ہیں جو خطرناک رحجان ہے ۔اگر بات کی جائے سوشل میڈیا کی تو یہاں اس بابت ایک خطرناک رحجان دیکھنے کو مل رہا ہے ،اس وقت سوشل میڈیا پر عدلیہ یا چیف جسٹس کے خلاف توہین آمیز ٹرینڈ چلائے جارہے ہیں بلکہ مختلف ویڈیوز اور پوسٹوں میں دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں ،وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے تو یہاں تک بتا دیا کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا کو تشدد پر اکسانے کےلئے استعمال کر رہے ہیں اور خلاف قانون سرگرمیوں کے خلاف سخت کاروائی ہو گی ،اسی سلسلے میں روالپنڈی پولیس نے گزشتہ روز راولپنڈی کے رہائشی عبدالواسع کو گرفتار کیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے سول میڈیا پر چیف جسٹس کے خلاف دھمکی آمیز مہم چلائی تھی ،پولیس کے مطابق نشاندہی کے بعد ایسے مزید کئی افراد کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جارہی ہے ۔اس ساری صورتحال میں دیکھا جائے تو سوشل میڈیا ایک ایسا شتر بے مہار نظر آتا ہے جو کسی کے قابو میں نہیں آتا ،اور جب معاملہ توہین مذہب یا مذہبی اختلافات کا ہو تو یہی سوشل میڈیا خطرناک اور نقصان کا موجب بنتا ہے ،یہاں حکومتی رٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے ،توہین مذہب کسی بھی مسلمان کے لئے ناقابل برداشت اور نا پسندیدہ ترین عمل ہے مگر درست طریقہ کار اپنائے بنا الزامات لگانا،دھمکیاں دینا اور انتشار پیدا کرنا کسی صورت بھی ٹھیک نہیں ،سپریم کورٹ کے فیصلے میں اگر کوئی ابہام نظر آتا ہے ،کوئی غلطی دکھائی دیتی ہے تو اس کا درست طریقہ کار نظر ثانی کی درخواست دائر کرنا ہے نہ کہ ملک میں افراتفری پیدا کرنا ،اس قسم کا رویہ سیاسی امور میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ ملک کے حساس ترین اداروں کے خلاف بھی سوشل میڈیا زہر اگلنے کی ایک فیکٹری بن چکی ہے ،ریاستی اداروں اور سیاسی حکمرانوں کےلئے اب یہ ناگزیر ہوچکا ہے کہ سوشل میڈیا سمیت انٹرنیٹ کےلئے فوری طور پر جامع پالیسیاں مرتب کی جائیں اور ٹھوس قانون سازی کی جائے ،ہمارے ہاں اس کا شدید فقدان پایا جاتا ہے ،اگر کچھ قانون سازی ہوئی بھی ہے تو اس پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت ضرورت سے بہت زیادہ کم ہے ،ان قوانین کو سختی کے ساتھ لاگو کرنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔